اسپین میں مسلمانوں کادور حکومت تاریخ کا روشن باب ہے ، طارق بن زیاد کی فتوحات سے شروع ہونے والا یہ دور مسلمانوں کےا سپین میں آخری بادشاہ ابو عبداللہ کے زوال پر ختم ہوا اور 1492میں جب ابو عبداللہ نے غرنا طہ شہر میں قائم الحمراء محل کی چابیاں عیسائی بادشاہوں کو پیش کیں ،تو اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کی آخری نشانی بھی اُن کے ہاتھ سے نکل گئی ۔مسلمانوں کے دور حکومت کے خاتمے کے بعدا سپین میں مساجد کو چرچ میں بدلا گیا ، مسلمانوں کوا سپین سے نکال دیا گیا اور مسلمان دور حکومت میں قرطبہ ، غرناطہ ، علی کانتے ، کادیس ، سویا اور دوسرے شہروں میں قائم اسلامی کتب کی لائبریری اور اُس دور کی کتابوں پر سب سے پہلے قبضہ کرکے مسلمان مصنفین کی کتابوں کو جلاکر دریا بُرد کر دیا گیا تھا ۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اسپین میں مسلمانوں کی باقیات کو آہستہ آہستہ ختم کر دیا گیا ۔
اسپین میں مساجد کی تعمیر کا سلسلہ بھی دور حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی بند ہو گیا تھا ۔مسجد قرطبہ کو بھی سیر و سیاحت کا مقام قرار دے دیا گیا اور اس کے اندر چرچ بنا دیا گیا لیکن وہاں عبادت کی اجازت ختم کر دی گئی ۔مراکش ، الجزائر ، پاکستان ، براعظم افریقہ کے اسلامی ممالک ، انڈیا ، بنگلہ دیش اور دوسرے اسلامی ممالک سے مسلمانوں نے ایک بار دوبارہ سے 70کی دہائی میں کوئلے کی کانوں میں کام کرنے کی غرض سے اسپین کا رخ کیا اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے ،کوئلے کی کانیں چونکہ ہسپانوی شہر خائن میں تھیں اس لئے سکونت کے لئے کانوں کے مزدوروں نے خائن کے گرد و نواح میں ہی رہائش تلاش کی ۔ 90کی دہائی میں اسپین میں غیر ملکیوں کو لیگل کرنے کا کام شروع ہوا جسے امیگریشن اوپن کا نام دیا گیا ، اس اعلان کے سنتے ہی یورپی ممالک میں مقیم بہت سے مسلمان ممالک اور پاکستانیوں سمیت بہت سے مسلمان اسپین آن پہنچے اور امیگریشن کاغذات حاصل کئے ۔پہلے پہل پاکستان کے نوجوان ا سپین آئے لیکن پھر آہستہ آہستہ ان نوجوانوں کے اہل خانہ بھی اسپین آنا شروع ہو گئے ،جس سے اسپین میں ایک نیا معاشرہ قائم ہوا ۔ ہسپانوی کمیونٹی نے غیر ملکیوں کو خوش آمدید کہا اور ان کے ساتھ گھل مل گئ ۔ ہسپانوی کمیونٹی مسلمانوں کے قومی اور مذہبی دنوں میں شامل ہونا شروع ہوئی تو مسلمانوں نے بھی ہسپانوی تہواروں پر شرکت کرکے ہسپانوی برادری کو اپنے قریب کر لیا ، ان عوامل سے دو معاشروں اور دو اقوام کو قریب ہونے میں بڑی مدد ملی ۔اس قربت کا یہ نتیجہ نکلا کہ ہسپانوی عوام نے تمام غیر ملکیوں کے لئے ایک قانون پاس کروا لیا کہ جو غیر ملکی مسلسل تین سال تک اسپین میں رہے اور ثابت کردے کہ وہ یہاں رہا تو اسے لیگل کر لیا جائے اس قانون کے تحت اسپین میں ہر سال سیکڑوں پاکستانی اور غیر ملکی لیگل ہو رہے ہیں ۔
