• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کورین تنازعے میں ایک اور ڈرامائی موڑ

گزشتہ ماہ کے آخر میں کورین تنازعے میں اُس وقت ایک اور ڈرامائی موڑ آیا کہ جب امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا کے رہنما، کم جونگ اُن سے 12جون کو سنگاپور میں ہونے والی ملاقات منسوخ کر دی۔ ٹرمپ کے کِم کو لکھے گئے خط میں کہنا تھا کہ’’ مَیں آپ سے ملاقات کا متمنّی تھا، لیکن آپ کے حالیہ بیان میں پائی جانے والی مخاصمت سے ایسا لگتا ہے کہ یہ وقت ملاقات کے لیے مناسب نہیں۔‘‘ اُدھر شمالی کوریا کا کہنا ہے کہ کِم جونگ اُن کسی بھی وقت امریکی صدر سے ملاقات پر آمادہ ہیں۔ خیال رہے کہ اس سے قبل شمالی کوریا نے امریکی نائب صدر، مائیک پِنس کے اس بیان کو احمقانہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا کہ شمالی کوریا کا انجام لیبیا جیسا ہو گا۔ نیز، اگر امریکا نے یک طرفہ طور پر جوہری ہتھیاروں سے دست بردار ہونے پر اصرار کیا، تو وہ یہ ملاقات منسوخ کردے گا۔ گزشتہ ایک برس کے دوران کورین تنازعے کے مسلسل نشیب و فراز کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ملاقات کی منسوخی تجزیہ کاروں کے لیے حیرت کا باعث نہیں اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ عنقریب ہی اس کا ڈراپ سین ہونے والا ہے، تو یہ بھی دُرست نہیں۔ اس دوران ایک اور پیش رفت امریکا اور چین کے درمیان جاری تجارتی جنگ میں ’’سیز فائر‘‘ کی شکل میں سامنے آئی۔ اس ضمن میں واشنگٹن میں ہونے والے مذاکرات کو دونوں ممالک کے لیے ہی مفید قرار دیا گیا۔ اگر وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے، تو یہ سارے معاملات کہیں نہ کہیں جا کر ایک دوسرے سے جُڑجاتے ہیں۔ مثلاً شمالی کوریا اور امریکا کو مذاکرات کی میز پر لانے کے حوالے سے چینی صدر، شی جِن پِنگ کا کردار کسی سے ڈھکا چُھپا نہیں اور خود ٹرمپ بھی بارہا اس کا اعتراف کر چُکے ہیں۔

ٹرمپ، کِم ملاقات کی منسوخی کے بعد یہ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ کیا شمالی کوریا دوبارہ ایٹمی تجربات شروع کر دے گا؟ کیا امریکا اور شمالی کوریا کے درمیان گرما گرم بیانات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو جائے گا؟ نیز، کیا ملاقات کی منسوخی شمالی و جنوبی کوریا کے تعلقات پر بھی اثر انداز ہو گی؟ ٹرمپ انتظامیہ کا ماننا ہے کہ شمالی کوریا کی جانب سے تسلّی بخش جواب نہ ملنے سے ملاقات کے مثبت نتائج برآمد نہ ہونے کا خدشہ پیدا ہوا، جس کی وجہ سے ملاقات منسوخ کر دی گئی۔ ناقدین کے مطابق، ملاقات کی منسوخی پر شمالی کوریا کے دھیمے ردِ عمل کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابھی بات زیادہ بگڑی نہیں ہے اور ملاقات کی امید باقی ہے۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر نوبت یہاں تک پہنچی کیسے؟ ناقدین اس کی چند وجوہ بتاتے ہیں۔ خیال رہے کہ گزشتہ دِنوں امریکی مُشیربرائے قومی سلامتی، جان بولٹن نے شمالی کوریا کے معاملے میں ’’لیبین ماڈل‘‘ کاحوالہ دیا تھا۔ انہوں نے یہ تجویز دی تھی کہ شمالی کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کے بعد وہاں ’’لیبین ماڈل‘‘ کا استعمال کیا جائے گا۔ آخر ’’لیبین ماڈل‘‘ کیا ہے اور شمالی کوریا کے حوالے سے اس کا استعمال کس حد تک مناسب تھا؟ واضح رہے کہ امریکا ایک عرصے سے لیبیا کے سابق حُکم راں، کرنل معمّر قذّافی پر یہ الزام عاید کرتا آ رہا تھا کہ وہ لیبیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔2003ء میں امریکا سے معاہدے کے بعد قذافی نے اپنے ایٹمی پروگرام کو خیر باد کہہ دیا، جس کے نتیجے میں مغرب اور لیبیا کے درمیان تعلقات معمول پر آگئے، لیکن 2011ء میں امریکا اور دوسری مغربی طاقتوں نے قذّافی کے مخالفین کی مدد سے نہ صرف اُن کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا، بلکہ انہیں ہلاک بھی کر دیا۔ تاہم، ناقدین اس جانب توجّہ دِلاتے ہیں کہ ایٹمی پروگرام کے خاتمے اور قذافی کی ہلاکت کے درمیان تقریباً 8برس کا وقفہ تھا اور لیبیا کی خانہ جنگی میں ’’عرب اسپرنگ‘‘ نے اہم کردار ادا کیا، لیکن شمالی کوریا نے اس بیان پر شدید ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے ماحول میں مذاکرات کا انعقاد ممکن نہیں۔ ماہرین کے مطابق، شمالی کورین حُکّام نے ’’لیبین ماڈل‘‘ کا مطلب غالباً یہ اخذ کیا کہ امریکا کے ساتھ معاہدے کے بعد کِم کی حکومت کو خطرات لاحق ہو جائیں گے، جب کہ وہ یہ معاہدہ اپنی حُکم رانی کے تحفّظ کے لیے کر رہے ہیں۔ بعض ناقدین اسے جان بولٹن کی سفارتی غلطی یا عُجلت بھی قرار دیتے ہیں اور شاید اسی لیے ٹرمپ کو اپنے مُشیر کے بیان کی وضاحت کرنا پڑی کہ ’’شمالی کوریا اور لیبیا کے درمیان کوئی موازنہ نہیں۔ کِم کی حکومت نہ صرف برقرار رہے گی، بلکہ وہ معاشی استحکام کے لیے اُن کی مدد بھی کریں گے۔‘‘ علاوہ ازیں، شمالی کوریا کو امریکا اور جنوبی کوریا کی مشترکہ فوجی مشقوں پر بھی شدید تحفّظات تھے، جسے اُس نے اشتعال انگیز اور حملے کی تیاری قرار دیا اور جنوبی کوریا کے ساتھ اعلیٰ سطح کے مذاکرات منسوخ کر دیے۔

