• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چھوئی موئی.....

کیا آپ کے ساتھ کبھی ایسا ہوا کہ آپ کسی جگہ جا کر پچھتائے بھی ہوں اور واپسی پر خود کو شاباش بھی دی ہو؟ہمارے ساتھ ایسا ہوا۔ گذشتہ روز سہ پہر کے وقت ہم اپنے ایک بہت عزیز دوست کے گھر گئے۔دروازے پر پہنچے تو اندر سے برتنوں کے چھنکنے ، بچوں کے ٹھنکنے اور بڑوں کے برسنے کی آوازیں آئیں۔ ہم چونکہ پاپ موسیقی میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے لہٰذا اس شش و پنج میں مبتلا ہو گئے کہ واپس جائیں یا گھنٹی بجائیں۔ بچپن سے سنتے آئے تھے ، دوست آں با شد کہ گیرد دستِ دوست،چنانچہ مناسب نہیں سمجھا کہ اس خلفشار کی حالت میں دوست کی خیریت معلوم کیے بغیر واپس ہو لیں۔ کیا پتا کہ اس تخریب میں سے ہم تعمیر کی کوئی صورت برآمد کر لیں۔پس، ہم نے ہمت کر کے دروازے کی گھنٹی پر انگلی رکھ دی۔ ہمارے دوست کا بارہ سالہ لڑکا باہر نکلا۔ ہمیں دیکھ کر اس نے اس طرح اطمینان کا سانس لیا جیسے ہم کوئی’’15‘‘کی گاڑی ہوں جو اتفاق سے بر وقت پہنچ گئی ہو۔ ہم نے پوچھا’’بیٹا، اندر خیر تو ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’انکل، خیر کہاں، آج ابّو کا روزہ ہے!‘‘

اب یہ بات واضح ہو گئی کہ مسئلہ قطعی طور پر داخلی تھااور چونکہ ہم کسی کے داخلی معاملات میں دخل اندازی کے قائل نہیں، لہٰذا بچے کے گال تھپک کر پلٹنے لگے، تاہم اس نے ہاتھ پکڑ کر روک لیا اور زبردستی اندر لے گیا۔وہاں پہنچے تو گھر کی حالت مولانا کوثر نیازی کے اس شعر کی عکاس نظر آئی ؎

کہیں بکھری ہیں کتابیں ،کہیں میلے کپڑے

گھر کی حالت ہی عجب ہم نے بنا رکھی ہے

خود ہمارے دوست کی حالت پر مصحفیؔ کا یہ شعر صادق آتا تھا ؎

شیشۂ مے کی طرح اے ساقی

چھیڑ مت ہم کو بھرے بیٹھے ہیں

موصوف غصے سے ہانپ رہے تھے اور معصوم بچے ان کے سامنے بیٹھے کانپ رہے تھے۔ ہم نے نہایت آہستگی اور شائستگی کے ساتھ ان سے کہا ’’میرا بے وقت آنا آپ کو ناگوار تو نہیں گزرا؟‘‘ بس صاحب ،وہ تو اُکھڑ ہی گئے۔دوستی ،دیرینہ مراسم اور مہمان نوازی کے تمام تقاضوں کو ٹریفک قوانین کی طرح روندتے ہوئے بے زاری کے عالم میں بولے’’ تم اس سے پہلے کبھی صحیح وقت پر آئے ہو؟ میں نے کبھی ناگواری کا اظہار کیا ہے جو آج کروں گا؟‘‘

جی تو چاہا کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دے کر بھاگ چلیں لیکن ان کی ذہنی کیفیت کے پیش نظر ہم نے ان کی ترش روئی اور تلخ کلامی کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا’’اچھا تو میں اجازت چاہتا ہوں۔‘‘ اس کے ساتھ ہی اٹھنے کا پوز دیا۔اس پر انہوں نے قہر آلود نگاہوں سے ہمیں بیٹھنے اور بچوں کو کمرے سے چلے جانے کا حکم صادر فرمایا۔ ان غریبوں کی جان میں جان آ گئی۔ پلک جھپکتے ہی ایسے رفو چکر ہوئے کہ فانیؔ بدایونی یاد آ گئے ؎

