• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صبح ساڑھے چھ بجے میں فلپائن کے شہر دوائو پہنچ چکا تھا، میرے نہ چاہنے کے باوجود میرے میزبان ملک ریاض خود اتنی صبح مجھے لینے ائرپورٹ پر آئے۔ موسم خاصا گرم تھا ملک صاحب فلپائن کے اس شہر کے حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے مجھے ہوٹل پہنچانے سے پہلے اپنے گھر میں ناشتہ کے لئے لے جانا چاہ رہے تھے اور میرے منع کرنے کے باوجود ان کا رخ اپنے گھر کی ہی جانب تھا۔ دوائو ائرپورٹ سے ایک گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم ان کے گھر پرتھے۔ ایک کنال کے رقبے پر بنا ہوا مکان خاصا خوشنما تھا، پارکنگ میں کھڑی دو گاڑیاں ملک صاحب کے معاشی حالات کی کہانی سنا رہی تھیں، ملک ریاض کا فلپائن میں گاڑیوں کا کاروبار تھا جو جاپان سے گاڑیاں فلپائن لاکر فروخت کیا کرتے تھے، گھر میں داخل ہوئے تو دو تین پاکستانی پہلے سے ہی ہمارے منتظر تھے۔ ایک نوجوان جس کی عمر اٹھائیس برس ہوگی کافی لمبے چوڑے جسم کا مالک تھا ملک صاحب نے موصوف سے میرا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ ان کا نام فراز ہے اور راولپنڈی سے تعلق ہے، دو بچے ہیں ان کو باہر آنے کا کافی شوق تھا تو میں ان کو فلپائن لے آیا ہوں تاکہ ملازمت حاصل کرسکیں جب تک میرے ساتھ ہی رہیں گے، فراز نے بڑی محبت سے مصافحہ کیا اور اپنے ہاتھوں سے بہترین ناشتہ تیار کر کے پیش کیا، اگلے تین دنوں میں میری کئی دفعہ فراز سے ملاقات ہوئی جس میں پاکستان، فلپائن اور جاپان کے حوالے سے کافی گفتگو بھی ہوئی۔ فلپائن کے سخت موسم میں دن بھر کھڑے رہنا، گاڑیوں کے کنٹینر کھلوانا اور مقامی افراد سے کام لینا فراز کی ذمہ داریوں میں شامل تھا جبکہ رات میں کھانا پکانے کی ذمہ داری بھی فراز اور اس کے دوست کی تھی۔ تین دن تک بہترین وقت گزار کر میں نے واپس جاپان کی راہ لی جبکہ ملک ریاض اوران کے ساتھی فلپائن میں اپنے کاموں میں مصروف ہوگئے، چند ہفتے قبل ملک ریاض بھی جاپان آئے تاکہ رمضان اور عید جاپان میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ منا سکیں گزشتہ ہفتےان کا فون موصول ہوا کہ ان کےدوست فراز کا فلپائن میں اچانک ہارٹ فیل کے باعث انتقال ہوگیا ہے، اس اطلاع سے ایک شدید صدمے کا احساس ہونے کے ساتھ زندگی کتنی چھوٹی ہے اس بات کا بھی ادراک ہوا، اس کے ساتھ گزارے گئے دن بھی یاد آئے اس کے ہاتھ کا بنایا ہوا ناشتہ بھی یاد آیا، اس کے چھوٹے چھوٹے بچوں کی فکر بھی ہوئی، اگلے ایک ہفتے تک اس کی میت پاکستان بھجوانے میں بھی شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا، سفارتخانے کی کارکردگی بھی سوالیہ نشان رہی، فراز صرف اٹھائیس سال کی عمر میں تمام سپنے ادھورے چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوگیا یہ زندگی ہے، ان شاء اللہ جاپان اور فلپائن میں مقیم پاکستانی فراز کے یتیم بچوں کی سرپرستی کرتے ہوئے اس مشکل وقت میں اس کے اہل خانہ کے کام آئیں گے یہ دین کا تقاضا بھی ہے اور رمضان میں نیکی کا بہترین طریقہ بھی ۔کون کتنا جئے گا اس بات کا علم صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہے لیکن ہمارے آس پاس ایسی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں کہ جس کے بارے میں لگتا ہے کہ اس کی زندگی کے دن پورے ہوچکے ہیں وہ ایک طویل عمر پالیتا ہے اور جس کی زندگی طویل نظر آتی ہے وہ منٹوں میں دنیا سے گزر جاتا ہے ، میری زندگی میں بھی ایسے بہت سے واقعات ہیں جو انسان کے لئے انتہائی سبق آموز ہیں جن میں سے چند قارئین کے لئے پیش خدمت ہیں۔ وہ سب ہی کے خالو تھے سارے محلے دار اور رشتے دار سب ہی انھیں خالو کہا کرتے تھے، بڑھتی ہوئی عمر کے باعث سفید ہوتے ہوئے بال، سرخ و سفید رنگت ،طویل قامت جسامت اور ہر موضوع پر گھنٹوں بات کرنے کا ہنر انھیں ہر عمر کے افراد کے لئے پسندیدہ شخصیت بنائے رکھتا تھا، ان کوبچوں سے خاص لگائو تھا، ہمارے گھر ان کا کافی آنا جانا تھا والد اور والدہ بھی انھیں خالو ہی کہا کرتے تھے، اب سے تیس برس قبل بارہ سال کی عمر میں ہم بھی ان سے دین اور دنیا کی باتیں سنا کرتے تھے، خالو کو اپنی صحت پر ناز تھا، کھانے پینے کا خیال رکھتے، چہل قدمی ضرور کیا کرتے، تاہم وہ اپنی اہلیہ جنھیں سب خالہ کہتے تھے ان کے لئے بہت پریشان رہا کرتے تھے ۔لیکن ایک روز اچانک ہی ان کو دل کی تکلیف ہوئی اور وہ اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے، آج خالو کی وفات کو پچیس برس گزر گئے لیکن خالہ جن کے لئے خالو پریشان رہا کرتے تھے وہ اب تک حیات ہیں اور اسی برس سے زائد کی عمر میں بھی بہترین زندگی گزار رہی ہیں۔ خالو کی وفات کے بعد خالو کے چھوٹے بھائی معید خالو کہا جاتا تھا انھوں نے خالہ کی دیکھ بھال کا ذمہ اٹھایا، معید خالو کی عمر خالہ کے مقابلے میں بہت ہی کم تھی اور وہ خالہ کا بہت خیال بھی رکھا کرتے تھے وہ بھی خالہ کی صحت کے حوالے سے بہت پریشان رہا کرتے تھے، اب سے دو سال قبل وہ بھی اچانک وفات پاگئے تاہم خالہ ابھی تک حیات ہیں، زندگی کے حوالے سے کوئی بھی یہ بیان نہیں کرسکتا کہ کس کو پہلے جانا ہے او رکس کو بعد میں یہ سب اللہ تعالیٰ کے کام ہیں اور اسی کے فیصلے کے مطابق ہوتے ہیں، اب سے اکیس برس قبل کراچی میں واقع ایک ایکسرسائز کلب میں جہاں میں بھی باقاعدگی سے جایا کرتا تھا وہیں پر میرے ساتھ ہی ورزش کرنے والا انتہائی قابل اور ذہین دوست عمر انتہائی تیزی سے ترقی کررہا تھا وہ اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا اور کئی بہنوں کا بھائی تھا اور ایک بینک میں اعلیٰ عہدے پرفائز تھا ،ایک روز اس نے مجھے بتایا کہ اسے اپنے والدین کے ساتھ اپنے لئے لڑکی دیکھنے جانا ہے اس لئے وہ آج جلدی جائے گا، وہ کلب سے باہر نکلا اور جیسے ہی اس نے اپنی موٹرسائیکل اسٹارٹ کی پیچھے سے چند ڈاکوئوں نے اس کی موٹرسائیکل چھیننے کی کوشش کی تو اس نے ایک ڈاکو پر قابو کرلیا لیکن پیچھے کھڑے دوسرے ڈاکو نے فائر کرکے اسے زخمی کردیا۔ ڈاکو فرار ہوچکے تھے مجھ سمیت چار لوگ گاڑی میں ڈال کر عمر کو عباسی شہید اسپتال لے کر گئے وہ گاڑی میں میری گود میں سر رکھے اپنے والدین کو یاد کررہا تھا ہمارے کہنے پر اس نے زور دار آواز میں کلمہ پڑھنا شروع کردیا، اسی دوران اس نے اپنے والد کا فون نمبر دیا کہ ان کو اطلاع کردی جائے ،اسپتال میں اس کو آپریشن تھیٹر میں لے کر گئے، اس کے والدین کو فون کیا جہاں خبر سنتے ہی صف ماتم بچھ چکی تھی، میں اسپتال واپس پہنچا تو معلوم ہوا کہ عمر زیادہ خون بہہ جانے کے سبب زندگی کی بازی ہار چکا ہے ۔ بہرحال یہی زندگی ہے اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اچھی زندگی اور اچھی موت نصیب عطا فرمائے،اس وقت رمضان المبارک کا مہینہ مسلمانوں کے جذبہ ایمانی میں ہمیشہ کی طرح گرمجوشی پیدا کررہا ہے اس مہینے میں مسلمان نہ صرف عبادت میں گرمجوشی دکھاتے ہیں بلکہ لوگوں کی مدد کے لئے بھی دل کھول کر امداد کرتے ہیں، خاص طور پر رمضان المبارک میں زکوۃ کی ادائیگی کا بھی خاص اہتمام کیا جاتا ہے، جس میں لوگ ضرورتمندوں کی دل کھول مدد کرتے ہیں، کوشش کریں کہ اصل حقداروں تک آپ کی زکوۃ پہنچے جو آپ کی زندگی اور آخرت میں نجات کا سبب بن سکے۔ آمین
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین