• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تراویح میں تلاوت کردہ قرآن کی پارہ بہ پارہ تفہیم

فہم القرآن:مفتی عبدالمجید ندیم
واذا سمعوا …پارہ۷
چھٹے پارے کا اختتام اس بات پر ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی مخالفت میں سب سے زیا دہ پیش پیش یہود اور مشرکین ہیں جبکہ عیسائیوں کا مسلما نوں سے رویہ ہمدردی کا ہے ۔ساتویں پارے کے آغاز میںجس عظیم واقعے کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ ہجرتِ حبشہ کا واقعہ ہے کفار کے پے درپے مظالم سے تنگ آکر مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی ۔کفارِ مکہ کے لیے یہ نا قابلِ برداشت چیز تھی یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ایک وفد حبشہ کی طرف روانہ کیا تا کہ وہ مسلمانوں کومکہ واپس لا ئے ۔اس وفد نے مسلمانوں کو واپس لا نے کی مکمل کو شش کی لیکن حضرت جعفر ؓ طیار کی نجاشی کے دربار میں کی گئی دلنشیں تقریر نے ساری صورتِ حال کو تبدیل کر دیا انہوں نے جب سورہ مریم کی تلاوت فرما ئی تو نجاشی اور اس کے سارے وزیر و مشیر رونے لگے یہاں تک کہ ان کی داڑھیاں آنسوؤں سے تر ہو گئیں ۔نجا شی خود مسلمان ہو گیا اور اس نے مسلمانوں کو انتہا ئی اعزازو اکرام کے ساتھ اپنے ہاں رہنے کی اجازت عطا فرما ئی ساتویں پارے کی ابتدا اسی منظر کو پیش کرتی ہے ۔ آیت نمبر 87سے حلال و حرام کے حوالے اہم احکاما ت کا تذکرہ ہے ۔اہلِ ایما ن سے کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کو حلا ل قرار دیا ہے انہیں حرام نہ کریں اس لیے کہ حلا ل و حرام کے قوانین دینے کا حق صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے ۔جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حلا ل قرار دیا ہے وہ ہمیشہ کے لیے حلا ل اور جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے وہ ہمیشہ کے لیے حرام ہے ۔اس ضمن میں قسموں کے حوالے سے یہ ہدایات بہت اہم ہیں کہ لغو قسموں سے ہمیشہ ہی احترازکیا جا ئے لیکن اگر کسی نے حقیقی معنوں میں قسم کھا کر اسے توڑ دیا تو اسے اپنی قسم کا کفارہ دس مسکینوں کو کھا نے،لبا س یا ایک غلا م کی آزادی کی صورت میں ادا کرنا ہو گا ۔آیت نمبر 90میں شراب،جوا،پا نسے کے تیر اور غیر اللہ کی نذر و نیا ز کو ہمیشہ کے لیے حرام قرار دیا گیا ہے ۔چنا نچہ اس آیت کے نزول کے بعد چشم ِ فلک نے اتباع ِ قانونِ الٰہی کے عجیب مناظر دیکھے کہ شراب جو عربوں کی گھُٹی میں پڑی تھی مدینہ کے کوچہ و با زار میں بہا دی گئی ۔جو ہاتھ جہاں تھا وہیں رُک گیا اور پھر اس کے بعد کسی صاحبِ ایما ن نے شراب کو ہاتھ تک نہیں لگا یا۔شراب و جو ئے کی حرمت کی وجہ یہ بتا ئی گئی ہے کہ اس کے ذریعے شیطا ن عداوت و دشمنی پیدا کرکے انسا نوں کو با ہم دست و گریباں کر دیتا ہے اور وہ ذکرِ الٰہی اور نما ز سے محروم ہو جا تے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ آج شراب و جوئے کی وجہ سے یورپ و امریکہ کے معاشرے جس تبا ہی و بربا دی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں قرآن نے چودہ سو سال پہلے اس سے خبردار کر دیا تھا ۔