کراچی(ٹی وی رپورٹ) جیو نیوز کے پروگرام ”جرگہ“ میں سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئےوزیرا علیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ گلگت بلتستان گورننس آرڈر 2018کے بعد اب گورنر باہر سے نہیں آسکتا بلکہ گلگت بلتستان کا ڈومیسائل یافتہ ہوگا، پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی ووٹ لینے کے لئے گلگت بلتستان میں دوغلی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں تین چھوٹے صوبے گلگت بلتستان کا استحصال کر رہے ہیں،پنجاب ہمیں سات پرسنٹ دینے کے لئے تیار ہے، نواز شریف نے کام صرف لاہور یا پنجاب میں نہیں کیا گلگت بلتستان کا جو ستر سال سے مطالبہ رہا اُس کو پورا کیا ۔میں بھی یہ سمجھتا ہوں کہ یہ مہینہ جیسے کہ آپ نے کہا فاٹا اور گلگت بلتستان کے لئے مبارک ثابت ہوا ہے یقینا ایساہی ہے میں شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں وفاقی حکومت کا اور بالخصوص قائد محترم نواز شریف کا جنہوں نے یہ شروعات کی تھی۔ ایک ہمارے پاس 2009 ءء کا آرڈر تھا جو محترم آصف زرداری نے گلگت بلتستان کے لئے دیا تھا اس میں مسئلہ یہ تھا کہ گلگت بلتستان کی کسی بھی شخصیت کو آن بورڈ نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے اُس میں بہت سے قباحتیں آگئیں جس کا نقصان زیادہ ہوگیا کچھ فائدہ بھی ہوئے ۔جی بی آر ڈر 2018 کے بعد انتظامی سطح پر گلگت بلتستان کی حیثیت صوبے جیسی ہوگئی ہے ۔ ہم نے آل پارٹیز کانفرنس بلائی شروع میں ہی اُس میں کہا گیا کہ اگر ممکن ہے تو پاکستان کا پانچواں آئینی صوبہ بنا دیا جائے اُس میں تین آپشن دیئے گئے تھے ہم نے ایک آپشن اپنایا اس میں آزاد کشمیر اور باقی صوبوں میں جتنے اختاریات ہیں وہ سب ملنے چاہیں۔ انتظامی سطح پر صوبوں جیسی ہی کی گئی ہے اے جے کے ، کے اندر جو نظام ہے وہاں صدر اور وزیراعظم ضرور ہیں نام کے لیکن اختیارات وہی ہیں جو صوبوں کے اندر ہیں۔ چار آئینی جو صوبے ہیں یہ آئین کے دو حصے ہیں شیڈول فور اور شیڈول فائیو ہے شیڈول فور وضاحت کرتا ہے اٹھارہویں ترمیم کے تحت کہ صوبوں کے اختیارات کون کون سے ہوں گے جو مرکز کے پاس ہوں گے شیڈول فائیو ہے جو وضاحت کرتا ہے صوبوں کے اختیارات کیا ہوں گے ہمیں اُسی طرز پر گلگت بلتستان اور اے جے کو بھی شیڈول فائیو کے تحت جو باقی صوبوں کو اختیار حاصل تھے انتظامی سطح پر وہ سارے اختیارات منتقل کر دئیے گئے ہیں۔انتظامی اور مالی معاملات کے لئے باقی صوبوں کی طرح وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کو بھی اختیارات مل گئے ۔ گلگت بلتستان کے پاس اب ایک ارب تک کی سکیم شروع کرنے کا اختیار ہے۔ ہمارے آفیسرز اس وقت جتنے بھی ہیں ایس پیز ہیں ڈی آئی جیز ہیں وہ لوکل ہی ہیں آئی جی اور چیف سیکرٹری صوبائی حکومت کی مرضی کے ساتھ وفاق بھیجتی ہے ابھی ایک آئی جی تھا وفاق نے کہا اس کو ہٹانا ہے ہم نے کہا نہیں ہمیں یہ منظور نہیں ۔ سول سروش شیئرنگ کا جو فارمولا تھا ہمارا GBاور وفاق کے درمیان وہ ریورس ہوگیا دوسرا یہ ہوا کہ ہمارے جو جی بی کے او ایم ایس ڈی ایم ایس کے سروس کے لوگ جو ہیں وہ زیادہ سے زیادہ وہاں پر اس وقت اگر ہمارے پاس بائیس سیکرٹریز کی پوسٹیں ہیں اس میں سے آدھے سے زیادہ لوکل سیکریٹریز بیٹھیں ہیں ہوم سیکرٹری لوکل رہا ہے آرڈر 2018 میں گلگت بلتستان کے لئے فیڈرل سروس میں کوٹہ رکھ دیا گیا ہے ۔ گلگت بلتستان قومی اقتصادی کونسل کا نان ووٹنگ رکن ضرور ہے لیکن اپنی بات منواسکتا ہے ۔ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی ووٹ لینے کے لئے گلگت بلتستان میں دوغلی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ ہمارے حصے کے پیسے دینے میں تین صوبے مخالف ہیں جو سیاست بڑی کرتے ہیں چھوٹے صوبوں کی میں کہتا ہوں سب سے زیادہ استحصال گلگت بلتستان اے جے کے فاٹا کا اگر کوئی کر رہا ہے ہمارا سندھ کر رہا ہے کے پی کر رہا ہے اور بلوچستان کر رہا ہے پنجاب نے دل کھول کے کہا ہم سات پرسنٹ دینے کے لئے تیار ہیں ہمیں وفاق نے کہا کہ آپ آئین میں آنا چاہتے ہیں تو ٹھیک ہے ہم اے جے کے کو ہم پنجاب میں ضم کر دیتے ہیں اور جی بی کو فاٹا میں کردیتے ہیں ۔