مغربی سماج ویسے تو مرد عورت کی برابری کے بڑے دعوے کرتاہے لیکن بہت سے معاملات میں وہ بھی امتیاز برتنے سے باز نہیں آتا۔ اپنی فلموں میں عورت کی عظمت ، اس کی بہادری، اس کی فہم و فراست پر انگنت شاہکار فلمیں بنانے والا ہالی ووڈ بھی خواتین اداکارائوں کا اتنا معاوضہ نہیں دیتا جتنا کہ مرد حضرات حاصل کرتے ہیں حالانکہ ان ادکارائوں کی محنت ، جستجو، جذبہ اور لگن کسی طور کم نہیں ہوتی اور بعض اوقات ان خواتین کی کاوشوںسے ایک فلم سپر ہٹ کا درجہ پا کر کئی مردوں کی تجوریاں بھر دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلم انڈسٹری میں دیگر معاملات میں بھی خواتین کو نظر انداز کرنے اور ان کے ساتھ مناسب رویہ نہ اپنانے کے خلاف اداکاراؤں اور خاتون پروڈیوسرز و ڈائریکٹرز نے دنیا کے سب سے بڑے فیشن فلمی میلے ’کانز‘ کے ریڈ کارپٹ پر منفرد انداز میں احتجاج کیا۔
اداکاراؤں و خواتین فلم پروڈیوسرز نے احتجاج کے دوران رقص کرکے اسے نہ صرف منفرد بنایا، بلکہ لوگوں کی توجہ حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہیں۔کانز فلمی میلے کی 71 سالہ تاریخ میں خواتین کے مقابلے میں زیادہ مرد پروڈیوسرز و ڈائریکٹرز کی فلموں کی نمائش اور انہیں ایوارڈز دیے جانے سمیت کانز کی جیوری میں بھی خواتین کو نظر انداز کرنے کے خلاف دنیا بھر کی 82 سے زائد فلم پروڈیوسرز و اداکاراؤں نے منفرد انداز میں احتجاج کیا۔امریکی نشریاتی ادارے ’یو ایس اے ٹو ڈے‘ کے مطابق خواتین مارچ کی سربراہی اداکارہ کیٹ بلینشٹ نے کی، جو اس وقت کانز کی جیوری کی صدارت بھی کر رہی ہیں۔ان کے ساتھ احتجاج کرنے والی دیگر نامور اداکاراؤں میں سلمیٰ ہائیک، کرسٹین اسٹیورٹ، جین فونڈا، میرین کوٹیلارڈ، پیٹی جینکنس، صوفیہ بوٹیلا، بھارتی اداکارہ نندیتا داس اور راسیکا ڈگل سمیت دیگر پروڈیوسرز، ڈائریکٹرز و اداکارائیں شامل تھیں۔
خواتین نے ایسے موقع پر احتجاج کیا جب فرانسیسی فلم ’گرلز آف دی سن‘ کا پریمیئر ہونے والا تھا۔اس فلم کی ہدایات فرانسیسی خاتون فلم ساز ایوا ہوسن نے دی ہیں، جب کہ اس میں اداکاری کے جوہر ایرانی اداکارہ گولشفتھ فرحانی اور ایمانوئل بیرکوٹ نے دکھائے ہیں۔اس فلم کی کہانی کرد جنگجو خواتین کے گرد گھومتی ہے۔ احتجاج کے دوران اپنے خطاب میں کیٹ بلینشٹ کا کہنا تھا کہ کانز کی 71 سالہ تاریخ میں اب تک صرف 82 خواتین پروڈیوسرز و اداکاراؤں کی فلموں کو اس میلے میں دکھایا گیا اور ان میں سے بہت ہی کم کو اعلیٰ ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ اسی عرصے کے دوران 1866 مرد پروڈیوسرز و ہدایت کاروں کی فلموں کو کانز میلے میں پیش کیا گیا۔ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ کانز انتظامیہ کی جانب سے دیے جانے والے سب سے اعلیٰ ایوارڈ کے لیے بھی آج تک صرف 2 خواتین کو منتخب کیا گیا۔
سلمیٰ ہائیک کا مؤقف
ہولی وڈ کی معروف اداکارہ سلمیٰ ہائیک جنہوں نے نہ صرف 13 مئی کو دنیا کے سب سے بڑے فلمی فیشن میلے ’کانز‘ میں خواتین پروڈیوسرز و ہدایت کاروں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف احتجاج کیا۔بلکہ انہیں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے اور ’ریپ‘ کرنے کے خلاف جاری مہم ’می ٹو‘ اور ’ٹائمز اپ‘ شروع کرنے والی اداکارہ کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔اب انہوں نے ایک اور مہم کا آغاز کرتے ہوئے ساتھی اداکاروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر اپنے معاوضے کم کردیں۔واضح رہے کہ ہولی وڈ میں جہاں خواتین کو ہراساں کرنے اور ’ریپ‘ کا نشانہ بنانے کے خلاف مہم جاری ہے، وہیں اداکاراؤں کو ساتھی اداکاروں سے کم معاوضہ دینے کے خلاف بھی مہم جاری ہے۔کانز‘ فلمی میلے میں بھی سلمیٰ ہائیک اور کیٹ بلینشٹ کی سربراہی میں 13 مئی کو 82 اداکاراؤں و خواتین فلم پروڈیوسرز نے احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ اداکاراؤں کو مردوں کے برابر معاوضے دیے جائیں۔اب سلمیٰ ہائیک نے مردوں سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں تفریق ختم کرتے ہوئے خواتین کے برابر معاوضے لینے چاہییں۔
ملیکہ شراوت کا بھی خواتین کے حق میں احتجاج
میڈیا رپورٹ کیمطابق 71 ویں کانز فلمی میلے میں بولی وڈ اداکارہ ملیکہ شراوت نے بھارت کی نجی سماجی تنظیم ’فری اے گرل انڈیا‘ کی جانب سے بچیوں، کم عمر لڑکیوں اور خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے خلاف منفرد احتجاج کیا۔اداکارہ نے دنیا بھر کے افراد کی توجہ حاصل کرنے اور خواتین کے خلاف جاری تشدد کو روکنے کیلئے انوکھا احتجاج کرتے ہوئے خود کو جیل نما پنجرے میں قید کرکے خواتین کے حقوق کیلئے آواز بلند کی۔ملیکہ شراوت نے ’کانز‘ میں خود کو پنجرے میں قید کرکے احتجاج کرنے سے قبل ریڈ کارپٹ پر جلوے بھی بکھیرے۔