میرپورخاص ضلع میں گٹکے کے ہلاکت خیزنشے کی وجہ سے گزشتہ چند ماہ میں متعدد افرادزندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ، حال ہی میں تعلقہ سندھڑی کا نوجوان الیاس منہ کے کینسر میں مبتلا ہوکر اپنی زندگی کی بازی ہار گیا، لیکن پولیس نے بدستور چشم پوشی اختیار کی ہوئی ہے۔ شہر میں جگہ جگہ اس کی فیکٹریاں کام کررہی ہیں جب کہ قوانین کی موجودگی کے باوجود قانون نافذ کرنے والے ادارے قوانین کے عمل درآمد میں ناکام ہیں۔ پاکستان اور بالخصوص سندھ کی صورت حال پرطائرانہ نظر ڈالی جائے تو میرپور خاص میں قانون کی عمل داری نہ ہونے کے برابر ہے۔ دن دھاڑے چوری ،ڈکیتی اور راہزنی کی وارداتیں معمول بن گئیں، پولیس خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے۔ صرف مارچ کے مہینے میں متعدد افراد اپنی موٹر سائیکلوں اور نقدی سے محروم ہوگئے جب کہ فروری کے مہینے شہری تالاتوڑ گروہ کے ہاتھوں پریشان رہےجو میرواہ گورچانی پولیس اسٹیشن کی حدود بیلاڑو شاخ اسٹاپ میں 3 دوکانوں کے تالےتوڑ کر لاکھوں روپے نقد اور موبائل فون لے گئے،سیٹلائٹ ٹاؤن چونا فیکٹری کے نزدیک اور غریب آباد تھانے کی حدود میں واقع ٹور آباد میں موٹر سائیکل اور موبائل فون چھینے گئے جب کہ پولیس امن و امان کی صورت حال بہتر بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔
گٹکے جیسے ہلاکت خیز نشے کے خلاف 30ستمبر2016 کو وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت منعقدہ سندھ کابینہ کے اجلاس میں صوبہ بھر میں پبلک مقامات پر سگریٹ نوشی پر پابندی عائد کرنے کے ساتھ ساتھ شیشہ ،گٹکا اور مین پوری پر پابندی کو یقینی بنانے کیلئے موثر اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔، سندھ اسمبلی کے متعدد اجلاسوں میں صوبہ میں گٹکے کے کاروبار اور استعمال پر قوانین کو مآثر بنانے کی بازگشت بھی سنائی دیتی رہی۔عدالت عالیہ نےبھی گٹکا اور مین پوری کے خلاف کارروائی کرنے کیلئے متعدد مرتبہ پولیس کواحکامات جاری کیے جب کہ گٹکا کھانے والے امیدواروں کی پولیس میں بھرتی ممنوع قرار دی گئی۔ 14نومبر2017کو صوبہ بھرمیں گٹکا اور مین پوری کی تیاری اور فروخت پر پابندی عائد کرنے کے لئے سندھ اسمبلی میں حکومتی جماعت کی رکن روبینہ قائم خانی نے پیش کیا تھا،جس میں کہا گیا تھا کہ بڑی تعداد میں بچے اور بڑے گٹکا اور مین پوری کے عادی ہورہے ہیں،جو انتہائی مضر ہے،اس سے نہ صرف ان کی صحت متاثر ہورہی ہے،بلکہ ان کی زندگیوں کو بھی شدید خطرہ لاحق ہے۔بل میںگٹکا اور مین پوری تیار اور فروخت کرنے والے کوسات سال قید کی سزا اور ایک لاکھ روپے تک جرمانہ تجویز کی گیا ہے۔ اس بل کو بھاری اکثریت سے منظور کرلیا گیا۔
بل کی منظوری کے باوجود سندھ کے شہری اور دیہی علاقے گٹکا اور مین پوری کے کاروبارکا مرکز ہیں جب کہ اس کی فیکٹریوں میں اضافہ ہورہا ہے ،اس کاروبار میں ملوث عناصر اور ان کے سرپرست کس قدر مضبوط اور بااثر ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے آگے صوبے کی اعلیٰ حکومتی شخصیات بھی بے بس نظر آتی ہیں۔
میرپورخاص سمیت اندرون سندھ کے شہری اور دیہی علاقے جو پہلے ہی شراب ،ہیروئن ،چرس اوریگر منشیات کی لعنت کا شکارتھے اب گٹکا اور مین پوری کے کاروبار کا بھی گڑھ بن چکے ہیںجس کو تحفظ فراہم کرنے میں اثرورسوخ کے علاوہ کرپشن کا بڑا عمل دخل ہے ۔گٹکے اور مین پوری کی تیاری کے حوالے سے میرپورخاص ضلع کا تعلقہ میرپورخاص ،تعلقہ کوٹ غلام محمد ،تعلقہ ڈگری اور تعلقہ جھڈو خاصی شہرت رکھتے ہیں۔
باوثوق ذرائع کے مطابق اس کی تیاری میں گلی سڑی چھالیہ اورضرر رساں کیمیکلز کا استعمال ہوتا ہے جس میں جانوروں کا خون بھی شامل ہے۔ ان اشیاء کو اگر کچھ دن کسی جگہ رکھا رہنے دیں تو اس میں کیڑے پڑنا شروع ہوجاتے ہیں۔حیدرآباد اورٹنڈوالہ یار سے بھی روزانہ لاکھوں روپے مالیت کا گٹکا اور مین پوری میرپورخاص آتی ہے جب کہ بھارت سے بھی ملک کے مختلف راستوں کے ذریعے اسمگل شدہ گٹکا میرپورخاص لایا جاتا ہے ۔شہر کے وسط میں واقع بازار بھارتی گٹکے کے کاروبار کا مرکز ہے۔ ان علاقوں میں پولیس کے وردی و سادہ لباس اہل کاروں کا گشت بھی رہتا ہے جو اپنا ’’کام‘‘ نمٹا کر واپس چلے جاتے ہیں۔ گٹکے اور مین پوری کے کاروبار کے خلاف کارروائیوں کے لیے پولیس کی مخصوص ٹیمیں بھی بنائی گئی ہیں، لیکن وہ بھی اس کاروبار کے خاتمے میں بے بس ہیں۔کبھی کبھار عوام کے شدید دبائو پر محدود پیمانے پر چھاپے مار کر کچھ افراد کو پکڑ بھی لیا جاتا ہے ،لیکن بااثر شخصیات کی مداخلت یا مک مکا کے بعد خاموشی سے معاملے کود با دیا جاتا ہے۔اس گھنائونے کاروبار نے ضلع کے مختلف علاقوں کے متعد د نوجوان زندہ لاش بن چکے ہیں۔ نگراں صوبائی حکومت کو سابقہ اسمبلی کا منظور کیا ہوا مذکورہ بل مؤثر بنانے کے لیےمنشات کی لعنت کے خلاف ضرب عصب یا ردالفساد طرز کا آپریشن کرنا چاہئے۔