آرڈر کے بعد گورنر باہر سے نہیں آسکتا بلکہ گلگت بلتستان کا ڈومیسائل یافتہ ہوگا اے جے کے صدر کے پاس جو اختیارات ہیں وہ ہمارے گورنر کے پاس ہیں پہلا ہمارا گورنر کسی صوبے سے بھی لگ سکتا تھا ۔ہمارے چیف کورٹ کے پاس اختیارات اسٹیٹس مراعات سارے ہائی کورٹ والے ہی ہیں ۔ جو ہم نے گزشتہ دو سالوں سے سپریم کورٹ میں دیکھا ہے اگر اس طرح یہاں آکر دھکے کھانے ہیں دس دس سال سے مقدمے پڑے ہیں میرے لوگ وہاں سے آجاتے یہاں چھ مہینے ہوٹلوں میں بیٹھتے آج وہاں پر میری سپریم کورٹ آف پاکستان گلگت بلتستان میں دس سے زیادہ مقدمے پنڈنگ میں نہیں ہیں۔ ہائی کورٹ میں ہم نے پورا کمپیوٹرائز سسٹم کر دیا ہر تحصیل میں ہمارا سول جج بیٹھا ہوا ہے اُس کی وجہ سے ہمارے ہائی کورٹ کے اندر pendency اس وقت نہ ہونے کے برابر ہے ہم نہیں چاہتے ہم ایسے سپریم کورٹ میں چلے جائیں جہاں پر سیاسی کیسز کو ترجیح بنیاد پر سنیں جائیں اور فینڈامینٹل رائٹس کے ایشوز جو ہیں میرا حق کا جو ایشو ہے وہ دس سال بعد بھی مجھے نا ملے۔ ملک کے حالات آپ کے سامنے ہیں کیامشکلات آئیں کس طرح کے فیصلے آئے سترسال میں یہ فیصلے کسی نے کئے آج تک حالانکہ یہاں ڈکٹیٹر بھی رہے ہیں مارشل لاء بھی رہا ہے آج ایک سیاسی گورنمنٹ جس کا کافی مشکل حالات میں موجود ہیں اس کے باوجود میں داد دیتا ہوں شاہد خاقان عباسی کو بریسٹر ظفر اللہ ،قائد محترم نواز شریف کو اور آپ سب کو جنہوں نے مل جل کر یہ کام کیا ہے۔ جنرل قمر باجوہ کا آپ نے نام نہیں لیااس کے جواب میں حافظ حفیظ الرحمان نے کہا کہ یقینا جنرل باجوہ کا میں سمجھتا ہوں اس آرڈر کے لئے جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی دلچسپی لی وہ جی بی میں سروس کرنے کی وجہ سے لوگوں کے احساسات سمجھتے ہیں اُس وجہ سے بھی جنرل باجوہ کی دلچسپی رہی ہے اور میں اُن کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ آرڈر 2018 کے تحت گلگت بلتستان کو پانچ سال کے لئے ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے ۔ نواز شریف نے کام صرف لاہور یا پنجاب میں نہیں کیا گلگت بلتستان کا جو ستر سال سے مطالبہ رہا اُس کو پورا کیا ۔دو سال تک آئینی دائرے میں نہ آسکے تو گلگت بلتستان آرڈر 2018 کو عبوری آئین بنا دیا جائے گاجو گلگت بلتستان کی شناخت یا ڈومیسائل رکھتا ہوگا وہ ہی وہاں رہائش رکھ پائے گا ۔ گلگت بلتستان میں زمینیں دینے کے حوالے سے پیپلز پارٹی بدگمانیاں پیدا کر رہی ہے گلگت بلتستان میں اٹلی کی مدد سے 8 لاکھ کنال زمین آباد کر رہے ہیں جس میں سے ابھی تک ایک لاکھ کینال زمین ہم آباد کر کے کمیونٹی کو دے چکے ہیں ۔ میں آپ کے پروگرام کے وساطت سے میں دعوت دیتا ہوں ہر اُس جی بی کے شخص کو وہ مجھے ثابت کریں کہ جو پنجاب کے اندر اختیارات دیئے گئے ہیں گلگت بلتستان میں وہ اختیار نہیں ہیں تو میں اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کے لئے تیار ہوں ۔گلگت بلتستان گورننس آرڈر 2018 کتنا قابل اطمینان جیو نیوز کے پروگرام ”جرگہ“ میں سلیم صافی نے ”گلگت بلتستان گورننس آرڈر 2018 کتنا قابل اطمینان“ ہے اس پر تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے دو خطوں فاٹا اور گلگت بلتستان کے لئے یہ ماہ نہایت مبارک ثابت ہو رہا ہے اگر ہمیں علم ہوتا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے اپنے آخری مہینوں میں اسے مبارک اقدام اٹھانے ہیں تو شاید ہم دعا کرتے کہ اُن کا آخری وقت پہلے آجاتا تاکہ یہ تاریخی فیصلے پہلے ہوجاتے۔ گلگت بلتستان کو نسبتاً اُتنی اہمیت نہیں دی گئی جتنا کہ اُن کا حق تھا باقی میڈیا کی طرح میں بھی اس جرم کا مرتکب یقینا ہوا ہے ۔