• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تپش اور ہوائیں بجلی بنائیں

توانائی کے ذخائر پر بڑھتے ہوئے دبائو اور توانائی کے نرخوں میں ہوش ربا اضافے کے پیشِ نظر دنیا بھر میں متبادل ذرائع کی تلاش اور انہیں ترقی دینے کا عمل وقت گزرنے کے ساتھ تیز ہوتا جارہا ہے۔ اس ضمن میں ہوا، پانی، دھوپ، بھاپ، ایتھانول بایو گیس وغیرہ سرِفہرست ہیں ۔ بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی اور اس کے نتیجے میں دنیا کے درجۂ حرارت میں اضافے نے بھی سائنس دانوں، محققین اور ماہرینِ ماحولیات کو اپنی توجہ اس جانب مبذول کرنے پر مجبور کیا ہے۔ رکازی ایندھن، مثلاً تیل، قدرتی گیس اور کوئلے کو توانائی حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنے پر ماحول میں خطرناک گیسز خارج ہوتی ہیں۔ ان کے حصول کے لیے بھاری سرمایہ کاری، بھاری مشینری اور پلانٹس، طویل کوششوں اور مہارت کی ضرورت ہوتی ہے اور تیزی سے انہیں نکالنے اور استعمال کرنے کے نتیجے میں نہ صرف فطری ماحول کا توازن بگڑ رہا ہے، بلکہ قدرتی وسائل بھی تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ دوسری جانب متبادل ذرائع سے توانائی بنیادی قسم کے آلات کے ذریعے بنیادی فطری طریقوں کی مدد سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ رکازی ایندھن قابلِ تجدید نہیں ہوتا، یعنی ایک بار استعمال ہونے کے بعد وہ مختلف اور نقصان دہ اجزاء میں ٹوٹ کر ماحول میں بکھر جاتا ہے ۔ توانائی کے متبادل ذرائع قابلِ تجدید ہیں، وہ نقصان دہ اجزا میں ٹوٹتے ہیں اور نہ ایک بار استعمال ہونے کے بعد ماحول میں بکھرتے ہیں۔

اب تو سائنس دان اور محققین آتش فشانی عمل کے دوران پیدا ہونے والی حرارت اور موجوں کے تلاطم کے نتیجے میں پیدا ہونے والی حر کی توانائی سے بھی توانائی حاصل کرنے کے لیے نت نئی ٹیکنالوجیز ایجاد کرنے اور انہیں ترقی دینے کے لیے مسلسل کوششوں میں مصروف ہیں۔

اچھی خبر

صوبہ سندھ کے بجلی کے ترسے ہوئے باسیوں کے لیے مئی 2018امید کی کرن بن کر آیا ہے،کیوں دس مئی کو صوبے کے وزیر اعلی نے اعلان کیا کہ سندھ میں شمسی توانائی کو فروغ دینے کے لیے عالمی بینک کے تعا و ن سے سندھ سولر انرجی پروجیکٹ شروع کیا جائے گا۔ بجٹ تقریر میں وزیر اعلی سندھ کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کے تحت 105ملین امریکی ڈالرز کی لاگت سے صوبے میں پی وی ٹیکنالوجی متعارف کرائی جائے گی۔اس منصوبے کا باقاعدہ افتتاح نئے مالی سال میں کیا جائے گا۔اس کے تحت کراچی اور حیدر آباد کےساتھ گرڈ سے د و ردرازعلاقوںکےرہا ئشیو ں کو شمسی توانائی سے بجلی فراہم کی جائے گی۔ اس ضمن میں 2 لاکھ افراد کو شمسی توانائی سے بجلی کی فراہمی کا ابتدائی ہدف مقرر کیا گیا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت تک صوبہ سندھ ونڈ ملز سے پیدا ہونے والی935میگا واٹ بجلی قومی گرڈ کو منتقل کر چکا ہے اور جو ن 2018 ء تک ونڈ ملز کے مزید چھ منصوبوں سے پیدا ہونے والی 300میگاواٹ بجلی قومی گرڈ کو منتقل کر دی جائے گی۔