کورین تنازعے پر مستقل نظر رکھنے والے مبصّرین کا ماننا ہے کہ شمالی و جنوبی کوریا اور امریکا کے درمیان تعلقات میں جس برق رفتاری سے بہتری آئی تھی، اس تیزی سے ہوم ورک نہیں کیا گیا، جو اس قسم کے حسّاس تنازعات کے دیرپا حل کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ ناقدین کے مطابق، تعلقات میں بہتری کی علامات ظاہر ہونے کے بعد تینوں فریقین کے لیے مذاکرات کا انعقاد ضروری ہو گیا تھا اور اسی لیے فوری طور پر 12جون کا اعلان کیا گیا۔ اس سلسلے میں جنوبی کوریا کے صدر، مون جے اِن سب سے زیادہ سرگرم ہیں، کیوں کہ شمالی کوریا سے تعلقات کو معمول پر لانا اُن کی انتخابی مُہم کا ایجنڈا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پورے خلوص سے واشنگٹن اور پیانگ یانگ کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوششوں میں مصروف رہے۔ مون اور کِم کے درمیان اپریل میں جنوبی و شمالی کوریا کی سرحد پر ملاقات ہوئی اور پھر تینوں ممالک کے اعلیٰ حُکّام کے درمیان بات چیت کے بعد یہ خوش خبری سامنے آئی کہ کِم جزیرہ نُما کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک تقریب بھی منعقد کی گئی، جس میں رُوسی، چینی اور مغربی صحافیوں کو دعوت دی گئی۔ بعد ازاں، ایک نیوکلیئر ٹیسٹنگ سائٹ، پنگے ری کو بھی ختم کر دیا گیا، جہاں گزشتہ دس برس میں پیانگ یانگ نے 6ایٹمی تجربات کیے تھے۔ تاہم، چین کی سرکاری خبر رساں ایجینسی، ژن ہوا کے مطابق، گرچہ شمالی کوریا خطّے کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے اور کورین تنازعے کے سیاسی حل پر آمادہ ہے، لیکن جب ان تمام معاملات کو عملی شکل دی جائے گی، تو اس راستے میں کئی پیچیدگیاں بھی آئیں گی، جنہیں دُور کیے بغیر پائے دار امن تک پہنچنا بہت مشکل ہوگا۔ اس ضمن میں ایران کا جوہری معاہدہ ہمارے سامنے ہے، جس میں علاقائی مضمرات کو سامنے نہ رکھنے کی وجہ سے تلخ نتائج سامنے آئے۔