احرام کی حالت میں مُحرم پر بہت سی پا بندیاں لگ جا تی ہیں ۔وہ نہ تو خود شکار کر سکتا ہے اور نہ ہی شکار کی طرف راہنما ئی کیلئے اشارہ کر سکتا ہے اگر کسی نے ایسا کیا تو اسے کفارہ دینا ہو گا۔ اس ضمن میں صرف سمندر کے شکا ر کی اجازت ہے اس کی حکمت یہ ہے کہ عین ممکن ہے کہ کبھی بحری سفر لمبا ہو جا ئے اور اشیاء ِ خورد و نوش کی قلت پیدا ہو جا ئے ایسے میں سمندری شکا ر کی ضرورت پڑ سکتی ہے ۔خانہ کعبہ کی عظمت بیا ن کرنے کے ساتھ ساتھ حرمت والے مہینوں ،قربا نی کے جانوروں اور خدا پرستی کے نشانا ت کی تعظیم کا حکم بھی دیا گیاہے ۔ پاک و نا پا ک کبھی برابر نہیں ہو سکتے ۔کئی دفعہ ایسا بھی ہو تا ہے کہ ناپاک کی کثرت انسان کی آنکھوں کو خیرہ کرنے لگتی ہے اور وہ اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے ایسے میںسید ابو الاعلیٰ مودودی کا یہ فرما ن سو فی صد درست ہے کہ ’’ غلا ظت کے ایک ڈھیر سے عطر کا ایک قطرہ زیا دہ قدر رکھتا ہے اور پیشاب کی ایک لبریز ناند کے مقابلے میںپاک پانی کا ایک چُلو زیا دہ وزنی ہے‘‘۔علم حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ’’سوال‘‘ بھی ہے لیکن لا یعنی سوالا ت علم سے زیا دہ بحث و مبا حثے کا ایک فضول دروازہ کھول دیتے ہیں لہٰذا اہلِ ایما ن کو ایسا کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔عربوں کے ہاں غیراللہ کے نا م پر مختلف جانوروں کو وقف کیا جا تا تھا ۔اللہ تعالیٰ نے اس رسمِ بد کا خاتمہ فرمایا اور حکم دیا کہ ہر طرح کی نذر و نیاز اور قربا نی اللہ تعالیٰ ہی کیلئے خاص ہو گی۔اہلِ ایما ن کو حکم دیا گیا کہ اگر تم راہِ حق پر رواں دواں رہو تو کسی بھی گمراہ شخص کا بُرا عمل تمہار اکچھ بھی نقصان نہیں کر سکتا البتہ تمہاری ذمہ داری ہے کہ تم برائیوں سے منع کرتے اور نیک کا حکم دیتے رہویاد رکھو کہ موت سر پر کھڑی ہے اس لیے ہمیشہ اپنے ما ل و اسبا ب کے با رے میں وصیت کا اہتما م کرو حتیٰ کہ اگر تم سفر میں بھی ہو اور موت کا وقت آجا ئے تو مرنے سے پہلے اپنی وصیت لکھوا دو۔اسی میں تمہاری اور سارے خاندان کی بہتری ہے۔قیامت کے دن اللہ تعالیٰ رسولوں کو اکٹھا فر ما کر ان سے پوچھے گا کہ بتاؤ جن کی طرف تم مبعو ث کیے گئے تھے ان کا رد عمل کیا تھا وہ جواب دیںگے اے ہمارے پروردگار ہمارے پاس اس کا کو ئی علم نہیں ہے ،غیب کی ساری با تیں صرف اور صرف تُو ہی جانتا ہے۔اسی ضمن میں بنی اسرا ئیل کا ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی نعمتوں سے ما لا ما ل فرما یا تھا یہاں تک ان کی استدعا پر آسما ن سے پکا پکا یا کھانابھی نا زل کیا گیا لیکن انہوں نے اسے کھانے کے با وجود اللہ کا شکر ادا کرنے کی بجا ئے کفرانِ نعمت کا رویہ اختیا رکیا جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی شکلیں مسخ کر دیں اور وہ رحمتِ الٰہی سے محروم کر دئیے گئے ۔قیا مت کے دن اللہ تعالیٰ ان کے شرک کے بارے میں خود حضرت عیسیٰ سے باز پرس فرمائیں گے جو ان کے شرک کا انکار فرما کر سارے معاملات اللہ کے سپرد فر ما دیں گے ۔سورت کے آخر میں ارشاد فرمایاگیاہے کہ قیامت دن سچ بو لنے والوں کو ان کا سچ کامیابی و کا مرانی سے ہمکنا ر فر ما دے گا اور وہ اللہ کی رضا کی سند پاکر اللہ تعالیٰ کی ابدی جنت میں آرام و سکون سے ما لا ما ل ہوں گے۔
سورہ انعام
سورہ انعام مکی سورت ہے۔اس میں 166آیات اور بیس رکوع ہیں،اس سورت کا نا م اس کے سولہویں اور سترہویں رکوع سے لیا گیا ہے اس لیے کہ وہاں پر انعام یعنی چوپایوں کا تذکرہ ہے ۔حضرت عبداللہ بن عبا س کے مطا بق یہ سورہ مبارکہ نبی اکرم ﷺپر ایک ہی بار مکمل طور پر نا زل ہو ئی۔ یہ سورت اپنے اندر متنوع مضامین لیے ہو ئے ہے جن میں سے اہم یہ ہیں:1.عقیدہ توحید کی دعوت اور شرک کا رد 2۔عقیدہ آخرت کا اثبات3۔ معاشرے کے جا ہلی تصورات اور توہمات کا رد4۔اسلامی معاشرے کی تعمیر کے بنیادی اخلاقی اصول 5۔اسلا می دعوت کے خلاف اٹھنے والے اعتراضات کے جوابات6۔حضور ﷺ اور اہلِ ایما ن کو تسلی و تشفی7۔ اسلا م کے مخالفین کو واضح الفاظ میں تنبیہ اور نصیحتسورت کا آغاز اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا سے کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کیصفتِ تخلیق پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ وہ اللہ ہی ہے جس نے زمین و آسما ن کو پیدا کرنے کے بعد روشنی و اندھیرے کا نظام قائم فرما یا ہے جو انسانوں سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تو حید پر قائم ہو جا ئیں لیکن انسانوں کی اکثریت پھر بھی شرک پر قائم ہے ۔آج کفار مکہ یہ مطا لبہ کر رہے ہیں کہ ایک لکھی لکھا ئی کتا ب ان پر نا زل کر دی جا ئے تو وہ ایما ن لے آئیں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ایسا کر بھی دیا جا ئے تو پھر بھی وہ ایما ن نہیں لا ئیں گے ۔آیت نمبر11میں فرمایا جا رہا ہے کہ زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ انکار کرنے والوں کا انجا م کیا ہوا ۔تم سے پہلے جن جن قوموں نے انکا ر کا رویہ اختیار کیا آخر کار تبا ہی و بربا دی ان کا مقدر بنی اس لیے کہ اس پوری کا ئنا ت میں اللہ تعالیٰ کا اختیار چلتا ہے زمین و آسما ن اور ان کے اندر پا ئی جا نے والی ہر چیز کا مالکِ حقیقی وہی ہے وہ سب کو کھلا تا ہے اور اسے کسی کی کو ئی ضرورت نہیں۔اللہ کا اپنے بندوں پر پورا اختیا ر ہے ۔وہ منکرین کو پل بھر میں سزا دے سکتا ہے لیکن اس کی رحمت کا خاص پہلو یہ ہے کہ وہ انسان کو مہلت پر مہلت دیے جا رہا ہے ۔شرک پر اصرار کرنے والے کل جب اللہ کی عدالت میں پیش ہوں گے توان کا کو ئی عذر کا م نہ آئے گا ۔ان کے معبودانِ با طلہ بھی ان کی مدد سے انکار کر دیں گے۔اُس دن یہ ایک ما یوس انسان کی طرح تمنا و آ رزو کریں گے کہ کاش ہمیں دوبارہ دنیا کی طرف لوٹا دیا جا ئے تو ہم ایمان لا کر توحید پر مبنی زندگی گزاریں گے لیکن یہ محض ان کی تمنا و آرزو ہو گی اس میں حقیقت کا کو ئی پہلو نہیں ہو گاا س لیے کہ شرک و بت پرستی نے ان کی فطرت کو اتنا مسخ کر دیا ہو گا کہ ان کے حق کی طرف پلٹنے کے امکانا ت نہ ہو نے کے برابر ہوں گے۔آیت نمبر33سے نبی اکرم ﷺ کو تسلی و تشفی دی جا رہی ہے ۔آپؐ کو فرمایا جا رہا ہے کہ یہ ظالم آپ کی ذات کا انکار نہیں کر رہے بلکہ یہ ظالم آیاتِ الٰہی کو جھٹلا رہے ہیں ۔یاد رہے کہ اس سے قبل بھی انبیا ء کی تاریخ ایسے انکا ر کرنے والوں سے بھری ہو ئی ہے لیکن ہر نبی نے لوگوں کے استہزا و مذاق اور انکار کے مقابلے میں صبر کا مظاہرہ کیا جس کے نتیجے میں انبیا ء اور ان کے پیروکار کا میا بی و کا مرانی سے ہمکنا ر ہو ئے اور انکا ر کرنے والے تبا ہ و بربا د ہو ئے ۔اس سلسلے میں نبی اکرم ﷺ کو فرما یا جا رہا ہے کہ نشانیوں کا مطا لبہ کرنے والے جو کچھ کہہ رہے ہیں اس پر جذبا تی ہو نے کی کو ئی ضرورت نہیں اس لیے کہ جو لو گ حق کی آواز کو سننے کے لیے تیار ہو تے ہیں وہ فوراً ما ن لیتے ہیں ۔رہے وہ لو گ جو اندھے بہرے بن کر جی رہے ہیں انہیں حق کی کو ئی بھی نشانی نظر نہیں آتی اور وہ ہر نشانی پا کر گمراہی کے راستے پر رواں دواں رہتے ہیں۔ آیت نمبر42سے تنبیہ کا انداز تہدید میں تبدیل ہو جاتا ہے اور اممِ سابقہ کہ تا ریخ سے مثالیں دے کر ثابت کیا جاتا ہے کہ ہم نے انکار کرنے والی قوموں کو معاشی بدحالی اور جسما نی تکالیف میں مبتلا کیا، شاید کہ ان کے دل پگل جا ئیں لیکن ان پر کو ئی اثر نہ ہوا ۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان پر خو شحا لی کے دروازے کھو ل دیے ۔ہوناتو یہ چا ہیے تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے لیکن ان کی نا فرما نی بڑھتی ہی چلی گئی نتیجہ صاف تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی جڑ کاٹ دی اور وہ تبا ہی و بر با دی سے دوچا ر ہو کر نیست و نا بود ہو گئے۔اس لیے اے انکار کرنے والو! اس با ت کو یا د رکھو کہ اگر اللہ تمہاری قوتِ سماعت و بصارت لے جا ئے تو کیا تمہارا کو ئی معبود ہے جو تمہیں یہ انمول تحفے لوٹا سکے۔بھلا اس با ت کا جواب دو کہ اگر اللہ کا عذاب تم پر اچا نک نا زل ہو نے لگے تو کیا کو ئی ہے جو اس با ت کی طا قت رکھتا ہو کہ اسے تم سے ہٹا سکے ؟ ظاہر ہے کہ اس کا جواب نفی میں ہے لہٰذا اگر تم کسی نا گہا نی آفت سے بچنا چا ہتے ہو تو انکا ر کا رویہ چھوڑ کر اقرار کی شاہراہ پر گا مزن ہو جا ؤ۔نبی اکرم ﷺ کو فرما یا جا رہا ہے کہ آپ پر ایما ن لا نے والے اگرچہ غریب لوگ ہیں اور کفار کا مطا لبہ یہ ہے کہ آپ انہیں اپنی محفل سے ہٹا دیں تب وہ آکر آپ کی مجلس میں بیٹھ کر آپ کی با ت سنیں گے لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ با ت ہرگز منظور نہیں ہے ۔اللہ تعالیٰ کی نگا ہ میں یہ فقیر اور مفلس لو گ ان امیر زادوں سے کہیں زیا دہ بہتر ہیں جن کی گردنیں اکڑی ہو ئی ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان مومنین ِ صادقین کے دل صبح شام اللہ تعالیٰ کی یادمیں مشغول رہتے ہیں لہٰذا اللہ کی نگا ہ میں ان کی قدرو منزلت بہت زیا دہ ہے یہ جب بھی آپ کی محفل میں آئیں تو انہیں خو ش خبری سنا دو کہ اللہ تعالیٰ خود انہیں سلا م پیش فرما رہا ہے اور اگر کبھی نا دا نی میں ان سے بھول چوک ہو جا ئے تو اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرما نے والا غفور الرحیم ہے ۔