پاکستان میں بجلی کا بحران ملک کو درپیش بڑے چیلنجز میں سے ایک ہے۔ کئی برسوں سے ماہرین کہتے آ رہے ہیں کہ اگر توانائی کی طلب و رسد کے درمیان فرق کو مؤثر انداز میں ختم یا کم نہیں کیا گیا تو معاشی تنز ّل نا گُزیر ہے۔حکومت کے جھوٹے دعوے اورلوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے بے حمیت اعلانات ذرایع ابلاغ نے حقیقی تصویر دکھا کر ان کے منہ پر سیاہی کی طرح مل دیے ہیں۔ حقیقت یہ ہے بجلی کی قلّت میں ہر سال اضافہ ہی ہوتا جارہاہے جس کے باعث عو ا م کو یومیہ کم از کم چھ سے آٹھ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ برداشت کرنی پڑتی ہے۔ خاص طور پر دیہی علاقوں میں صورت حال بہت خراب ہے جہاں دن بھر میں صرف دو سے تین گھنٹوں کے لیے بجلی دست یاب ہوتی ہے۔ حالیہ تحقیق سے پتاچلا ہے کہ اس وقت پاکستان کا43 فی صد حصہ بجلی کے بغیررہ رہا ہے۔ عالمی طور پراقتصادی مسابقت میں ہر سال اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے لیے مزید ضروری ہوجاتا ہے کہ بجلی کے مسئلے کا موثر،ٹھوس اورپائے دار حل تلاش کیا جائےجواسٹریٹجک اقتصادی ترقی اور سماجی ڈھا نچے سے منسلک ہو۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان ایسا ملک ہے جو شمسی توانائی کے منصوبوں کا خیر مقدم کرتا ہے کیوں کہ اس سے دیہی اور شہری علا قوں کے مکینوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی آ سکتی ہے۔چناں چہ یہ ضروری ہے کہ نجی اور سرکاری ا شتر ا کات شمسی توانائی کو پن بجلی کے قابلِ اعتماد متبادل کے طور پر فروغ دینےکےلیے مزید کوشش کریں تاکہ مُلک بجلی کے مسلسل بحران پر طویل المدت بنیادوں پر قابو پاسکے۔ملک کی بڑھتی ہوئی بجلی کی ضرورت کو پورا کرنےکےلیےتوانائی کےروایتی ذرایع کے نرخ میں مسلسل اضا فے اور معدنی ایندھن کے ذخائر میں کمی کے پسِ منظر میں شمسی توانائی کا موزوں متبادل کے طور پر اُبھرنا منطقی با ت معلوم ہوتی ہے ،کیوں کہ پاکستان ایسے خطّے میں واقع ہے جہاں دھوپ کثرت سے دست یاب ہوتی ہے۔اگراقتصادی اور ماحولیاتی طورپرمناسب پا لیسیز متعارف کر ا ئی جائیں تو ہماری بہت سی ضروریات شمسی توانائی سے پوری ہوسکتی ہیں۔

اس وقت پاکستان کی بجلی کی تقریبا 95 فی صد پید ا وارپن بجلی سے ہوتی ہے جو بجلی کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے سے قاصر ہے، خاص طور پر خشک اور گرم مہینوں کے دوران۔ علاوہ ازیں، ملک کی آبادی کا تقریبًا70 فی صد حصّہ 50,000 دیہات میں رہتا ہے۔ان میں سے بہت سے دیہات دور دراز علاقوں میں واقع ہیں جس کا مطلب ہے کہ ا ن کی قومی گرِڈ کی مرکزی ترسیلی لائنز تک رسائی نہیں ہے اور وہاں رہنے والی محدود آبادی کے پیشِ نظر اُنہیں قومی گرِڈ سے مربوط کرنا منہگا سودا نظر آتا ہے۔تاہم شمسی توانائی ملک کے اُن تمام علاقوں کے لیے بہترین ذریعہ ہے جہاں سال بھر دھوپ نکلتی ہے۔ تخمینوں کے مطابق پاکستان یومیہ اوسطًا19 میگاجولز فی مربع میٹر شمسی شعائیں وصول کرتا ہے ۔ اگر یہ شمسی توانائی موثر اندازمیں استعمال کی جائے تودیہی کے ساتھ شہری علاقوں کو بھی فوائد حاصل ہوں گے اور توانائی کے روایتی ذرایع پر بوجھ کم ہوجائےگا۔دیہی اور نیم شہری علاقوں میں شمسی توانائی سے چلنے والے گیزر اور چولہے نصب کیے جا سکتے ہیں جس سے گیس، بجلی، لکڑی اور کوئلے کامحفوظ اور صاف متبادل حاصل ہوسکتا ہے ۔یاد رہے کہ ایسی تنصیبات تو ا نا ئی کے روایتی ذرائع کے مقابلے میں بہت سستی پڑتی ہیں ۔

قابلِ تجدید توانائی

قابلِ تجدید توانائی کے لیے 1970ء اور 1980ء کی دہائیوں میں متبادل توانائی کی اصطلاح مشہور ہوئی تھی۔ اس کے بعد سائنس دانوں اور محققین نے اس میدان میں مسلسل پیش رفت کا آغاز کیا اور 2030ء تک دنیا بھر میں استعمال ہونے والی تمام تر توانائی متبادل ذرائع سے حاصل کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ اس میں سے ایک ذریعہ ہوا کے ذریعے توانائی کا حصول ہے۔ ہوا سے توانائی حاصل کرنے کے عمل کے دوران ماحول آلودہ نہیں ہوتا، کیوں کہ اس کے لیے کوئی کیمیائی عمل درکار نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی ایسی ذیلی مصنوع یا کچرا پیدا ہوتا ہے،جوماحول کے لیے نقصان دہ ہو، بالخصوص کاربن ڈائی آکسائڈ جیسی ماحول کے لیے خطرناک گیس۔ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ متبادل ذرایع توانائی میں دنیا بھر کے ملکوں کی دل چسپی رو ز بہ روز بڑھتی جارہی ہے۔ آج دنیا بھر میں ہوا کی طاقت سے بننے والی بجلی کی طلب میں بہت تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور اس کے لیے درکار تمام اقسام کی پو ن چکّیوں اور متعلقہ آلات تیار کرنے والے طلب میں ہونے والے زبردست اضافے کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے دن رات کام میں مصروف ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق چندبرسوں میں ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے منصو بوں کی نمو 500گیگاواٹ سے بھی بڑھ جائے گی ا و ربراعظم ایشیا ایسے منصوبوں کے ضمن میں دیگر بر ا عظمو ں سے آگے ہوگا۔ یادرہے کہ اس وقت دنیا بھر میں 80 ممالک میں ہوا کے ذریعے بجلی پیدا کرنے والے منصوبے تجارتی بنیادوں پر کام کررہے ہیں۔

شمسی توانائی ، کل اور آج

شمسی توانائی کے استعمال کا نظریہ تقریباڈھائی سو سا ل پرانا ہے۔ دن بھر سورج کی توانائی کو ذخیرہ کرکے شب کے اندھیرے میں اس کا استعمال بیسویں صدی میں شروع ہوا۔تجرباتی مرحلے کے بعد شمسی توانائی کا استعمال 60ء کے عشرے میں ممکن ہوا۔ اس وقت ایک سولر سیل کی قیمت انتہائی زیادہ یعنی قریب 300 ڈالرز فی واٹ تھی۔ اُس وقت شمسی توانائی کو بنیادی طور پر خلائی پروگراموں کے لیے کام میں لایا جاتا تھا۔ 1958ء میں Vanguard I وہ پہلا سیٹیلائٹ تھا، جس میں توانائی کے لیے شمسی شعاؤں کا استعمال کیا گیا۔

جدید دور میں شمسی توانائی کے استعمال کو اُس وقت فروغ حاصل ہوا جب1970ء کی دہائی میں تیل پیدا کر نے والے ممالک کی تنظیم اوپیک نے کئی مغربی ممالک کو تیل کی فراہمی بند کردی تھی۔ اُس وقت تو انائی کے متبادل ذرایع کی اہمیت اجاگر ہوئی اور تیل، گیس اور کوئلے سے ہٹ کر دیگر ذرائع کی کھوج تیز تر کردی گئی۔ صورت حال پر قابوپانےکےلیےشمسی توانائی کوذخیرہ کرنےکی صلا حیت رکھنے والے سیلز کی قیمت سیکڑوں ڈالرز سے کم ہوکر 20 ڈالر فی واٹ تک گرگئی۔80ء کی دہائی تک شمسی توانائی سے متعلق تیکنیک،مصنوعات اور استعمال میں ا مریکا سر فہرست رہا، جہاں لاس اینجلس کی کمپنی Luz دنیا بھر میں شمسی توانائی سے متعلق اشیاء کا 95 فی صدتیار کر ر ہی تھی۔جیسے ہی سستے داموں تیل کی دست یابی ایک مرتبہ پھر ممکن ہوئی،شمسی توانائی کے استعمال میں نمایاں کمی ہونے لگی۔مذکورہ کمپنی جلد ہی بند ہو گئی۔ اس کی انتظامیہ نے امریکی حکومت پر شمسی توانائی کے ماحول دوست اور دور رس مثبت اثرات کو نظر انداز کرنے کا الزام عائد کیا۔

اب ایک مرتبہ پھر دنیا بھر میں شمسی توانائی کا استعمال فروغ پا رہا ہے۔ ماحول دوست تنظیموں کے ساتھ عوام میں بھی اس کی مقبولیت بڑھ رہی ہے اور یورپ کے خوش حال ممالک سے لے کر افریقا کے کئی غریب ممالک میں بھی سولر پینل نصب دکھائی دیتے ہیں۔ شمسی توانائی کے استعمال کے حوالے سے اس وقت جرمنی دنیا کا سرفہرست ملک ہے، جہاں شمسی توانائی سے حاصل ہونے والی مجموعی بجلی کا پانچ فی صد پیدا ہوتا ہے۔ جرمنی میں 28 گیگا واٹ کی توانائی کے حامل ایک ملین سے زائد یونٹس ہیں جن میں سے بیش تر شہریوں کے پاس ہیں۔

دنیا بھر میں شمسی پینلز تیار کرنے والے ادارے اب زیادہ تعداد میں اور کم قیمت پر پینلز تیار کر رہے ہیں۔ نئے پینلز سے حاصل ہونے والی بجلی بارہ تا بیس سینٹ فی کلو واٹ فی گھنٹہ پڑتی ہے۔ خط اُستوا پر واقع ملکوں میں بجلی کی پیداوار زیادہ بھی ہو گی اور وہ سستی بھی پڑے گی۔ جرمنی میں شمسی توانائی کے شعبے سے وابستہ افراد کی تعداد ڈیڑھ لاکھ ہے، جن میں سے بیس ہزار شمسی سیلز بنانے والی فیکٹریز میں کام کرتے ہیں۔ چند ایک فیکٹریز چین کی جانب سے کم قیمت والے پینلز کے دباؤ کو برداشت نہیں کر سکیں اور بند ہو چکی ہیں۔ آج دنیا پھر میں شمسی توانائی کے پینلز کی گنجائش کا تقریباً نصف چین میں تیار کیا جا رہا ہے۔

ڈیزل جنریٹرز کے مقابلے میں شمسی توانائی سے حا صل شدہ بجلی کی قیمتوں میں مسلسل کمی آ رہی ہے اور ماہرین آنے والے برسوں میں دنیا بھر میں شمسی توانائی سے استفادے میں بہت زیادہ اضافے کی توقع کر ر ہے ہیں۔دنیا بھر میں شاید ہی کوئی اور ٹیکنالوجی ایسی ہو گی، جس نے چند برسوں میں اتنی تیزی سے ترقی کی ہو گی اور بہ تدریج اتنی سستی ہو گئی ہو گی۔ 2007ء میں جرمنی میں شمسی پینلز سے حاصل کردہ بجلی کی قیمت 40 اور 50 سینٹ فی کلو واٹ فی گھنٹہ تھی اور زیادہ دھوپ والے ملکوں میں تقریباً 30 سینٹ تھی۔تاہم پانچ سال بعد ہی یہ نرخ نصف سے بھی کم ہوچکے تھے۔ماہرین کے مطابق جرمنی میں بڑے شمسی بجلی گھروں میں پیدا کی گئی بجلی بارہ سینٹ فی کلو واٹ فی گھنٹہ میں فروخت کے لیے پیش کی جا سکتی ہے۔دنیا کے چند ایک ایسے علاقوں میں،جہاں بہت زیادہ دھوپ ہوتی ہے، 6 تا 7 سینٹ فی کلو واٹ فی گھنٹہ کے حساب سے بھی شمسی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔زیادہ تیز دھوپ والے علاقوں میں شمسی توانائی سے پیدا کی جانے والی بجلی اور بھی سستی پڑے گی۔ماہرین کے درمیان اس بات پر اتفاق ہے کہ آنے والے برسوں میں شمسی توانائی سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمتیں اور نیچے آئیں گی۔ ایک اندازے کے مطابق 2020ء تک ان قیمتوں میں مزید ایک تہائی کی کمی واقع ہو چکی ہو گی اور 2025ء تک یہ قیمتیں آج کے مقابلے میں آدھی رہ جائیں گی۔

فوٹووولٹیک کے شعبے میں یورپ کا سب سے بڑا تحقیقی ادارہ ہوفر انسٹی ٹیوٹ ہے۔ اس کے ڈائریکٹر آئیکے ویبر (Eike Weber) کے مطابق 2025ء تک شمسی پینلز کے کاروبار میں دَس گنا تک اضافہ ہو چکا ہو گا ۔ آج کل جرمنی شمسی توانائی کے شعبے میں دنیا بھر میں سرفہرست ہے ۔ یہاں ملکی ضروریات کی چھ فی صد بجلی شمسی توانائی سے حاصل کی جاتی ہے۔ شمسی توانائی کے شعبے سے تقریباً ایک لاکھ افراد کا روزگار وابستہ ہے۔ یہ اور بات ہے کہ آج کل شمسی پینلز بنانے والی جرمن کمپنیوں کو شدید مقابلہ بازی کا سامنا ہے۔آئیکے ویبر کے خیال میں شمسی پینلز کے کاروبار کو منافع بخش بنانے اور مقابلہ بازی کے قابل ہونے کے لیے کہیں زیادہ بڑے اور جدید کارخانے قائم کیے جانے چاہییں۔2025ء تک دنیا بھر کے کارخانوں میں 300 گیگا واٹ کی صلاحیت کے حامل شمسی پینلز تیار کیے جا رہے ہوں گے۔

خوش قسمتی سے پاکستان جغرافیائی اعتبار سے ایسے خطے میں واقع ہے جہاں سورج سارا سال پوری آب و تاب سے چمکتا رہتا ہے۔ جس کے باعث شمسی توانائی نہایت آسانی کے ساتھ اور بلا تعطل وافر مقدار میں ہر وقت دست یاب ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری حکومتوں نے توانائی کے اس اہم ذریعے کی جانب کوئی توجہ نہیں دی۔بہ ہر حال دیر آید درست آید کے مصداق اس سمت میں کام کا آغاز ہوچکا ہے لیکن اس کی رفتار بہت سست ہے۔ ایسے شدید بحران میں جب قوم گرمی اور سردی سمیت ہر موسم میں لوڈ شیڈنگ کا عذاب جھیلنے پر مجبور ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ قابل تجدید توانائی کے شعبے میں جنگی بنیادوں پر کام کیاجائے۔شمسی توانائی کا حصول نہ صرف قومی سطح پر بہ آسانی کیا جاسکتا ہے بلکہ اسے انفرادی سطح پر حاصل کرنے میں بھی کوئی زیادہ قباحت نہیں ہے۔

لوگ اکثر یہ سوال پوچھتے ہیں کہ عام آدمی اپنی بجلی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے شمسی توانائی کو کیوں کر بہ روئے کار لاسکتا ہے؟ اس کا نہایت آسان اور سیدھا سا جواب یہ ہے کہ گھر کا ایک کمرہ روشن کرنے کے لیے سولر پینل کاسب سے چھوٹا سسٹم لگانے پر تقریباً پانچ ہزار یا زیادہ سے زیادہ دس ہزار روپے لاگت آتی ہے۔ اگر آپ اس کے ساتھ پنکھا بھی چلانا چاہیں تو اس لاگت میں اسی تناسب سے تھوڑا سا اضافہ ہوجائے گا۔ لیکن یہ خرچ صر ف ایک بار ہوگا جس کے نتیجے میں بجلی کے بار بار آنے والے اور بلبلادینے والے بھاری بلوں سے آپ کی جان چھوٹ جائے گی۔ ایک اور قابل ذکر اور توجہ طلب بات یہ ہے کہ جنریٹر سے حاصل کی جانے والی بجلی اور سولر سسٹم سے حاصل کی جانے والی بجلی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔پھر یہ کہ سولر سسٹم کی تنصیب کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ بجلی کے کام کی تھوڑی بہت سوجھ بوجھ رکھنے والا کوئی بھی شخص یہ سسٹم بہ آسانی لگاسکتا ہے۔