پاکستانیوں سمیت دوسرے اسلامی ممالک سے تعلق رکھنے والی مسلمان کمیونٹی کی تعداد میں اضافہ ہوا تو انہیں اپنی عبادت کے لئے مساجد کی ضرورت پیش آئی جس کے لئے مقامی کمیونٹی اور اداروں نے مسلمانوں کی مکمل مدد کی اور مساجد بنانے کی اجازت کے ساتھ ساتھ دوسرے قومی اور مذہبی تہواروں کو منانے کے لئے کھلے میدان بھی مہیا کر دیئے ۔اسی سلسلہ کی ایک کڑی رمضان المبارک میں ہر سال بارسلونا میں مقامی اداروں اور عام لوگوں کے لئے کھلے آسمان کے نیچے ایک افطار ڈنر کا اہتمام کیا جاتا ہے اس افطاری کا اہتمام ادارہ ہم وطن ، منہاج القران انٹرنیشنل اور بارسلونا کارپوریشن مل کر کرتے ہیں ۔اس رمضان کے آغاز پرا سپین کے مقامی لوگوں کو رمضان المبارک کے بارے میں آگاہی دینے اور اسلام کے بارے میںمثبت تشخص قائم کرنے کے لیےادارہ ہم وطن اسپین نے ادارہ منہاج القرآن انٹرنیشنل اسپین اور بارسلونا کارپوریشن کے تعاون سے عام لوگوں کیلئے بارسلونا شہر کے مرکز ’’رامبلہ راوال ‘‘ کی شاہراہ پر کھلی جگہ افطار پارٹی کا اہتمام کیا ،جس میں وسطی ڈسٹرکٹ بارسلونا کی سربراہ محترمہ گالا پن،کتلان مذہبی امور کی ڈپٹی ڈائریکٹر ایزابیل اسکاندل، سوشلسٹ پارٹی کے سینئر راہنما خوسے ماریا سالا، نواحی کارپوریشن اوسپتالیت کے شہری امور کے نمائندہ اتنا تو کاریون، علاقائی باشندوں اور تاجروں کی تنظیم کے صدر ایڈواردو، کتلان اسلامی کونسل اور علاقائی سماجی تنظیم ’’ ٹوٹ راوال ‘‘کے صدر محمد ابوالہلول، منہاج القرآن اسپین کے رہنما محمد اقبال چوہدری، مقامی کیتھولک رہنما پادری جائما فلیکر، پاکسلونا کلچرل ایسوسی ایشن کے ڈائریکٹر راجہ شفیق کیانی،حافظ عبدالرزاق صادق، بارسلونا کارپوریشن کی امیگریشن ڈائریکٹر لولی لوپیز اور ہم وطن اسپین کے ڈائریکٹر جاوید مغل نے خطاب کیا۔ مقررین نے اپنے خطاب میں کہا کہ اسلام امن اور محبت کا دین ہے ، ایک دوسرے سے محبت اور بھائی چارہ اسلام کے بنیادی احکامات ہیں۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم اسلامی احکامات کے مطابق ایک دوسرے کے مذہب اور اقدار کا احترام کریں ۔ مقامی مقررین نے کہا کہ جب ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان ایک ماہ یعنی رمضان المبارک میں ہر روز اٹھارہ سے انیس گھنٹے کچھ کھاتے پیتے نہیں اور اس ماہ میں بغیر کچھ کھائے پیے مزدوری بھی کرتے ہیں تو ہمارے لیے یہ سب کچھ حیران کن ہوتا ہے، ہم محسوس کر سکتے ہیں کہ مسلمان کس صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہیں ، مقامی مقررین کا کہنا تھا کہ اس ملک میں ہم سب ایک ہیں اور ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔ ہمیں آج یہاں اس افطاری میں بلا کر مسلمان بھائیوں نے جو عزت بخشی ہے ہم اس کے لئے مشکور ہیں اور کہنا چاہتے ہیں کہ ہم یہاں رہنے والے تمام غیر ملکیوں کو اس ملک کا باشندہ سمجھتے ہیں ۔مقامی کتلان اٹھارٹیز نے اپنی گفتگومیں مسلمانوں کو رمضان کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے نیک خواہشات کا اظہار کیا اوپن افطار میں مقامی کمیونٹی اور پاکستانی، سیاسی، سماجی اور کاروباری احباب کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ اس موقع پر الحاج قاری عبدالرحمان نے اذان دی، اذان اور افطار کے بعد مقامی مہمانوں کی تواضح کی گئی۔