آیت نمبر 55سے مشرکین کو صاف الفاظ میں بتا یا جا رہا ہے کہ حضرت محمد ﷺ اور ان کے پیروکار کبھی بھی شرک کے راستے کی پیروی نہیں کر سکتے اس لیے کہ ان کے پاس توحید کے عقلی و نقلی دلا ئل آچکے ہیں رہی یہ با ت کہ مشرکین پر ان کے انکار کی وجہ سے فوری عذاب کیوں نہیں آجاتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ سزا کا پورا اختیا ر اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اس میں کو ئی بھی مداخلت نہیں کر سکتا ۔اس کے اختیارات اور علم کا اندازہ لگانا چا ہتے ہو تو جا ن لو کہ غیب کے خزانوں کی چا بیا ں اس کے ہا تھ میں ہیں ،خشکی و تری میں جو کچھ ہورہا ہے اس کے علم میں ہے اور تو اور دنیا کے کسی بھی درخت سے گرنے والا پتا اور زمین کی تہہ میں پڑا ہوا بیج اس کے علم میں ہے اور وہ کا ئنا ت کی ہر چیز پر پورا کنٹرول کیے ہو ئے ہے ۔اس کا اپنے بندوں پر اتنا اختیا ر ہے کہ وہ جب بھی کسی کی موت کافیصلہ فرما لیتا ہے تو اپنے فرشتے اس کی جا نب روانہ کرتا ہے جو لمحوں میں اس کی روح اس کے جسم سے الگ کر کے اللہ کی طرف لوٹا دیتے ہیں اور کسی کی جرات نہیں ہو تی کہ وہ ایک لمحے کی تاخیر یا تقدیم کر سکے ۔آیت نمبر66میںنافرمان قوموں کے حوالے سے تین طرح کے عذابوں کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔1۔کوئی آسما نی آفت نا زل ہو جا ئے جیسے بارشوں اور ہواؤں کا طوفان۔2۔زمینی تبا ہی آجائے جیسے زلزلے اور سیلاب۔3۔با ہمی فساد اور لڑائی جھگڑے۔اس ضمن میں یہ با ت بھی پیشِ نظر رہے کہ ما ضی کی قوموں پر اس طرح کے تینوں یا ان میں سے کو ئی ایک یا دو عذاب نا زل ہو چکے ہیں ۔اہلِ ایما ن کو اس با ت کی تلقین بھی کی گئی ہے کہ اب تمہارے لیے ضروری ہے کہ تم ان منکرین کی محفلوں میں جا نے سے اعتراض کرو اس لیے کہ وہاں پر آیاتِ الٰہی کا استہزاء کیا جاتا ہے ۔یہی حکم آج بھی ہر اس محفل کے بارے میں ہے جہاں اللہ تعالیٰ کی آیات کو منفی پروپیگنڈے کی بھینٹ
چڑھایا جا رہا ہو ۔سچے اہلِ ایما ن کو چا ہیے کہ وہ ایسی محفلوں کا با ئیکا ٹ کریں ۔رہے وہ لو گ جو انکار پر ہی اڑے ہو ئے ہیں انہیں بہت جلد انجا مِ کار کا پتہ چل جا ئے گا جب وہ عذابِ الٰہی کا مزہ چکھیں گے ۔ان کے لیے کھولتا ہوا گرم پا نی اور عذابِ الیم ہو گا جو ان کے بدن کو چلا نے کے ساتھ ساتھ ان کی روحوں تک کو بھی متاثر کرے گا ۔آیت نمبر75سے حضرت ابراہیم ؑ کی اس عظیم الشان دعوتِ تو حید کا تذکرہ ہے جو انہوں نے اپنے باپ آذر اور اپنی بت پرست قوم کے سامنے پیش فرما ئی ۔جب رات کو ستارے اپنی چمک کے ساتھ روشن ہو ئے تو فرمایا اے میری قوم یہ میرے رب ہیں لیکن جب ان کی روشنی ما ند پڑ گئی تو فرما یامیں ڈوب جانے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔جب ماہتاب عالم تاب اپنا روشن چہرہ لے کر طلوع ہوا تو فرما یہ میرا رب ہے لیکن جب وہ بھی غروب ہو گیاتو فرما یا اگر میرا رب میری راہنما ئی نہ فرمائے تو میں بھی گمراہوں میں شامل ہو جا ؤں گا اور جب سورج اپنی آب و تاب کے سامنے آیا تو فرما یا یہ میرا رب ہے اور یہ بہت ہی بڑا ہے اور اس کی روشنی بھی تیز ہے ۔