فصلِ گُل آئی یا اجل آئی کیوں درِ زنداں کھلتا ہے

کیا کوئی وحشی اور آ پہنچا یا کوئی قیدی چھوٹ گیا

اب ہم دونوں کمرے میں اکیلے رہ گئے۔ پانچ منٹ تک ماحول پر مکمل خاموشی چھائی رہی اگرچہ ہم کسی کی موت کا سوگ نہیں منا رہے تھے۔ ان کی آنکھیں چھت کے پنکھے پراور ہماری آنکھیں ان کی آنکھوں پر جمی رہیں۔اتنے میں بھابی ،باورچی خانے سے فارغ ہو کردوپٹّے سے ماتھا پونچھتی ہوئی آگئیں۔ہماری آمد پر شکریہ ادا کر کے انہوں نے کہا ’’بھائی صاحب، یوں تو بارہ مہینے ان کی طرف سے جارحیت اور زبانی گولا باری جاری رہتی ہے اور ہم کسی نہ کسی طرح ان کا مقابلہ کر لیتے ہیں، لیکن سال میں یہ ایک دن ہم پر ایسا آ تا ہے جب ہمیں بیرونی دفاعی امداد کی ضرورت پڑتی ہے۔ میں سوچ رہی تھی کہ دن بھر کے لیے امی کو بلا لوں لیکن اُنہیں دیکھ کر یہ ایسے بدکتے ہیں جیسے نہ جانے کیا ہوگیا۔‘‘

اس پر ہمارے دوست جھلائے’’ یہی، بس یہی چھینٹے بازی میرا موڈ آف کر دیتی ہے۔ اس گھر میں کسی کو احساس نہیں کہ میں گریڈ19کا افسر ہوں، کیا چھوٹا، کیا بڑا ہر کوئی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرتا ہے، سر کشی پر آمادہ رہتا ہے۔ میرا جی چاہتا ہے ابھی سب کو شو کاز دے دوں یا انہیں ’’نیب‘‘ کے حوالے کر دوں،ان لوگوں کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے، نا کردہ گناہ بھی قبول کرلیں گے۔‘‘

ان پر افسری پوری طرح حاوی تھی۔ اسی ہذیانی کیفیت میں انہوں نے شیر خوار سے لے کر شیر فروش تک سب کے خلاف فرداً فرداً زبانی چارج شیٹ جاری کردی۔حقیقت یہ ہے کہ لاتعداد افسران بالا کی طرح ہمارے یہ دوست بھی گریڈ کے مراق میں گرفتار ہیں۔ ان کا اٹھنا بیٹھنا، ملنا جلنا، کھانا پینا، چھینکنا، کھانسنا سب کچھ گریڈ کے تابع ہے۔ شاید قیامت میں ان کی کوشش ہوگی کہ احتساب کا عمل بھی گریڈ کے مطابق Through proper channel(درجہ بدرجہ ) ہو، ایسے لوگوں کا جب معدہ ہلکا ہوتا ہے تو دماغ اور بھاری ہو جاتا ہے اور پھر ان کی حالت قابل رحم ہوتی ہے۔

ہم نے اپنے طور پر انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ برادر، گریڈ اگر واقعی کوئی چیز ہے تو اسے دفتر کے گیٹ کے اندر ہی چھوڑ کر آنا چاہیے،جو لوگ گریڈ کے معاملے میں زیادہ حساس ہوتے ہیں وہ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے ہی دفتر میں ’’ڈی گریڈ‘‘ ہوتے ہیں۔ دفتر کے باہر، خصوصاً گھر پر سب ’’ہم گریڈ‘‘ ہیں۔ لہٰذا جب تک تمہارے ذہن سے ’’گریڈیائی لہروں‘‘ کا مکمل اخراج نہیں ہو جاتا، مسئلہ اپنی جگہ برقرار رہے گا اور گھر والے بے قرار رہیں گے۔

