• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الیکشن 2018: فیصلہ نوجوان ووٹروں کے ہاتھ میں!

نگران وزیراعظم کے عہدے کے لئے جسٹس ریٹائرڈ ناصر الملک کے نام پر پر اتفاق ہوگیا ہے اور نگران وزیراعظم بنانے کیلئے سب سے پہلے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اُنہیں مبارکباد دی۔ ناصر الملک جو اس سے پہلے چیف جسٹس بھی رہ چکے ہیں ایک غیر متنازعہ شخصیت ہیں جن کے نام پر تمام سیاسی جماعتوں کا اتفاق ہوگیا ہے۔ اور اب جس طرح نگران حکومت کے قیام کے بعد ملک میں عام انتخابات کیلئے تمام راستے ہموار ہوچکے ہیں۔ الیکشن 2018 کا بگل بج چکا ہے 2013 کے انتخابات میں عوام کا مینڈیٹ حاصل کرنے والی پاکستان مسلم لیگ (ن) آئینی مدت پوری کرکے ’’آج‘‘ اقتدار سے الگ ہو رہی ہے ۔قومی اسمبلی میں 180 نشستیں رکھنے والی جماعت کے وزیراعظم نواز شریف عدالت عظمی کے ایک فیصلے میں نااہل قرار دیے جانے کے بعد احتساب عدالت اسلام آباد میں اپنی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر کے ہمراہ مسلسل پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہو رہا ہے کے دو تہائی اکثریت کی حامل پارٹی کے سربراہ کو کرپشن کیس میں نااہل قرار دے دیا گیا جبکہ سابق وزیراعظم اور اس کے خاندان کے خلاف تین ریفرنسز بھی زیر سماعت ہیں ۔برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں واقع فلیٹ کے مقدمے میں نواز شریف مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر عدالت کی طرف سے پوچھے گئے سوالوں کے جواب بھی دے چکے ہیں، سابق وزیراعظم کے دونوں صاحبزادوں کو احتساب عدالت میں پیش نہ ہونے پر مفرور قرار دیا جاچکا ہے۔الیکشن کمیشن 25 جولائی کو ایک ہی دن قومی و صوبائی اسمبلی کے لئے پولنگ کا اعلان کر چکا ہے تاہم ابھی انتخابی شیڈول کااعلان نہیں کیاگیا،انتخاب کی تیاریاں جاری ہیں ،بعض سیاسی حلقے کے ابھی تک انتخابات کے انعقاد کے سلسلے میں پرامید نہیں، ان کا کہنا ہے کہ 2013 کے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت نے اپنا مینڈیٹ بھرپور انداز میں استعمال نہیں کیا ۔2014میں ہی عمران خان نے پاکستان عوامی تحریک اور حکومت مخالف سیاسی جماعتوں کے اشتراک سے 128 دنوں پر محیط دھرنا دیا تھا جس کے نتیجے میں وزیراعظم سیکرٹریٹ سپریم کورٹ ،پاک سیکرٹریٹ، قومی اسمبلی اور سینیٹ سیکرٹریٹ میں معمول کی سرگرمیاں عدم توازن کا شکار ہوگئی تھی۔

الیکشن 2018: فیصلہ نوجوان ووٹروں کے ہاتھ میں!