لیکن جب وہ بھی غروب ہو گیا تو حضرت ابراہیم خلیل اللہ ؑ نے صاف الفا ظ میں اعلا ن فرما یا ’’ میں نے اپنا رُخ تمام معبودانِ باطلہ سے پھیر کر صرف اس اللہ کی طرف کر لیا ہے جو آسما نوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے ،میں اپنے دعوے میں یکسو ہوں اور میرا مشرکوں سے کو ئی تعلق نہیں ہے‘‘۔چنانچہ اس با ت کا اعلا ن کرنا تھا کہ قوم ان کی دشمن ہو گئی اور ان سے بحث و مبا حثے پر اتر آئی لیکن ابرا ہیم ؑ نے انہیں دلا ئل کی میدان میں خاموش کروادیا ۔چنا نچہ ابرا ہیم ؑ کے ا س ایما ن افروز تذکرے کے بعد 18انبیاء کا ایک ساتھ ذکرفرما کر توحید و رسالت کے اس نکتے کو واضح فرما یا کہ اللہ تعالیٰ کے تما م نبی و رسول انسانیت کو اللہ ہی کی بندگی کی دعوت دینے کے لیے تشریف لا ئے تھے۔ان تما م انبیاء کو اللہ کی طرف سے کتاب،حُکم اور نبوت عطا ہو ئی تھی اور آخر میں اس نبوت و رسالت کی تکمیل حضرت محمد ﷺ پر فرما ئی گئی ہے ۔ان پر قرآنِ مجید جیسی عظیم کتا ب نا زل کی گئی ہے جو سابقہ کتبِ سما وی کی تصدیق کرتی اور ساری انسانیت کو راہِ حق کی طرف دعوتِ عام دیتی ہے لہٰذا اس شخص سے ظالم کوئی نہیں ہے جو اللہ پر جھوٹ با ندھے اور غلط بیا نیاں کرتا پھرے ایسے لو گ بہت جلد اپنے انجا م سے دوچار ہو جا ئیں گے جب اللہ کے فرشتے ان کی روحیں قبض کر کے انہیں ابدی عذاب میں جھونک دیں گے ۔اس وقت انہیں سچ اور جھوٹ معلو م ہو جا ئے گا اور ان کے سارے سہارے جواب دے جا ئیں گے ۔آیت نمبر 96سے دلا ئل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی توحید اور حاکمیت کو ثابت کیا گیا ہے ۔یہ اللہ ہی ہے جو اپنی قدرتِ کا ملہ سے دانے اور گٹھلی کوپھاڑتا،زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ کو پیدا کرتا اور رات دن کے نظام کو چلاتا ہے ۔وہی تو ہے جو سورج و چا ند کے اندازے مقرر کرتا ہے اور ستاروں کو نشانہا ئے منزل بنا تا ہے تاکہ لوگ خشکی اور تری کے اندھیروں میں ان سے راہنما ئی حاصل کریں۔لہلہاتے کھیت اور قسم قسم کے میوے اس کی خلاقی کی دلیل بھی ہیں اور اس کی قدرت کے عجائبا ت بھی جنہیں دیکھ کرسلیم الفطرت انسا ن راہ ہدایت پر رواں دواں ہو جا تا ہے۔اللہ تعالیٰ کی ذات اتنی عظیم ہے کہ نگا ہیں اسے نہیں پا سکتیں لیکن وہ ہر چیز پر نگرانی فرما رہا ہے۔نادا ن یہ کہتے ہیں کہ اس نے کچھ ہستیوں کو اپنی خدائی میں شریک کر رکھا ہے ۔یہ ایک ایسی لا یعنی با ت ہے جس پر کو ئی دلیل موجود نہیں۔اہلِ ایما ن کو حکم دیا گیا ہے کہ مشرکوں کے خداؤں کو بھی بُرا بھلا نہ کہیں ورنہ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ لا علمی اور نا دا نی میں اللہ تعالیٰ کی ذات کو گا لیاں دیں گے ۔پارے کے آخر میں فرما یا گیا ہے کہ مشرکین قسمیں اٹھا کر کہتے ہیں کہ اگر ان کے پاس کو ئی واضح نشانی آ جا ئے تو وہ ضرور ایما ن لے آئیں گے لیکن یہ بات بھی حقیقت کوسوں دور ہے۔آج اگر ان کے پاس ہر طرح کی نشانیاں بھی آ جا ئیں تو وہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں گے اس لیے کہ ان کی فطرت مسخ ہو چکی ہے اس کا واضح نتیجہ یہ ہے کہ وہ اپنی اسی گمراہی میں سرگرداں رہیں گے ۔
تازہ ترین