• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈیٹ لائن لندن … آصف ڈار
مغربی ممالک میں اگرچہ پاکستان کے بارے میں مختلف حوالوں سے ابہام، غلط فہمیاں اور پاکستانی معاشرے سے لاعلمی کے باعث MIS CONCEPTIONS پائے جاتے ہیں، تاہم برطانیہ سمیت بہت سے ممالک کو اس بات پر اطمینان بھی ہے کہ کم از کم وہاں پر پہلی مرتبہ دس سال سے سیاسی تسلسل جاری ہے۔ پہلی مرتبہ دو جمہوری حکومتوں نے اپنی مدت پوری کی ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ دو ماہ بعد پاکستان میں تیسری مرتبہ جمہوری پارلیمانی انتخابات ہوں گے جو کہ پاکستان کے لیے ایک ریکارڈ ہوگا۔ دنیا کے تمام ممالک میں حکومتی عہدیدار اور وزراء اعظم تبدیل ہوتے رہتے ہیں مگر جمہوریت کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔ انہیں اس بات سے غرض نہیں کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو کیوں برطرف اور وزیراعظم نوازشریف کو کیوں نکالا گیا، بلکہ وہ اس بات کو دیکھتے ہیں کہ ملک کے اندر پارلیمانی نظام چل رہا ہے۔ اگرچہ سب کو معلوم ہے کہ یہ جمہوری نظام اپنی کمزور ترین صورت کے اندر زندہ ہے مگر اس بات کی توقع کی جارہی ہے کہ یہ نظام مستقبل میں مضبوط ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ ملک کی سیاسی قیادت کے اندر بھی میچورٹی آئے گی۔ سیاسی استحکام اور جمہوریت کا تسلسل ملک کے اندر اقتصادی مضبوطی لاتا ہے۔ اس سے نہ صرف ملک کے اندر کے سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھتا ہے بلکہ بیرون ملک سے بھی سرمایہ کاری پاکستان کے اندر آتی ہے۔ موجودہ حالات کا تقاضہ ہے کہ ملک کے اندر سیاسی عمل اسی طرح جاری رہے کیونکہ اس خطے میں جہاں چین اور بھارت بڑی اقتصادی طاقتیں بن کر ابھر رہے ہیں وہاں پاکستان کا ان سے پیچھے رہ جانا اس ملک کو اندھے کنویں میں دھکیلنے کے مترادف ہوگا اس طرح کے مشورے پاکستان کے مغربی دوست ممالک اکثر دیتے ہیں کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی اپنی سرمایہ کاری پاکستان میں محفوظ رہے۔ پاکستان میں جمہوریت کے تسلسل پر دوسرے ممالک کے ساتھ ساتھ برطانیہ کو بھی زیادہ اطمینان ہے۔ حال ہی میں برطانوی پارلیمنٹ کے اندر ’’سی پیک‘‘ کے حوالے سے ایلڈرمین مشتاق لاشاری کی جانب سے منعقد کرائے گئے ایک سیمینار میں پاکستان میں برطانیہ کے سابق ہائی کمشنر سر مارک لائل گرانٹ نے اس پر خوشی کا اظہار کیا کہ بالآخر پاکستان جمہوریت کی ڈگر پر چل نکلا ہے۔ اس سے وہ اقصادی طور پر بھی مضبوط ہوگا۔ تاہم ان کا خیال تھا کہ چونکہ پاکستان برطانیہ کے زیادہ نزدیک ہے۔ اس لیے ان دونوں ملکوں کے درمیان زیادہ بڑی شرکت داری ہونی چاہیے۔ ان کا خیال تھا کہ پاکستان اور چین کے درمیان کوئی قدر مشترک نہیں ہے، جبکہ برطانیہ میں پاکستانیوں کی تعداد تقریباً دو فیصد ہے۔ 12پاکستانی ارکان پارلیمنٹ ہیں، سیکڑوں کونسلرز اور میئرز ہیں۔ یہ قدریں کسی اور ملک کے ساتھ مشترک نہیں ہیں۔ البتہ انہوں نے سی پیک کی مخالفت نہیں کی بلکہ اسے بھی پاکستان کی خوشحالی کا منصوبہ قرار دیتے ہوئے اس جانب اشارہ کیا کہ پاکستان اور برطانیہ قدرتی شراکت دار ہیں اور ایک دوسرے کے اندر ان کی جڑیں مضبوط ہیں۔ جبکہ اس تقریب میں موجود پاکستانی ہائی کمشنر سید ابن عباس نے بجاطور پر کہا کہ سی پیک اور پاکستان کے بارے میں پائے جانے والے MIS CONCEPTIONS کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ سی پیک پر مغربی ممالک کے اعتماد اور پاکستان میں جمہوریت کے تسلسل سے ملک کی اقتصادی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ اس سیمینار میں سب کی رائے تھی کہ پاکستان میں اس وقت سرمایہ کاری کے لیے فضا سازگار ہے۔ سی پیک صرف پاکستان اور چین کا نہیں بلکہ یہ سب کے لیے اوپن ہے۔ اس میں سب کو سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں اسلحہ، گولہ باری اور ایٹمی طاقت بننا قومی استحکام کی ضمانت نہیں دی جاسکتی، بلکہ اقتصادی مضبوطی سب کچھ تصور کی جاتی ہے۔ اقتصادی ترقی، سیاسی استحکام سے آتی ہے۔ اس لیے پاکستانی سیاستدانوں کو بھی میچورٹی کا ثبوت دینا ہوگا۔
تازہ ترین