وہ ہماری باتیں طوعاً و کرہاً سنتے رہے۔ ہم سے اتفاق تو کیا کرتے بس مٹھیاں بھینچ بھینچ کر رہ جاتے تھے۔ دوسری طرف بھابی ان کی بے بسی کا لطف لے رہی تھیں۔اس خشک و عظ و نصیحت کے ذریعے ہم ان کا روزہ بہلاتے رہے اور افطار کے قریب بمشکل ان لوگوں سے رخصت طلب کی۔ ہم اٹھنے لگے تو بھابی نے رقت آمیز لہجے میں کہا ’’بھائی صاحب، پندرہ بیس منٹ اور ٹھہر جاتے۔افطار تک ہمیں کس کے سہارے پر چھوڑے جا رہے ہیں؟‘‘ ’’جس کے لیے آپ نے روزہ رکھا ہے‘‘ ہم نے انہیں دلاسا دیا اور اپنی مجبوری بتائی’’بھابی صاحبہ، اگر میں روزے سے پہلے گھر نہیں پہنچا تو کل بغیر سحری کا روزہ رکھنا پڑے گا جس کی مجھ میں ہمت نہیں۔‘‘

یہ ایک گھر کا منظر تھا لیکن دراصل یہ ہے ،کہانی گھر گھر کی ۔تاہم، ہمارے خیال میں ایسا صرف ان گھروں میں ہوتا ہے جہاں کوئی ’’ٹچ می ناٹ‘‘ ٹائپ کا فرد کبھی کبھار ’’علامتی روزہ ‘‘رکھ کر تمام دن ملامتی کردار ادا کرتا ہے، جن گھروں میں روزہ ایک معمول کی بات ہے وہاں زندگی بھی معمول کے مطابق گزرتی ہے۔ بعض گھروں میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ صاحب بہادر سحری تو باقاعدگی سے کرتے ہیں، خوب ڈٹ کر اور بیوی کو ڈانٹ کر کھاتے ہیں لیکن روزہ ندارد۔ ایک خاتونِ خانہ نے اپنے ایسے ہی سحری خور لیکن روزہ چور شوہر کو غیرت دلانے کے لیے ایک دن ان سے کہا’’ جب آپ روزہ نہیں رکھتے تو سحری کا اتنا اہتمام کیوں کرتے ہیں؟‘‘ وہ بھی ایک چکنے گھڑے تھے، جواب دیا’’ بھاگوان، فرض تو ہاتھ سے نکل ہی جاتا ہے اب تیرا خیال ہے سنت بھی چھوڑ دوں۔۔۔بالکل ہی کافر ہو جائوں؟‘‘

گھروں سے آئیے دفتروں کی طرف۔ ایک آدھ کو چھوڑ کر رمضان المبارک میں آپ کو ہر دفتر کا حال ابتر ملے گا۔ معلوم ہوتا ہے یہ ماہ صیام نہیں، ماہ آرام ہے۔ ہاں، اگر بڑا صاحب علامتی روزہ دار ہے تو وہ دن اُن پر ضرور بھاری ہوتا ہے۔ ہمارے ایک باس بڑی باقاعدگی اور پابندی سے روزہ رکھتے تھے،صرف ہر سال کی پہلی رمضان المبارک کا اور بس!اُس روز ہم سب اپنی بیویوں سے خطائیں اور مائوں سے دودھ بخشوا کر گھر چھوڑتے تھے۔ دفتر میں سہمے سہمے بیٹھتے تھے کہ کب کس کا صاحب کی طرف سے بلاوا آ جائے۔ جس کسی کو صاحب نے اپنے کمرے میں بلوا لیا، یوں سمجھیے کہ اس کے جاتے وقت ہم لوگ اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے تھے اور جب وہ بچارہ ذہنی پسماندگی کی تصویر بنا ہوا باہر نکلتا تو ہم سب اس سے اپنے حق میں دعائیں کرواتے کہ مظلوم کی دعا جلد قبول ہوتی ہے۔ تمام دن بڑے صاحب کی حالت یہ رہتی کہ بقول مومنؔ ؎

ناوک انداز جدھر دیدۂ جاناں ہوں گے

نیم بسمل کئی ہوں گے کئی بے جاں ہوں گے

ماہ صیام ہی کا ذکر ہے۔ ایک بار ہمیں کسی ضروری کام کے سلسلے میں ایک دفتر میں جانے کا اتفاق ہوا۔ ہمیں باس سے ملنا تھا۔ کمرے کے باہر ان کے پی اے سے معلوم کیا تو اس نے کہا ’’صاحب موجود تو ہیں لیکن آج آپ ان سے نہ ہی ملیں تو اچھا ہے۔‘‘ ’’یعنی ع ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے؟‘‘ہم نے تبصرہ کیا اور پوچھا’’کیا وہ بہت مصروف ہیں؟‘‘ اس پر پی اے نے نہایت راز داری کے ساتھ ہم سے سچ بولا’’مصروفیت تو کوئی نہیں لیکن آج صاحب روزے سے ہیں۔یا تو عالم خواب میں ہوں گے یا عالم طیش میں۔ دونوں صورتوں میں انہیں چھیڑنا اپنے کیس کو برباد کرنے کے مترادف ہوگا۔بہتر ہے آپ کل آ جائیں۔‘‘ ’’ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی‘‘ ہم نے احتجاج کیا۔ ’’تو بے شک اندر تشریف لے جائیے‘‘ پی اے نے اجازت دی اور ساتھ ہی شعر پڑھا ؎

مانو نہ مانو جانِ جہاں اختیار ہے

ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں

اس کے خلوص اور ذوق شعری سے متاثر ہو کر ہم نے اندر جانے کا ارادہ ترک کر دیا اور سوچا کم از کم دفتر میں ڈیلنگ کلرک ہی سے اپنے فائل کی تازہ ترین صورت حال دریافت کر لیں۔ہم جو دفتر کے اندر گئے تو گویا دبستاں کھل گیا۔ حیرت انگیز منظر تھا۔ اہل کار اپنی کرسیوں پر گردن لٹکائے اور میزوں پر پیر رکھے مزے سےسو رہے تھے۔ فائلوں کی تازہ ترین صورت حال یہ تھی کہ کلرکوں کے پیروں کے نیچے تھیں۔ تاہم، یہ کہنا صحیح نہ ہوگا کہ وہ سب لوگ اسی کیفیت میں تھے یا سب کے سب ،فائلوں کی بے حرمتی کے مرتکب ہو رہے تھے،نہیں، بلکہ ان میں سے کچھ اہلِ درد کرسیوں کے بجائے اپنی اپنی میزوں پر دراز تھے اور فائلوں کو انہوں نے عزت و تکریم کے ساتھ بطور تکیہ سر کے نیچے رکھا ہوا تھا۔ انہیں یوں عیش کرتے دیکھ کر احساس ہوا کہ تاجروں پر تو شہر میں اونٹ بدنام والی ضرب المثل صادق آتی ہے، ورنہ دفتری ملازمین کے لیے بھی رمضان کچھ کم فیض رساں نہیں کہ اس ماہ میں کام تقریباً بند ہوتا ہے اور پوری تنخواہ مہینہ ختم ہونے سے پہلے ہی مل جاتی ہے ،گویا ہم خرما و ہم ثواب!

گئے دنوں میں ہمارے یہاں احترام رمضان کا ایک آرڈیننس ہوا کرتا تھا۔اگر اسے بھی منسوخ یا معطل نہیں کر دیا گیا ہے تو ہماری تجویز ہے کہ اس کی گرد جھاڑ کر اسے از سر نو کام میں لایا جائے۔ نیز اس کا دائرہ اختیار گھروں اور دفتروں تک وسیع کر کے رمضان المبارک کے دوران عیش اور طیش کو بھی قابل تعزیر حرکات قرار دیا جائے۔ دوسرے الفاظ میں بہادر شاہ ظفرؔ کے اس شعر کو پوری طرح نافذ کیا جائے کہ ؎

ظفرؔ آ دمی اس کو نہ جانیے گا ہو وہ کیسا ہی صاحبِ فہم و ذکا

جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی، جسے طیش میں خوف ِخدا نہ رہا

تازہ ترین