لندن (سعید نیازی) مرحوم اوورسیز پاکستانی پروفیسر محمد اجمل خان کے صاحبزادے احمد عدنان خان نے چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار سے اپیل کی ہے کہ وہ ہماری خاندانی جائیداد کا قبضہ چھڑانے کے لیے سوموٹو نوٹس لیں۔ میں اپنی معذوری کے سبب اس قابل نہیں کہ جائیداد کا قبضہ چھڑانے کے لیے کئی سال تک عدالتوں کے چکر لگا سکوں اور نہ ہی میرے پاس اتنے وسائل ہیں، قبضہ کرنے والے افراد بااثر ہیں جنہوں نے تشدد کرکے مجھے معذور کردیا اور مجھے ان سے اپنی جان کا خطرہ بھی ہے جب کہ جائیداد کے موجودہ مالکان کا کہنا ہے کہ عدنان خان کے الزامات میں صداقت نہیں، نہ ہی انہوں نے کسی پر حملہ کیا اور جائیداد کے سودے کے وقت رقم ادا کردی گئی تھی۔ احمد عدنان خان کا کہنا ہے کہ میرے والد پروفیسر محمد اجمل خان نے برطانیہ سے تعلیم حاصل کی اور وہاں پڑھاتے بھی رہے، بعد میں وطن کی خدمت کی خاطر پاکستان آکر محکمہ تعلیم سے وابستہ ہوگئے۔ 1993ء میں یونیورسٹی آف سائنس ایجوکیشن ٹائون شپ لاہور سے بطور وائس پرنسپل ریٹائرڈ ہوئے۔ انہوں نے اپنے بچوں کے محفوظ مستقبل کے خاطر920کنال اراضی شیخو پورہ میں خریدی اور ریٹائرمنٹ کے بعد اس پر کاشت کاری بھی شروع کی۔ اس کے علاوہ اردو بازار لاہور میں10کمروں پر مشتمل ایک عمارت بھی خریدی، عدنان خان نے بتایا کہ1995ء میں میرے والد نے میری والدہ کو طلاق دے دی تھی جب کہ1997ء میں ان کا انتقال ہوگیا۔ والد کی وفات کے بعد عبدالحمید خان کو اردو بازار والی جائیداد کا نگراں مقرر کیا گیا جس نے مبینہ طور پر جعلسازی سے تیار کردہ جعلی رجسٹری کے ذریقے قبضہ کرلیا جب کہ زرعی اراضی پر بھی ایک شخص نے اپنے بھائیوں کی مدد سے مبینہ طور پر جعلی دستاویز کے ذریعے قبضہ جمالیا۔ عدنان خان نے بتایا کہ میری وراثتی جائیداد ہتھیانے کی غرض سے وہ لوگ جو میرے والد کے دوست تھے آپس میں مل گئے۔ میرے والد پر قاتلانہ حملہ بھی کردیا گیا تھا جس کی وجہ سے میرے والد انتقال کرگئے تھے لہٰذا رجسٹری مورخہ22-10-2001 بحق عبدالحمید خان وغیرہ سے واضح ہے کہ ہم میں سے کوئی ایک بھی رجسٹری کرکے دینے کا اہل نہ تھا۔ یہاں تک کہ انتقال وراثت بھی نہ ہوا تھا، اس کے باوجود رجسٹری درج و تصدیق بھی کرالی گئی۔ عدنان خان نے بتایا کہ چونکہ ہم تینوں بہن، بھائی اُس وقت نابالغ تھے، اس لیے ہم نے والدہ کے ذریعے عدالت سے رجوع کیا۔ مجھے دھوکے سے اراضی پر بلایا گیا اور اغوا کرکے تشدد کا نشانہ بنالیا گیا۔ میری ٹانگوں پر کلاشنکوف کی گولیاں ماری گئیں جس سے میرے دو پائوں مکمل طور پر ایک ہاتھ جزوی طور پر معذور ہوگیا جس کی ایف آئی آر بھی درج کرائی گئی جس کا نمبر 379/2004تھا جس کے بعد میں اپنی نابالغ بہنوں اور بوڑھی والدہ کے ساتھ چھپ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہوگیا۔ اسی اثناء میں زرعی اراضی پر قابض شخص نے ہمارا ہمدرد بن کر مقدمہ کی پیروی کی اجازت مانگی جس پر ہم نے مختار خاص بنانے کے لیے سادہ اسٹامپ پیپر پر دستخط کرکے وہ دئیے لیکن بدقستی سے اُس نے جعلی مختار عام تیار کرواکر عدالت سے مقدمہ واپسی لے لیا اور تمام پراپرٹی اپنے اور اپنے بھائیوں کے نام منتقل کرالی۔ سول جج صاحب نے یہ دیکھنے کی بھی زحمت گوارا نہ کی کہ یہ نابالغان کا کیس ہے اور اس کی بابت عدالت کی کیا ذمہ داری بنتی ہے۔ عدنان خان نے بتایا کہ زرعی اراضی کے متعلق مقدمات کو چلتے20برس گزر چکے۔ لہٰذا میں نے اردو بازار والی جائیداد کے سلسلے میں اوورسیز پاکستان کا بیٹا ہونے کے ناتے اوورسیز پاکستانیز کمیشن پنجاب سے رجوع کیا، اوورسیز پاکستانیز کمیشن نے درخواست مع دستاویزات اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کو بھجوا دیں جس کے بعد مبینہ طور پر جائیداد پر قبضہ کرنے والوں نے انکواری کرنے والوں کو بھی رام کرلیا جس پر ڈائریکٹر اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ مظفر علی رانجھا نے انکوائری اپنے ہاتھ میں لے لی، لیکن ایف آئی ر درج کرنے کا حکم دینے سے زبانی طور پر یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ ایف آئی آر درج بھی ہوجائے تب بھی ملزمان کی ضمانت ہوجائے گی۔ لہٰذا سول کورٹ سے رجوع کریں لیکن آج تک انکوائری رپورٹ فائنل نہیں ہوئی اور فائل ان کے آفس میں ہی موجود ہے۔ درخواست نمبر 9573 مورخہ 25-6-2016 او پی سی میں کارروائی کی منتظر ہے۔ عدنان خان نے کہا کہ میری چیف جسٹس صاحب سے درخواست ہے کہ ڈی جی اینٹی کرپشن کو عدالت میں بلاکر پوچھا جائے کہ وراثت کے بغیر ایک فوت ہوئے شخص کی نابالغ اولاد سے رجسٹری کیسے منظور کرواکر پاس کرالی گئی جب کہ پاس کی گئی رجسٹری میں وراثت کا خانہ آج تک خالی ہے جب کہ عبدالحمید خان نے عدنان خان کے الزامات کو یکسر رد کردیا ہے۔ عبدالحمید خان جن کی طبیعت درست نہیں تھی ان کے بیٹے عبدالصمد نے کہا کہ عدنان خان نے2000ء میں انہیں جائیداد ساڑھے چار کروڑ میں فروخت کی تھی لیکن پوری رقم وصول کرنے کے باوجود قبضہ نہ دیا اور مزید ڈیڑھ کروڑ کی رقم طلب کی جس پر وہ بھی ادا کردی گئی اور یہ کہ عدنان پر حملہ کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