نہیں معلوم کہ ایسے لوگوں کا نام لبھاہی کیوں ہوتا ہے؟ اس وقت جو شخص میرے ذہن پر سوار ہے اس کا نام لبھا مسیح ہے۔ لبھے نےکچھ عرصہ قبل انتہائی مجبور ہو کر میرمحمد علی کو اپنی کہانی سنائی۔ اس کے بقول اس کی بیوی آٹھ ماہ قبل غسل خانے میں گری اور اس کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ غربت کے باعث وہ مجبور تھا کہ اس کا علاج اسپتال کے بجائے حکیموں سے کرائے۔ آٹھ ماہ بعد جب وہ تقریباً مفلوج ہوگئی تو وہ اسے اسپتال لے گیا، جہاں ڈاکٹروں نے اسے بتایا کہ اس کی ٹانگ کی ہڈی تقریباً ختم ہوگئی ہے۔ اب آپریشن کے لئے 3لاکھ روپے کی ضرورت ہے۔ اب تین لاکھ وہ کہاں سے لائے۔ میر محمد علی نے اپنے اثر رسوخ سے اسے بیت المال سے پیسے دلوانے کی کوشش شروع کی۔ ایک ماہ اور گزر گیا۔ رقم کا ابھی تک انتظام نہیں ہوسکا۔ سرکاری فائلوں کے ادھر سے ادھر سفر میں وقت گزرتا چلا جارہا ہے۔عام آدمی لبھے سے یہ نہیں پوچھتا کہ تم رقم کا انتظام کیوں نہیں کرپارہے بلکہ یہ پوچھتے ہیںتم جو اتنا عرصہ اسے ڈاکٹر کے پاس نہیں لے جارہے تھے تو تم نے کہیں خود تو مار کر اس کی ہڈی نہیں توڑی اور پھر اس ڈر سے علاج نہیں کروایا کہ کہیں وہ کسی کو بتا نہ دے اور تم پر مقدمہ بن جائے۔
مجھے یقین ہے کہ لبھے کا مسئلہ یہ نہیں ہے۔ اس نے بیوی کو مارا نہیں ہوگا لیکن مجھے اس کہانی کو بھول کرایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ اینگر کی بات کرنا ہوگی، جہاں اس ملک کی پڑھی لکھی آبادی عورتوں پر تشدد کے خلاف ہے، وہاں پی ٹی آئی کے یہ نامزد سپوت جو وزیراعلیٰ بننے کی دوڑ میں شامل ہورہے ہیں گھریلو تشدد کے قائل ہیں۔ اپنے ایک ٹی وی پروگرام میں وہ مبینہ طور پر کہہ چکے ہیں کہ عورتیں خود پر تشدد کو پسند کرتی ہیں اس لئے کہ یہ ان کی نفسیات کا حصہ ہے۔ اس دعویٰ کے ثبوت میں وہ ایک افسانے کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔ ان سے جب خواتین پر تیزاب گردی کے واقعات میں اضافے کے حوالے سے سوال کیا جائے تو وہ بجائے اس کے کہ اس کی مذمت کریں انگلینڈ کی کسی جعلی خبر کا حوالہ دیتے ہیں کہ وہاں ایک برس میں5ہزار سے زائد خواتین پر تیزاب پھینکا جاتا ہے، آپ اس کی فکر کیوں نہیں کرتے۔ یہ صاحب خلافت کے نظام کے قائل ہیں، اپنے جلو میں مجاہدانہ طبیعت کے نوجوان لئے پھرتے ہیں اور یہ نہیں بتاتے کہ ’’خود ان کے علاوہ‘‘ خلیفہ بننے کی صلاحیت رکھنے والا ایسا کون سا شخص ہے جس پر امت مسلمہ اتفاق کرے گی۔
لبھے کے درد کا مداوا تو میں، میر محمد علی کچھ اور دوست مل کر کرلیں گے۔ ہم اسے اس سوال کا جواب تو نہیں دے سکتے کہ خادم اعلیٰ کے سڑکوں اور میٹرو کے بچھائے گئے جال سے غریب عوام کی کیا خدمت ہوئی لیکن ہم قوم کے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش ضرور کرسکتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو آخر کچھ زیادہ ہی پاکباز لوگ نامزد کرنے کو کیوں ملتے ہیں؟ وہ اتنا یوٹرن کیوں لیتے ہیں؟ ابھی لوگ ان کے فاروق بندیال والے معاملے سے سنبھل نہیں پائے کہ انہوں نے یہ نیا مسئلہ کھڑا کردیا ہے۔ کبھی ناصر کھوسہ کو خود نامزد کرتے ہیں اور پھر جب شہباز شریف اس پر اتفاق کرلیتے ہیں تو انہیں شک کی بو گھیر لیتی ہے اور وہ فوراً اپنی نامزدگی واپس لے لیتے ہیں۔ اب فواد چوہدری کی ہم سنیںیا پنجاب اسمبلی کے حزب اختلاف کے لیڈر محمود الرشید کی ، جو نام محمود الرشید سامنے لے کر آرہے ہیں وہ کسی بھی صورت میں دوسری جماعتوں کے لئے قابل قبول نہیں ہوں گے۔ اس سب سے جو ناقابل تلافی نقصان پی ٹی آئی کو ہونے والا ہے اس کا شاید عمران خان ادراک نہیں کرپارہے۔
وہ اپنی ٹیم میں اگر محمود الرشید جیسے لوگوں پر ہی ا نحصار کریں گے اور پھر اگران کی واقعی حکومت آگئی تو ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔ دیگر نام ایاز امیر اور حسن عسکری صاحب کے ہیں۔ حسن عسکری ٹھہرے سدا کے پروفیسر۔ مانا کولمبیا ایسی یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے ہیں لیکن انتظامی امور کا کوئی تجربہ نہیں اور ایاز امیر جب سے(ن) لیگ سے نکالے گئے ہیں (ن) لیگ کے خلاف ہر کارروائی حتیٰ کہ’’ بھین دی سری‘‘ والے دھرنے کو بھی جائز اور صحیح سمجھتے ہیں۔ ان کے ناموں پر کیسے اتفاق ہوسکتاہے۔ مانا انہوں نے پی ٹی آئی کی بہت خدمت کی ہے لیکن ان سے زیادہ خدمت تو پھر ہارون رشید صاحب نے کی ہے۔ پی ٹی آئی ان کا نام کیوں نہیں لیتی؟میں نے جیسا پہلے کہا کہ پی ٹی آئی کی یہ قلابازیاں عوام ضرور دیکھ رہے ہوں گے۔ پی ٹی آئی اس وقت بھی سوچ رہی ہوگی کہ’’غیبی امداد‘‘ ان کے ساتھ ہے لیکن ایسی قلابازیوں کے نتیجے میں جو لوگ ان سے بدظن ہورہے ہوں گے ان کو پی ٹی آئی کے لئے ووٹ دینے پر مجبور کرنے کے لئے کوئی بھی کچھ نہیں کرسکے گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)