مشرقی معاشرے میں یہ بات عام سمجھی جاتی ہے کہ مرد گھر کاخرچہ چلانے کے لیے پیسے کمائے گا۔اسی طرح پاکستان میں بھی اسی مقولے پر عمل کیاجاتا ہے۔پاکستان کی آبادی میں مردوں کا تناسب عورتوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ یہاں کام کرنے والی خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں نصف ہے۔ 1958 اور 1973 کے آئین کے تحت مردوں کی طرح عورتوں کو بھی مذہبی آزادی،ووٹ دینے کاحق، آزادی اظہار اور دیگر حقوق حاصل ہیں اور کسی بھی قسم کے صنفی امتیاز پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
آئین کے آرٹیکل 26,25 اور 27 کے تحت حقوق اور روزگار کے لیے جنس کی بنیاد پر کسی قسم کا امتیاز روا نہیں رکھا جاسکتا۔ بے روزگاری اور مہنگائی میں اضافے کے باعث اس رجحان میں کچھ حد تک کمی آئی ہے۔ اب میاں بیوی دونوں مل کرگھرکاخرچہ چلانے کی تگ و دو میںمصروف ہیں۔جب کہ کچھ خواتین کی ترجیح کیریئربنانااورخودمختاری حاصل کرنا ہوتی ہے۔یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ابھی تک پاکستانی معاشرے نے مکمل طور پر ملازمت پیشہ خاتون کے تصور کو قبول نہیں کیاہے۔
ملازمت کی اجازت
ہم ایک طبقاتی معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں مرد وخواتین دونوں کوبہت سے مسائل کا سامنا ہے۔لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ معاشرتی رویوں کی وجہ سے کسی بھی طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کو مروں کے مقابلے میں زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شہروں کی بات کریں تو خواتین میں تعلیم حاصل کرنے کے رجحان میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ اب تعلیم حاصل کرنے والی ہر لڑکی کا خواب ہوتا ہے کہ وہ اپنی قابلیت کے بل پر منتخب کردہ شعبے میں اپنا نام بنائے۔لڑکیوں کے لیے سب سے پہلا مسئلہ گھر والوں کو راضی کرنا ہوتا ہے، جن کی خواہش ہوتی ہے کہ لڑکی کی جلد سے جلد شادی کردی جائے اور نوکری کا شوق وہ سسرال جاکرپورا کرے۔اگر لڑکی کوشادی سے پہلے نوکری کرنے کی اجازت مل جاتی ہے تو رشتہ آنے پر سسرال والے تقاضا کرتے ہیں کہ شادی کے بعد لڑکی کو ملازمت چھوڑنا ہوگی۔
بچوں کی نگہداشت کا معاملہ
شادی کے بعداکثردیکھنے میں آتا ہے کہ ساس بہو کے تعلقات اتنے کشیدہ ہوتے ہیں کہ بہو اپنے بچوں کو ساس کے پاس چھوڑنا پسند نہیںکرتی۔ ہر ملازمت پیشہ خاتون کی تنخواہ اتنی نہیں ہوتی کہ وہ آیا رکھ سکے اور جو رکھ بھی سکتی ہو اسے بھی آیا کی نگرانی کے لیے کسی بزرگ کی ضرورت پیش آتی ہے۔پاکستان میں بھی اس امر کی ضرور ت ہے کہ ملازمت پیشہ خواتین کے شیر خوار بچوں کے لیے نرسری یا ڈے کیئر سینٹر قائم کیے جائیں۔
گھریلو امورکی ذمہ داریاں
شادی شدہ خواتین کی یہ بھی مشکل ہے کہ سسرال میں کہا جاتا ہے کہ اگرملازمت کرے گی توگھر کون سنبھالے گا؟ خاندانی والے کیا سوچیں گے؟ یہی وجہ ہے کہ شدید تھکان کے باوجود ایسی خواتین سب کو وقت دینے اور خوش رکھنے کی بھرپور کوشش کرتی ہیں۔ انھیں ساری دنیا کو باور کرانا ہوتا ہے کہ دفترکے ساتھ وہ گھر، بچے، فیملی اور باقی تمام معاملات خوش اسلوبی سے نبھا رہی ہیں۔ اسی لیے انھیں اپنی ذات کے لیے وقت نکالنا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔
جنسی تقریق
دفتر میں کام کرنے والے مرد حضرات اکثر اوقات خواتین پرجملے کستے ہیں جو ان کی منفی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ ایسے تبصرے خواتین کے لیے نہ صرف تکلیف کا باعث ہوتے ہیں بلکہ ان کے کام پر بھی منفی اثرڈالتے ہیں۔ کام کرنے کی جگہ پرخواتین کوجنسی طور پر ہراساں کرنے سے روکنے اور بہتر ماحول فراہم کرنے کے لیے بھی قانون سازی کی گئی ہے۔ قانون کا مقصد مرد و خواتین کو روزگار کے یکساں مواقع فراہم کرنا ہے تاکہ وہ بلاخوف و خطر اور بغیر کسی امتیاز کے اپنی روزی کماسکیں۔ آئین اور قانون سے قطع نظر آج بھی پاکستانی معاشرے میں کام کرنے والی خواتین کے لیے فرسودہ تصورا ت عام ہیں۔اس لیے قانون سازی کے ساتھ ساتھ سماجی رویوں میں تبدیلی لانا بھی انتہائی اہم ہے۔
ٹرانسپورٹ کا مسئلہ
ملازمت پیشہ خواتین کا ایک اہم مسئلہ ٹرانسپورٹ کا ہے۔ کچھ دفاتر میں خواتین کو ٹرانسپورٹ کی سہولت مہیا کی جاتی ہے مگر بیشتر میں ایسا نہیں ہے۔ مردوں کی طرح خواتین بھی بسوں کے دھکے کھاتی ہیں لیکن انھیں چند سیٹیں ہی دستیاب ہوتی ہیں ان پر بھی اکثر مرد حضرات قبضہ کرلیتے ہیں۔ اس کے علاوہ مردوں کا عورتوں والے حصے سے چڑھنا یا اترنا، پیچھے بیٹھ کرچھونے کی کوشش کرنا،ڈرائیورکا گھٹیا گانے لگا نااور کنڈیکٹر کا کسی نہ کسی طرح ہراساں کرناانتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے۔
یہ چند ایسے مسائل ہیں جوملازمت پیشہ خواتین کوعموماً درپیش آتے ہیں۔اس کے علاوہ خواتین کس ذہنی و جسمانی اذیت کا شکار ہوتی ہیں یہ توبس وہی جانتی ہیں۔ان کے مسائل کے حل کے لئے معاشرے کی تربیت ضروری ہے۔ معاشرے میں مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں۔جس طرح خواتین زندگی کی گاڑی چلانے میں مردوں کا ہاتھ بٹاتی ہیں اسی طرح مردوں کو بھی چاہیے کہ وہ گھریلو امور میں ان کا ہاتھ بٹایا کریں۔خصوصاً بچوں کو اسکول بھیجنے میں ان کی مددکیا کریں ۔ صبح وقت کی کمی کی وجہ سے انھیں دفتر پہنچنے کی جلدی ہوتی ہے ایسے میںبچوں کی تیاری میں ذمہ داریاں بانٹ لی جائیں تو دونوں کو آسانی ہوگی۔ ایسا کرنے سے عورت کو اپنائیت اور تحفظ کا احساس ہوگا۔