کہا جاتا ہے کہ کِم، ٹرمپ سے ملاقات کر کے دُنیا کو یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ انہوں نے دبنگ انداز میں دُنیا کی سب سے طاقت وَر شخصیت تک اپنی بات پہنچا دی۔ تاہم، ٹرمپ ملاقات سے قبل کچھ یقین دہانیاں حاصل کرنا چاہتے تھے اور اسی لیے انہوں نے کِم کو بھیجے گئے اپنے خط کے آخر میں لکھا کہ اگر کِم اپنا ذہن تبدیل کرلیں، تو وہ ان سے رابطہ قائم کر لیں گے۔ اُدھر شمالی کوریا بھی تنازعے کے حل کا خواہش مند ہے۔ ماہرین کے مطابق، گو کہ امریکا اور شمالی کوریا دونوں ہی خطّے کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے پر متفق ہیں، لیکن ڈی نیوکلرائزیشن سے متعلق دونوں کی سوچ میں فرق ہے۔ ماہرین کے مطابق، شمالی کوریا ایٹم بم بنانے میں کام یاب ہو چُکا ہے اور اُس کے پاس جاپان پر پھینکے گئے ایٹم بم سے 125گُنا طاقت وَر بم موجود ہے۔ نیز، کِم ایسے بیلسٹک میزائلز کی موجودگی کا دعویٰ بھی کرتے ہیں، جو امریکی سر زمین کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ سو، وہ ایک ملاقات کے بدلے ان جوہری ہتھیاروں کو کس طرح دائو پر لگا سکتے ہیں، جو ان کی اور ان کے پیش روئوں کی 65سالہ کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔ پھر وہ اپنے تحفّظ کی ضمانت بھی مانگتے ہیں، جب کہ امریکا کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کو فوراً ایٹمی ہتھیاروں کو تلف کرنا پڑے گا اور تبھی اس کی حفاظت کی ضمانت دی جا سکتی ہے۔ اس سلسلے میں امریکی ماہرین کی رائے یہ ہے کہ اگر شمالی کوریا کو رعایت دی جاتی ہے، تو اس پر عاید شدید اقتصادی پابندیوں کے اثرات زائل ہو جائیں گے اور پھر کسی قسم کی ڈِیل بہت مشکل ہوجائے گی۔ اس ضمن میں وہ ماضی کے ایسے امن مذاکرات کا حوالہ دیتے ہیں، جو شمالی کوریا کے رہنمائوں کی سخت گیری کے وجہ سے ناکام ہوئے اور پھر شمالی کوریا کو ایٹمی ہتھیار بنانے کا موقع بھی مل گیا۔ جنوبی کورین صدر امریکا اور شمالی کوریا کے نقطۂ نظر میں پائے جانے والے تفاوت کو دُور کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔

بہرکیف، عالمی معیشت کے لیے اچّھی خبر یہ ہے کہ امریکا اور چین کے درمیان تجارتی جنگ کا خطرہ ٹل گیا ہے اور دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی مصنوعات پر ٹیکس عاید کرنے کا فیصلہ معطّل کر دیا ہے۔ خیال رہے کہ مارچ میں امریکا نے چین، یورپ اور بعض دیگر ممالک کی مصنوعات پر تجارتی ٹیکس عاید کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم، اس کا سب سے زیادہ اثر چین پر پڑا کہ دونوں ممالک کے مابین تجارت کا حُجم سب سے زیادہ ہے۔ امریکی فیصلے کے ردِ عمل میں چین نے بھی امریکی مصنوعات پر ٹیکس عاید کر دیا اور دونوں جانب سے سخت بیانات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس موقعے پر بہت سے معاشی ماہرین، عالمی اقتصادی نظام کے تلپٹ ہونے کا خدشہ ظاہر کرنے لگے۔ تاہم، چین نے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکا کو بات چیت کی دعوت دی۔ مئی کے وسط میں دونوں ممالک کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا، جسے دونوں ممالک ہی کے رہنمائوں نے اپنے لیے مفید قرار دیا۔ یہاں یہ اَمر قابلِ ذکر ہے کہ امریکا اور چین کے تعلقات میں اُونیچ نیچ شمالی کوریا اور امریکا کے درمیان مفاہمت کے لیے جاری کوششوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے اور پھر ایران اور عالمی طاقتوں کی تاریخی نیوکلیئر ڈِیل سے امریکا کی علیحدگی کے بعد چین کی اہمیت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ اپنے معاشی مفادات کی خاطر ایران اور یورپی ممالک اس جوہری معاہدے کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں، لیکن امریکا اس پر آمادہ نہیں۔ یورپی ممالک کی خواہش ہے کہ کسی طرح چین کے ذریعے امریکا پر دبائو بڑھایا جائے اور اس سلسلے میں جرمن چانسلر، اینگلا مِرکل خاصی فعال ہیں، جنہوں نے گزشتہ دِنوں چینی صدر، شی جِن پِنگ سے ملاقات بھی کی تھی۔

تازہ ترین