اگر یہ پینل بڑی تعداد میں گھروں میں استعمال کیے جائیں تو اس سے اجتماعی طورپر بہت زیادہ فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں بنگلا دیش کی مثال ہمارے لیے ایک مشعل راہ ہے، جہاں حکومت ایک ملین سے ز یا دہ سولر پینلزلگاچکی ہے اور اس تعداد میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے۔ بنگلا دیش کو اس سے دہرا فائدہ حاصل ہوا ہے کیوںکہ ایک جانب دیہات کو نیشنل گرڈ کے ساتھ جو ڑ نے میں کئی ملین ڈالرز کی بچت ہوئی ہے اور دوسری جانب مقامی لوگوں کو روزگار کے ہزاروں مواقعے میسر آئے ہیں۔ گویا آم کے آم، گٹھلیوں کے دام۔پاکستان بھی بنگلا دیش کی تقلید سے بہت فائدہ اٹھاسکتا ہے کیوں کہ اس کی آبادی کا بہت بڑا حصہ دیہات پر مشتمل ہے اگرچہ وطن عزیز میں شمسی توانائی کے متبادل ذریعے کی جانب بہت تاخیر اور سست روی کے ساتھ توجہ دی گئی ہے تاہم یہ بات نہایت خوش آیند اور حوصلہ افزا ہے کہ اس سلسلے میں ایک جانب عوامی شعور بیدار ہورہاہے جب کہ دوسری جانب حکومت بھی اس معاملے میں اپنی دل چسپی کا اظہار کررہی ہے جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ سولر انرجی پیدا کرنے والےبعض آلات کی در آمدپر حکومت نے کسٹم ڈیوٹی معا ف کردی ہے۔وقت کا تقاضا ہے کہ توانائی کے شدید بحران کو حل کرنے کے لیے شمسی توانائی کے متبادل ذریعے کے فروغ اور حوصلہ افزائی کے لیے حکومت بڑے بڑے سولر پلانٹس کے لیے بھی مکمل چھوٹ دے دے اور عوام میں اس کی افادیت اور اہمیت کا شعور بیدار کرنے کے لیے تمام مطلوبہ عملی اقدامات کرے۔

پون چکّی چلے،بجلی بنے

ہوا کی مدد سے توانائی حاصل کرنے کا طریقہ انسان طویل عرصے سے استعمال کرتا آیا ہے۔ انسان نے تقریباً ساڑھے پانچ ہزار برس قبل ہوا سے حاصل ہونے والی توانائی کے ذریعے مختلف امور انجام دینا شروع کر دیے تھے۔ مثلاً بادبانوں میں ہوا بھر کر کشتیاں چلانا، زیرِزمین موجود پانی پون چکی کے ذریعے نکالنا اور اجناس کو پیسنا وغیرہ ۔ افغانستان ، ایران اور موجودہ پاکستان کے علاقوں میں ساتویں صدی عیسوی سے پون چکی کے ذریعے زیرِ زمین موجود پانی سطح پر لانے اور اجناس پیسنے کے لیے استعمال ہونے کے بارے میں بعض شواہد ملتے ہیں۔ جدید تاریخ کے مطابق 1887ء میں اسکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے پروفیسر جیمز بلتھ نے سب سے پہلے ہوا سے توانائی حاصل کرنے کے ایک طریقے کا تجربہ کیا اور اس طریقے کو برطانیہ میں 1891ء میں پیٹنٹ کرایا۔ 1887ء ۔1888ء کی سردیوں کے آغاز میں امریکا سے تعلق رکھنے والے چارلس بی برش نے ہوا کی مدد سے چلنے والی مشین کے ذریعے بجلی حاصل کرنے کا کام یاب تجربہ کیا۔ اس مشین کی مدد سے حاصل ہونے والی بجلی سے 1900ء تک وہ اپنے گھر اور تجربہ گاہ کو بجلی فراہم کرتے رہے۔ 1890ء کی دہائی میں ڈنمارک سے تعلق رکھنے والے سائنس داں اور موجد پال لاکور نے بجلی پیدا کرنے کے لیے پہلا باقاعدہ ونڈ ٹربائن بنایا جس نے آگے چل کر آج کے جدید ونڈ ٹربائن کی شکل اختیار کی۔ بیسویں صدی کے اوائل میں دیہات میں عمارتوں کو بجلی فراہم کرنے کے لیے چھوٹے ونڈ ٹربائنز کا بڑے پیمانے پر استعمال شروع ہوگیا تھا۔ بڑے پیمانے پر بجلی پیدا کرکے اسے بجلی کی ترسیل کے باقاعدہ نظام کے ذریعے دیگر علاقوں تک پہنچانے کے لیے بڑے یونٹس نصب کرنے کے ابتدائی تجربات 1931ء میں سابق سوویت یونین کے کئی علاقوں میں کیے گئے۔ پھر 1941ء میں امریکا کی ریاست ورمونٹ میں تجرباتی بنیاد پر ایک اعشاریہ 25 میگاواٹ کا ونڈ ٹربائن نصب کیا گیا۔

تازہ ترین