پاکستان مسلم لیگ نون کی حکومت کے دوران ہی سابق وزیراعظم نوازشریف کو پنجاب کے دارالحکومت میں ’’جوتا حملے ‘‘کا سامنا کرنا پڑا۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف کو اقامہ رکھنے کے جرم میں نااہل قرار دیے جانے سے قبل اپنے حلقہ انتخاب سیالکوٹ میں سیاہی پھینکنے کا سامنا کرنا پڑا جب کہ وزیر داخلہ احسن اقبال کو اپنے حلقہ انتخاب نارووال میں قاتلانہ حملے کا سامنا کرنا پڑا، سیاسی حلقوں کاکہنا ہے پاکستان مسلم لیگ ن کو 2018 کے انتخابی مہم کے دوران سخت کشیدہ ماحول کا سامنا متوقع ہے۔ 2013 کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت بھی طالبان کی دھمکیوں کی وجہ سے ڈرائنگ روم تک محدود رہی تھی، آصف زرداری سمیت بڑے بڑے لیڈر عوامی اجتماعات میں آنے سے گریز کرتے رہے، بالکل اسی طرح خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ نون لیگ کو بھی ٹف ماحول میں انتخابی مہم چلانا ہوگی۔ ن لیگ کے قائد محمد نوا شریف ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر جس بیانیے کے ساتھ انتخابی مہم چلا رہے ہیں اس کو روکنے کی کوئی بڑی کوشش نہ صرف ملک میں حالات کو بےقابو کر سکتی ہے بلکہ کوئی ایسابڑا واقعہ بھی رونما ہوسکتا ہے جو انتخابات کے انعقاد میں رکاوٹ کا موجب بن جائے۔ سیاسی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نون کے قائد محمد نواز شریف سکیورٹی خدشات کی وجہ سے انتخابی مہم میں نہ نکلنے پر آمادہ نہیں ہو سکے ان کا کہنا ہے کہ جان اللہ تعالی کے ہاتھ ہی ہے مارنے والے سےبچانے والا زیادہ طاقتور ہے موت کے خوف سے گھر نہیں بیٹھ سکتے۔ موت برحق ہے جو گھر میں بیٹھ کر بھی آسکتی ہے ، سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ 2018 ءکے انتخابات میں نوجوانوں کے ووٹ فیصلہ کن کردار ادا کریں گے۔ نواز شریف میدان میں موجود رہے تو آئندہ انتخابات میں بھی ن لیگ کا پلڑا ہی بھاری رہے گا، تاہم اگر نواز شریف اور شہباز شریف کےلئےٹف حالات پیدا کرکے انہیں محدود کردیاگیا تو وہ قومی اسمبلی کی 50/40 نشستو ں سے آگے نہ بڑھ پائیں گے اور پنجاب میں بھی ان کی حکومت بننا ممکن نہیں ہوگا۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ نواز شریف کے اقتدار میں شریک 60/50 منتخب لوگوں کا علیحدگی کا اعلان کرکے پی ٹی آئی میں جانا اگرچہ ماحول تبدیل کرنے کی ایک کوشش ہے مگر عوام کو فیصلہ تبدیل کرنے پر شاید مجبور نہ کیا جاسکے۔ حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ ن لیگ نے اپنے منشور کے مطابق پاکستان میں ترقی کی راہیں کھول دی ہیں نواز شریف آئی ایس آئی کے سابق لیفٹیننٹ جنرل(ر) اسد درانی کی ’’ را‘‘ کے سابق چیف کے ساتھ لکھی گئی کتاب پر اپنے تحفظات کا اظہار کرکے قومی کمیشن بنانے کی تجویز دےچکے ہیں اس ضمن میں پیشرفت اور ایکشن بھی انتخابات کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف 2013ء کے انتخابات سے قبل نوجوانوںکو پاکستان میں ’’تبدیلی‘‘ کے نام پر متحرک کئے ہوئے ہے مگر 2013ء کے انتخابات کے بعد پی ٹی آئی کی طرف سے نوازشریف حکومت کے خلاف مسلسل احتجاج کی وجہ سے ایک طرف تو امن و امان کی صورتحال توقع کے مطابق بہتر نہ ہوسکی اور جمہوری حق کے نام پر پورے پانچ سال میں حکومت کے کاموں میں رکاوٹ ڈالنے کا عمل جاری رہا، مگر اس کے باوجود ن لیگ اپنے منشور اور ترجیحات کے مطابق بیشتر کام نمٹانے میں کامیاب ہوگئی۔ 

الیکشن 2018: فیصلہ نوجوان ووٹروں کے ہاتھ میں!

سیاسی تجزیہ نگاروں کاکہنا ہے کہ یوں تو حالات بظاہر نوازشریف کی پارٹی کےلئے مشکل نظر آتے ہیں 2000ء نوازشریف کی جلا وطنی کے بعد 2002ء کے انتخابات میں ن لیگ کوملک بھر میں صرف 14نشستیں ملی تھیں۔ 2008ء کے انتخابات میں جب ق لیگ کے چوہدری پرویز الٰہی ،صدر پرویز مشرف کو وردی سمیت منتخب کرنے کا عندیہ دے رہے تھے ن لیگ 95 نشستیں حاصل کرکے نہ صرف دوسری بڑی سیاسی جماعت کی حیثیت سے سامنے آگئی بلکہ حکومت بنانے کا خواب دیکھنے والوں کو قومی اسمبلی میں نشستیں محدود کرنےکا سبب بھی بن گئی۔ تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں بھی بعض لوگوں کی خواہش تھی کہ عمران خان کی پی ٹی آئی ملک کی سب سے بڑی جماعت کی حیثیت سے کامیاب ہوکر سامنے آئے مگر عوام نے اپنے ووٹوں سے اس خواہش کو رد کردیا اور عمران خان کو وزیراعظم بنانے کے خواہاں خاموش نہیں بیٹھے اور مسلسل ووٹ کے تقدس کو پامال کرنے میں کسی نہ کسی طرح مصروف نظر آئے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کاکہنا ہے کہ یہ بظاہر تو 2018ء کے انتخابات میںمسلم لیگ (ن) دبائو میں ہوگی مگر پاکستان کے عوام ہمیشہ جمہوریت کے حامی رہے ہیں اور انہوں نے ہمیشہ ہی جمہوریت کو مضبوط و مستحکم بنانے کی کوشش کی ہے، تین بڑی سیاسی جماعتیں اقتدار کے لئے پر پھیلائے میدان میں اتر یں گی اور دس سے زائد دوسری بڑی سیاسی جماعتیں مستقبل کے حق حکمرانی میں معاون کی حیثیت سے شامل ہونگیں ۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین