نسیم سحر اکبر آبادی
آج کل اصلاح معاشرہ کا بہت چرچا ہے گھر گھر میں ، گلی گلی میں بی بیبیوں کے لبوں پر اور بیگمات کی زبان پر اصلاح معاشرہ کا ذکر خیر نظر آتا ہے۔ ہمارے حکمران اور ان کے وزراء اب سیاست کی باتیں کرتے کرتے اصلاح معاشرہ کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ ستر برس کے بعد ہم اپنی اصلاح کر نے کے خیال سے گھبرا گئے ہیں۔بقول شاعر
اب تو گھبراکے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیںگے
مرکے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
بات صرف اتنی سی ہےکہ اصلاح معاشرہ کی بات کہاں سے شروع کی جائے ۔ کون کرے گا اصلاح اور کس کی؟ اور یہ اصلاح کب تک ہوجائیگی اس کی بھی کیا ضمانت ہے؟ ایک نجی محفل میں کس نے اس خاکسار سے دریافت فرمایا کہ ’’اگر آپ سے اصلاح معاشرہ کا کام لیا جائے تو آپ کیا کریں گے؟ یہ سنکر میں نے جواب دیا کہ میں تو از خود اپنی اصلاح چاہتا ہوں اور کسی سے مشورہ کا طالب ہوں میں تو ایک بے عمل گناہگار انسان ہوں بھلا میں معاشرہ کی اصلاح کس طرح کرسکتا ہوں!
پھر بھی…!
انہوں نے اصرار کیا تو میں نے کہاہماری اندھی تقلید نے معاشرہ کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے جس کسی کو ھبی نصیحت کرو لوٹ کر یہی جواب ملتا ہے۔ ’’اپنے گریباں میں تو جھانک کر دیکھو‘‘۔حقیقت تو یہ ہے کہ تقسیم ہند کے بعد انتقال آبادی میں جہاں ہمیں آزاد ملک ملا وہاں ہر چیز آزاد ہوگئی۔
شرم و حیا آزاد ہوگئی
رشوت اور سفارش آزاد ہوگئی
امتحانوں میں نقل آزاد ہوگئی
ہم نے اپنی اقدار ، اپنے اسلاف اور مذہبی روایات سب کو بھینٹ چڑھادیا اس ضمن میں اپنے بچپن کا ایک واقعہ قیام پاکستان سے پہلے کا ہے۔ قارئین کی نذر کررہا ہوں میں اپنے نانا محمداسحٰق مرحوم کے ساتھ آگرہ کی ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا اس وقت میں بچہ تھا اور شعیب محمدیہ اینگلو اورینٹیل کالج میں مکتب کا طالب علم، بچہ ہونے کی وجہ سے سب سے آخری صف میں کھڑا ہوا تھا کوئی شعور نہیں تھا بس سجدہ کرنے والوں کے ساتھ سجدہ اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرتا تھا ابھی تراویحاں ہو ہی رہی تھیں کہ باہر باجا بجنے کی آوازیں آنے لگیں۔ میں بھاگ کر مسجد کی سیڑھیوں تک گیا میں نے دیکھا باہر سڑک پر کچھ لوگ نیفریاں بجاتے ہوئے اور ڈھول پیٹتے ہوئے جارہے تھے یہ دیکھ کر میں اپنی صف میں آکر کھڑا ہوگیا، لیکن جب نماز ختم ہوئی تو سب نمازی جمع ہوگئے اور کہنے لگے ان لوگوں نے ہماری نمازوں میں خلل ڈالنا اپنا معمول بنالیا ہے اب ہم انہیں چھوڑیں گے بعدازاں یہ ایک بہت بڑا جھگڑا بن گیا نعرہ تکبیر کی آوازیں آنے لگیں اور سب اپنے اپنے گھروں سے بانس اور بلم ، لاٹھیاں ،چھریاں چھاپے لے آئے اور شور شرابہ کرنے والوں کو وہ سبق دیا کہ پھر اس کے بعد نماز کے دوران کوئی بینڈ با جا نہیں بجا ،کوئی شور شرابہ نہیں ہوا کسی کی نماز میں خلل نہیں پڑا گو اس واقعہ کو کئی سال گزر گئے ہیں، لیکن بچپن کے واقعات ذہن کے گوشہ میں محفوظ ہیں اور اس لئے یاد آرہے ہیں کہ آج ہم اصلاح معاشرہ کی بات کرنے چلے ہیں۔ یہ واقعہ آگرہ کی مسجد کا تھا۔ اب ذرا اپنے آزاد ملک پاکستان میں مسجدوں کی بات کرلیتے ہیں۔ ہم مذہب کا کس قدر احترام کرتے ہیں، جب اذان کی آواز سنائی دیتی ہےتو بس عورتیں اپنے سروںپر ڈوپٹے ڈال لیتی اور ہم اپنے ٹی وی کی آواز کم کردیتے ہیں، اذان ختم ہوتے ہی ٹی وی پھر کھول لیتے ہیں ۔
اصلاح کا لفظ بہت وسعت رکھتا ہے لیکن عام تشہیر کے لئے یہی کافی ہے کہ ہم یعنی مرد اور عورت ، میاں اور بیوی ، بھائی اور بہن ساس اور بہو خسر اور داماد ، باپ اور بیٹا مل جل کر یہ بیڑہ اٹھائیں کہ اپنے دن کا آغاز اپنے گھر سے کریں اس ضمن میں ایک بات بہت اہمیت رکھتی ہےکہ عورت خواہ کسی بھی روپ میں ہو اصلاح معاشرہ کے لئے کڑ بن سکتی ہے نسل و فرقہ ، مذہب و ملت کی بنیاد پر عورت فی الواقعی ایسا کردارا دا کرسکتی ہے کہ اس معاشرہ کی تطہیر لئے لٹھ مارنے کی ضرورت باقی نہ رہے گی عورت کا پیار ، عورت کی شفقت، عورت کی محبت ، انکساری ، عاجزی ، مروت یہ سب ہتھیار مرد کے لئے وجہ امتیاز رکھتے ہیں، لیکن پہلے اپنا پاندان بند رکھنا پڑے گا۔ پان اور دان ضرورت نہیں ہے، تعیشات میں سے ہیں، یہی وجہ ہے کہ حکومت وقت نے چھالیہ کی قیمت اس قدر بڑھا دی ہے کہ پان چھالیہ کھانے والوں کےہوش اڑ گئے ہیں، جب کوئی نانی اور دادی اپنے پوتا پوتی یا نواسہ نواسی کے منہ میں بھی پان کی ٹکڑی ڈال دیتی ہیں، بعینہ اگر کوئی باپ سگریٹ نوشی کا عادی ہے تو اس کے سگریٹ کے ٹوٹے ا س کے بچے ہی منہ میں لگا لگا کر سگریٹ نوشی کا آغاز کرتے ہیں، پان اور سگریٹ گو کہ بہت معمولی مثال ہے کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس سے اصلاح معاشرہ کا کیا تعلق ؟ تو عرض ہے کہ طوائف کے کوٹھے اور پان کی دکان کا کیا تعلق ہے؟ ایک زمانہ تھا اور بہت ممکن ہے یہ ڈھکا چھپا زمانہ اب بھی ہو چاندی کے ورق لگی گلوریاں طوائف زادیوں کے مخملین فرش اور گائوں تکیوں کی ٹیک پان میں الائچیاں یہ سب کیا تھا؟ کہ راتوں کے پچھلے پہر پان کی دکان پر جھمگٹا لگا رہتا اور سگریٹ پہ سگریٹ پھونکے جاتے تھے۔
لہٰذا اصلاح معاشرہ کے لئے پان اور سگریٹ کا ملک بھر سے خاتمہ کرنا ہوگا ۔ یہ کہناغلط نہ ہوگا کہ سگریٹ چھالیہ پان کتھا چونا زعفرانی پتیاں اور زردوں کا کیا ہوگا، اس کا بھی بعد میں کچھ کرلیں گے حالانکہ جاپان میں چھالیہ چولہے میں جلائی جاتی ہے اس سے ایندھن کا کام لیا جاتا ہے اور انڈونیشیا میں پان جانوروں کو کھلائے جائے ہیں۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے زمانہ میں سائیکل رکشے بند کردیئے گئے تھے اب وہ ہی لوگ چنچیاں اور رکشے چلارہےہیں ان میں سے کسی کے بھی بادل نخواستہ مرنے کی اخبارات میں خبر نہیں چھپی سب کو اللہ تعالیٰ نے متبادل رزق عطا فرمادیا۔
عورت مرد کو کنٹرول کرسکتی ہر محاذ اور معرکہ پر عورت مرد پر قدرت رکھتی ہے گو وہ ناقص العقل کہلاتی ہے۔ مرد کی ایک شہادت کے مقابلہ میں دوعورتوں کی گواہیاں قرآن و سنت کے مطابق مسلم ہیں لیکن عورت بصورت دختر ، ماں باپ کی کڑی نگرانی میں رفتہ رفتہ امور خانہ داری حاصل کرتی ہے اور پھر ساس، جس قدر بہوکو اپنی کسوٹی پر پرکھ کر اسے جانچتی ہے۔ مرد کو اتنی کٹھن آزمائشوں سے نہیں گزرتا پڑتا ہر گھر کا فرد اپنی صبح کا آغاز صحت مند طریقے سے کرے۔ فجر کی نماز اور ترجمے سے تلاوت کو لازمی جزو زندگی بنائے، ناقص غذائوں سے پرہیز کرے، ذہن کو پراگندہ خیالات اور وسوسوں کو باہر نکال دے۔ معاشرہ کے اطراف اپنی مائوں ، بہنوں، بیٹیوں اور بہوئوں کو بھی ’’انسان ‘‘ سمجھے ، انہیں ،خونخوار وں کی طرح نہ دیکھے۔ اس ضمن میں ایک نئی اصلاح تحریر کررہا ہوں اور اپنے مشاہدے کے مطابق کہہ سکتا ہوں کہ
’’عورت استری شدہ کپڑوں کی مانند ہے‘‘
معاشرہ کی تمام سلوٹیں عورت ہی درست کرسکتی ہے، البتہ ہر گھر کی ماں، بیوی ، بیٹی اور بہو خوب اچھی طرح جانتی ہے کہ اس کے گھر کے مردوں کی تنخواہ یا آمدنی کتنی ہے اگر اخراجات اس حدود و قیود سے تجاوز کرنے لگیں تو گھر کی ماں ، بہن ، بیٹی اور بہو کو ان ناجائز ذرائع آمدنی سے متعلق نہ صرف احتجاج کرنا چاہئے، بلکہ الم بغاوت بلند کرنا چاہئے تاکہ گھر کے مرد حضرات ناجائز آمدنی کے ذرائع ختم کردیں۔ یہ اصلاح معاشرہ کیلئے سب سے بہتر اقدام ہے، یعنی آپ نے اندازہ لگالیا ہوگا کہ اصلاح معاشرہ کا آغاز اپنی ذات، اپنے گھر اور گردونواح سے کرنا چاہئے۔ فضول خرچی پر پورا کنٹرول ہو ،اس ضمن میں بحث بہت طویل اور دلائل نا تمام ہوسکتے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہر وقت نئی نسل کو مورد الزام نہ ٹھہرائیں، ہم نے آگ کھائی ہے تو انگارے اگل رہے ہیں۔ خود عمل کریں، جو کہیں اسے پورا کریں۔ ہر سطح پر اپنے قول و فعل میں تضاد نہ آنے دیں۔ حکومتی سطح پر بھی قول و فعل کے تضاد نے معاشرے کے بگاڑ میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ارباب اقتدار اور سیاسی و مذہبی جماعتوں کے اکابرین کے کاندھوں پر اصلاح معاشرہ کی بہت بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ عدالتیں، جوسزا ایک کے لئے مقر ر کریں وہی سزا دوسروں کےلیے بھی لازمی قرار ہو ، باعمل بنیں تاکہ بچے اس کی تقلید کریں۔ حکومت کو چاہئے کہ اصلاح معاشرہ کیلئے مندرجہ ذیل تین نکات پر سختی سے عمل کرائے۔
(1) جھوٹ
(2) رشوت
(3) ناجائز ذرائع آمدنی اور امور
(1) …جھوٹ …
معاشرہ کی ساری برائیوں کی جڑ جھوٹ ہے جس طرح قبض انسان کی منجملہ بیماریوں کی ماں ہے اسی طرح جھوٹ ، مکروفریب معاشرہ کی تمام برائیوںکی ماںہے۔ صبح سے شام تک دنیا کا کاروبار جھوٹ پر چلتا ہے۔ دھوکہ دہی ، فریب ، دغابازی یہ سب جھوٹ کی شیرخوار اولادیں ہیں ۔دنیاوی اور دینوی امور کی مراسلت میں خطابت میں وعدے اور عہد میں لین دین میں، عدلتوں میں، ملازمین کی ترقی میں، طلباء کو نمبر دینے میں، کاروبار میں غرض ہر شعبہ ہائے زندگی میں جھوٹ بولنے والوں کو سخت سے سخت ترین سزائیں دی جائیں، تب ہی معاشرے میں بہتری کے آثار نمایاں ہوں گے، لیکن یہاں تو جھوٹ کا معاملہ اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ دودھ والا اپنے مہینے بھر کے پیسے لینے آتا ہے تو باپ بیٹے سے کہتا ہے کہ ’’کہہ دو ابا گھر پر نہیں ہیں‘‘۔ کل آنا۔
(2) …رشوت …
یہ برطانوی دور غلامی کی ’’بخشش‘‘ ہے جو ہمیں رشوت کے طور پر ملی ہے۔بعض گھروں کی عورتیں اسے ’’اوپر کی آمدنی‘‘ بھی کہتی ہیں۔ رفتہ رفتہ چپکے چپکے یہ رشوت اندھیرے سے اجالوں میں آگئی۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’رشوت لینے و الا اور رشوت دینے والا‘‘ دونوں جہنمی ہیں۔ آج پاکستان جس کرب اور اذیت میں مبتلا ہے ، کیا چھوٹا کیا بڑا ، کوئی محکمہ ایسا نہیں ہے، جو کرپشن سے پاک ہو۔ آپ نے دیکھا سینیٹ کہ چیئرمین کے انتخاب میںاربوں کھربوں کی کرپشن ہوئی۔ جب اس قدر اعلی و ارفع ادارہ میں کرپشن کا یہ معیار ہو تو عوام سے کیا کیا جائے ۔ ایک مرتبہ موٹرسائیکل پر جارہا تھا کہ ٹریفک سارجٹ نے روک لیا، میرے کاغذات مکمل تھے پھر بھی اس نے کہا کچھ چائے پانی کے لئے دیدو‘‘ میں نے کہا تمہیں شرم نہیں آتی مسکرا کر بولا کیا اسلام آباد والوں کو آتی ہے۔ میں لاجواب ہوگیا۔ اس بارے میں ہمارے علماء کو مل بیٹھ کر سوچنے کی ضرورت ہے کہ معاشرہ سے رشوت کا سدباب کس طرح ہوسکتا ہے، اگر تنخواہیں تین گنا کردی جائیں، پھربھی اگر کوئی رشوت لے تو اسے کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔
(3) …ناجائز امور…
اس میں تمام ناجائز امور آجاتے ہیں۔ ناجائز دولت ، ناجائز منافع ، ناجائز چھٹی ، ناجائز سفارش ، ناجائز ڈگریاں ، ناجائز ترقیاں، ناجائز حکومت ، ناجائز کاروبار، ناجائز داخلے،ناجائز ویزے، وغیرہ وغیرہ۔ غرض یہ کہ جو چیز جھوٹ پر مبنی ہوگی، رشوت کی پگڈنڈی پر سفر کرتی ہوئی ناجائز کی حدود پر دم توڑ دے گی۔
ان تین نکات پر مکمل گرفت کرلی جائے تو ہمارا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن سکتا ہے۔ قائداعظم اور شہید ملت خان لیاقت علی خان نے یہ ملک اس لئے نہیں بنایا تھا کہ یہاں لٹیروں ، ڈاکوئوں کی راجدھانی ہو اور غریب عوام ظلم و استبداد کی چکی میں پستے رہیں۔ یہ ملک لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا ۔ کہا گیا تھا کہ یہاں اللہ اور رسول اللہؐ کا قانون چلے گا۔ یہاں انصاف ملے گا۔کسی کی حق تلفی نہیں ہوگی۔ یہاں مظلوم کی دادرسی کی جائے گی، مگر افسوس ہم تباہی و بربادی کے کنارے کشکول لئے کھڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کو اندرونی و بیرونی دشمنوں سے محفوظ رکھے آمین۔