شمیم الدین غوری
بلوچستان کوا للہ تعالیٰ نے750 کلو میٹر لمبے ساحل سے نوازا ہے۔یہاں 350 سے زیادہ انواع اقسام کی مچھلیاں بہترین قسم کے جھینگے اور لابسٹر بھی پائے جاتے ہیں۔ عام زبان میں ڈاٹی، ڈانگری، گولی، سواء، کنڈ، پاپلیٹ، پگاس، دھوتر، کھگّا، دندیا،گھسڑ، آب روز، ہیرا، مشہور مچھلیاں ہیں۔کٹل فش جو مقامی زبان میں مہیّا کہلاتی ہے یہ پاکستان میں نہیں کھائی جاتی بہت بڑی مقدار میں چین جاپان وغیرہ کے علاقوں میں جاتی ہیں ۔وہ تمام مچھلیاں جو تازہ ترین حالت میں فشریز تک پہنچ جاتی ہیں وہ برآمد ہو جاتی ہیں اور جو اس سے کم حالت میں ہوتی ہیں وہ کھانا ہمارے نصیب میں ہیں۔ نمک لگا کر دھوپ میں سکھا کر یا پراسیس کے ذریعے سکھا کر بھی باہر بھیجی جاتی ہیں۔ ان سب مچھلیوں کو پکڑنے کے لئے چھوٹی بڑی کشتیاں استعمال ہوتی ہیں۔بلوچستان ، ماہی گیر اور ماہی گیری لازم و ملزوم ہیں۔ماہی گیر صدیوں سے ایسے علاقے میں آباد ہیں جہاں ماہی گیری کا ماحول ہوتا ہے۔ جہاں ایک خاندان بھی رہتا ہے وہ اپنی کشتی ساحل سمندر پر کھڑی کر لیتا ہے اور وہ اس کی ماہی بندر بن جاتی ہے۔ساحل بلوچستان پر ایسی بےشمار کشتی گاہیں ہیں جہاں مچھیرے اپنی کشتیاں کھڑی کرتے ہیں۔ان جگہوں کو نہ ماہی بندر کہہ سکتے ہیں نہ جیٹی ، نہ فشریز نہ بندر گاہ۔ایسی 35 بستیاں ساحل بلوچستان پر آباد ہیں۔ قابل ذکر بستیوں میں ہوڑمارہ پشکان،سور بندر، گبد، سنٹ سر،کپر،گنز،نوخ بر،چُر،رمبرا،گروسنٹ،ماکولا،جافری،ہد،کولمیر سُنت، طاق بندر وغیرہ شامل ہیں۔ ان تمام بستیوں سے مچھلی صرف آٹھ جگہ لا کر فروخت ہوتی ہے، یہ ہیں گوادر،پسنی، جیوانی،پشکان، سوربندر، ڈامب گڈانی اور کنڈ ملیر۔پورے بلوچستان میں صرف تین جگہ فش ہاربر ہیں، جو گوادر پسنی اور گڈانی میں واقع ہیں،جہاںسے مچھلی بس اونے پونے خرید کر اٹھا لی جاتی ہے اور اصل نیلام اس کا کراچی میں ہی ہوتا ہے۔کراچی تک پہنچانے میں اس کی تازگی میں کمی آجاتی ہے اس لئے اس کے دام کم ملتے ہیں۔آٹھ سے دس ہزار چھوٹی بڑی کشتیاں ساحل بلوچستان پرماہی گیری میں مصروف رہتی ہیں۔
’’سنہرا بیچ‘‘ ایک ساحلی ماہی بندر ہے ،جو مبارک ولیج کے راستے میں پڑتا ہے۔ یہ دریائے حب کے ڈیلٹا کے کنارے پر واقع ہے۔اس میں ماہی گیری کی کم و بیش چار سو کشتیاں ہوںنگی۔اس کی زمیں سندھ میں اور پانی بلوچستان میں ہے۔اس کی ماہی گیری کا سارا دارومدار بلوچستان میں ماہی گیری پر ہے۔یہ سب سے زیادہ تعداد میں شوقیہ اور پروفیشنل نان ماہی گیروں کو اپنی کشتیوں میں کرائے پر بٹھا کر لے جاتے ہیں جو واپسی پر اپنی مچھلی یہاں مچھلی کے بیوپاریوں کو بغیر کسی ٹیکس یا ریکارڈ کے دیتے ہیں ۔یہ ہزاروں ٹن مچھلی ہوتی ہے جو کراچی فشریز جاکر نیلام ہوتی ہے،اس جگہ کوئی نہ تو سرکاری بندہ ہوتا ہے نہ کوئی سہولت۔
گڈانی کراچی سے ایک گھنٹے کے فاصلے پر شپ بریکنگ انڈسٹری کے طور پر پہچانا جانیوالا ایک قصبہ ہے ،اسے شہر نہیں کہا جا سکتا ،ایک اچھا پکنک پوائنٹ ہے۔چھٹی کے دن ہزاروں سیاح اس کی سیر کو آتے ہیں، اس کی آبادی جہازوں کے آنے کے ساتھ بڑھتی جاتی ہے ،کبھی یہ بہت بڑی انڈسٹری تھی ، پاکستان کی لوہے کی انڈسٹری کو خام مال دینے والی اور لاکھوںافراد کو روزگار دینے والی۔اب وہ بات نہیں رہی۔ اب تو اس کی خبریں صرف جہازوں پر حادثات ہونے کی بناء پر ہی آتی ہیں۔ جہازوں کو توڑنے کے دوران جان لیوا حادثات ہوتے ہیں لیکن کوئی انتظامات نظر نہیں آتے۔یہاں ایک چھوٹی سی فشریز بنی ہے ، ماہی گیروں کے لحاظ سے بھی یہ کوئی خاص نہیں۔ یہاں بھی مچھلی باقی دو بندر گاہوں کی طرح جمع ہوکر کراچی فشریز میں آجاتی ہے۔گڈانی سے چند میل آگے ایک الانا گوٹھ یا چھپرا نامی ماہی گیری کی گوٹھ ہے۔یہاں کسی قسم کی کوئی سہولت موجود نہیں۔یہاں کے ماہی گیر مچھلی پکڑ کر کراچی فشریز لے جاتے ہیں اور راستے میں لے جانے کا بھتہ بھی دیتے ہیں۔ ماہی گیروں کے لئے ایک پختہ سائبان بنایا گیا تھا ، جس کی لائیٹیں فوٹو سیشن کے لئے لگائی گئی تھیں،وہاں بجلی ہے ہی نہیں،اب ایک فلوٹنگ جیٹی بنائی جا رہی ہے۔
(گڈانی اور پسنی کے درمیان) ڈامب، کنڈ ملیر، سپٹ، ہنگول ، رس میلان ہوڑ ماڑہ طاق بندر اور کلاتو بندر ماہی گیروں کی بستیاں ہیں۔ ڈام کراچی سے سو کلومیٹر پرواقع ہے۔ یہ میانی ہور کی خلیج یا کھاڑی پر واقع ہے۔ یہاں بہترین قسم کا جھینگا پایا جاتا ہے،جیلی فش کا شکار بھی یہاں ہوتا ہے ۔مچھلی یہاں سے ناپید ہو گئی۔پہلے یہاں بڑی اور قیمتی مچھلیوں کے پہاڑیوں جیسے ڈھیر دیکھنے میں آتے تھے۔ اب باریک جالوں سے انتہائی چھوٹی مچھلی کا شکار برائے پولٹری فیڈ ہوتا ہے، اسے گند کہا جاتا ہے۔اس گند کے کارخانوں نے وندر کے کئی میل کے علاقے کو گندا کر دیا ہے۔ بند گاڑی میں بھی ان کی بو سے ناک سڑ جاتی ہے۔ جال کے سائز کے قوانین کی کھلے عام قانون شکنی دیکھنی ہو تو یہاں دیکھیںگی۔میانی ہور ان جالوں سے تباہ ہو گئی ہے۔یہاں کی ماہی گیروں کی بستی بھڑوجس میں کبھی سات سو گھر تھے ا، اب مشکل سے ستّر گھر باقی ہیں، باقی سب ہجرت کر گئے ہیں۔پوری بستی ویران ہے۔کبھی یہاں بغیر کشتی کے کنارے سے ایک رات میں اتنا جھینگا اور مچھلی مل جاتی تھی کہ دھیاڑی بن جاتی تھی ۔آج حقیقت میں مچھلی کھانے کو ترستے ہیں۔سمندری کٹا ؤ یہاں کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ہر سال دس سے بیس فٹ کا علاقہ اس کی زد میں آجاتا ہے۔ آہستہ آہستہ بازار اور بستی ساحل سے دور ہوتی جا رہی ہے۔مون سون سیزن میں بھڑو کی بستی میں پانی چڑھ آتا ہے ۔تصویر میں کوسٹ گارڈ کی پکی عمارت سمندر برد نظر آرہی ہے۔
کنڈ ملیر میں بھی نہ کوئی جیٹی نہ کوئی سہولت۔ اگر برف کی گاڑی ایک دن نہ آئے تو سارا شکار ضائع ہوجاتا ہے۔ بڑی کشتیاں دور کھڑی ہوتی ہیں اور چھوٹی کشتیوں سے شکار کنارے پر لایا جاتا ہےاور ان ہی سے راشن چڑھایا جاتا ہے،جس سے لاگت بڑھ جاتی ہے۔ سارا مال اونے پونے کراچی جاتا ہے۔ہنگول،رس میلان کا بھی یہی حال ہے۔ماہی گیر اپنی مدد آپ اور کسمپرسی کے حالات میں بس جینے کے جتن کر رہے ہیں۔بلوچ ماہی گیر بڑا صبر والا مستقل مزاج ،محنتی اور طوفانوں کا پالاہوتا ہے۔سمندر کاسینہ چیر کر روزی کمانا، موسم کی سختیاں جھیلنا،طوفانوں کا مقابلہ کرنا اور پھر بغیر قصور کے دوسرے ملکوں کی جیلوں میں قید ہوجانا ۔اس کو قسمت کا لکھا سمجھ کر جھیلتا ہے۔ماہی گیروں کوشکایات ہیں کہ دونوں طرف کی ایجنسیاں ایک دوسرے کے ماہی گیر مقابلے میں پکڑتے رہتے ہیں ۔ماہی گیروں سے زیادہ سمندری حدود کو ایجنسیاں نہیں سمجھ سکتیں۔ماہی گیر سمندری حدود کی خلا ف ورزی نہیں کرتے۔
پسنی کراچی سے پانچ سو کلو میٹر دور ماہی گیری کی ایک چھوٹی سے بستی تھی۔میر احمد یار کے زمانے1932 میں ان کی کاوشوں سے یہاں سے ساحلی درآمد و برآمد تجارت کا آغاز ہوا۔جاپان سے کپڑا،کیوبا سے چینی،اٹلی سےکمبل شالیں وغیرہ آنے لگیں۔یہاں سے پیچ کی چٹائیاں اور خشک مچھلی کولمبو اور ہندوستان جانے لگیں، وہاں سے گرم مسالے اور موتی یہاں آنے لگے ،دیکھتے ہی دیکھتے یہ چھوٹی سے ماہی گیری کی بستی ایک شہر بن گیا۔1989 میں جرمنی کی ایک فرم نے اس کو ایک جدید ماہی گیری کی بندرگاہ بنا کر پسنی فشریز ہاربر اتھارٹی کے سپرد کیا تھا اور یہاں زبردست ماہی گیری کی سرگرمیاں شروع ہو گئی تھیں۔آئس فیکٹریاں اور فش فیکٹریاں قائم ہوئیں۔پسنی مکران کا دبئی بن گیا ۔2006 میں یہ سرگرمیاں ماند پر گئیں جب اتھارٹی کی جانب سے ڈریجنگ نہ کرنے سے یہ فش ہاربر برباد ہو گئی۔کچھ کام ہوا لیکن نامکمل۔وہ بات اب تک پیدا نہ ہو سکی۔کشتیاں کھڑی کرنے کی جگہ پسنی ہور بھی محفوظ نہیں ۔یہاں کشتیاں کھڑی کرنے پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں ،جس سے لاکھوں کا نقصان ہو جاتا ہے۔مون سون میں ہاربر میں مٹی بھر جانے کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوتا ہے۔ کراچی سے ڈریجنگ مشین آتی ہے اور نامکمل کام کر کے چلی جاتی ہے۔ اس کے لئے ہاربر کا اپنا ایک ڈریجنگ یونٹ ہونا چاہئیے جو مستقل یہ کام کرتا رہے۔مطالبات کے لئے دھرنے جاری ہیں اور ماہی گیر فاقہ زدگی کا شکار ہیں۔
ہوڑ ماڑہ اور پسنی کے درمیان طاق بندر اور کلاتو بندر واقع ہیں۔ان سے آگے کلمت کا علاقہ ہے جس میں دو تین ماہی گیروں کی بستیاں ہیں۔ یہاں کے باشندے بھی بس سمندر کے کنارے رہتے ہیں، وہیں اپنی کشتیاں کھڑی کرتے ہیں اور شکار کو ہوڑ ماڑہ کی لوکل مارکیٹ میں بیچ دیتے ہیں۔کوئی سہولت انہیں حاصل نہیں۔پسنی سے گوادر تک شمل بندر،کپر،چھور ،شنزر، اور دیگر چھوٹی چھوٹی بستیوں کے ماہی گیر اپنے پیشے میں زندگی گھسیٹ رہے ہیں۔شمل بندر کے علاقے میں بہترین قسم کا شرمپ پایا جاتا ہے جو دنیا بھر میں ایکسپورٹ کیا جاتا ہے ۔
گوادر کا علاقہ ایک تاریخی پس منظر رکھتاہے۔مکران کے اس علاقے کو وادیءدشت بھی کہا جاتا ہے۔جب حضرت دا ؤد علیہ اسلام کے زمانے میں قحط پڑا تو وادیء سینا سے لوگ نقل مکانی کر کے اس علاقے میں آگئے۔ ۔سکندراعظم اس علاقے سے واپس ہوا تو اس کی ستر فیصد فوج اس گرم علاقے کے گرم موسم سے ہلاک ہو گئی۔اس کے ایک ایڈمرل نے اپنی یادداشتوں میں گوادر،چاہ بہار،قلمات اور پشوکان کے نام سے لکھا ہے۔ ہزارں سال یہ علاقہ ایران کے بادشاہوں کے زیر نگیں رہا ۔سائرس اعظم کی سلطنت کی حکمرانی یہاں سے سکندر اعظم نے ختم کی اس کے بعد چندر گپت،اس کے بعد محمد بن قاسم،اس کے بعد مغل پھر پرتگیز جنہوں نے اس کے دو شہر وں پسنی اور گوادر کو جلا کر راکھ کر دیا۔کبھی بلیدی ،کبھی اورگچ کی کبھی رند حکمران بنے۔خان قلات اور میر نصیر خان نے اس پر چڑھائی اور حکومت کی۔مسقط کے حکمرانوں نے اسے ادھار لیا۔آخر کار حکومت پاکستان نے اسے 1958 میں اومان سے دس ملین ڈالر میں خرید کر پاکستان میں شامل کر دیا۔زمانہ قدیم سے یہ دنیا کے سب سے مصروف بحری راستے پر واقع ہونے کی وجہ سے ایک مشہور اور مصروف بندرگاہ ہے۔عرب علاقوں اور وسط ایشیا کے درمیان ہاتھی دانت،گرم مسالے،اونی لباس،افریقی غلام،پیچ کی چٹائیوں ،کھجور خشک مچھلی اور دیگر اشیاء کی تجارت ہوتی تھی۔ اس کی آبادی ایک لاکھ سے بھی کم ہے۔موجودہ گوادر ایک دم ترقی کی شاہراہ پر رواں دواں ہو گیاہے۔ سی پیک معاہدے کے تحت چین نے اس کی پورٹ کا انتظام سنبھال لیا ہے اور ایک جدیدبندر گاہ یہاں تعمیر کر رہا ہے۔ ایک فیز جس میں تین برتھ اور ایک ریم شامل ہے ،تیار ہو چکا ہے ۔فکس کرینیں،موبائل کرینیں اور دیگر باربرداری کا سامان جو بندر گاہ چلانے کے لئے درکار ہوتا ہے وہ لگ چکا ہے۔ اب یہاں ڈھائی لاکھ ٹن وزنی جہاز لنگر انداز ہو سکیں گے۔گوادر کو چین ایران اور افغانستا ن تک زمینی راستوں سے ملایا جائے گا۔اب یہ ایک بین الاقوامی شہر بن جائے گا۔ ٹیکس فری زون کی وجہ سے اس میں سرما یہ کاری کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ ابھی سے پراپرٹی کی قیمتیں کئی گنا بڑھ گئی ہیں،ہو سکتا ہے بے زمین ماہی گیروں کی بھی قسمت پلٹ جائے۔
گوادر سے آگے جیوانی کا علاقہ آتا ہے اور پھر ایران کے بارڈر تک مچھیروں کی بستیاں ہیں۔پشکان ایک اہم ماہی بندر ہے جہاں ارد گرد کی ماہی گیربستیوں سے مچھلی لا کر فروخت کی جاتی ہے ۔ آخری برف خانہ جیوانی میں ہے۔جیوانی میں کوئی جیٹی یا ماہی بندر نہیں ۔ماہی گیر کنارے پر کشتیاں لا کر اپنا شکار اتارتے ہیں۔جیوانی ایک خوبصورت شہر ہے۔یہاں کے ریسٹ ہا ؤس کے نزدیک ایک چھوٹا سامیرین میوزیم ہے جس میں دو عظیم الحثہ مچھلیوں کی ہڈیوں کے ڈھانچے رکھے ہیں۔ان میں سے ایک کا سائز چالیس فٹ ہوگا۔سیاحوں کے لئے یہ ایک دلچسپ اور حیران کن شے ہے۔گنز کا ساحل مکران کا خوبصورت ترین ساحل ہے۔اونچے نیچے پہاڑی راستوں سے نکل کر جب اچانک اس ساحل پر پہنچتے ہیں تو اس کی خوبصورتی دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتےہیں۔صاف ستھرا ساحل جس کے کنارے تمام کشتیاں جدید خوبصورت موٹر بوٹس ہیں، اس کو دیکھ کر کسی مغربی ملک کے ساحل کا گمان ہوتا ہے۔یہاں کے ماہی گیر سُواء مچھلی کے شکاری ہیں ،جو پاکستان کی سب سے مہنگی مچھلی ہے۔دس کلو کا ایک دانہ پانچ لاکھ تک کا ہو سکتا ہے۔
ساحل مکران بلوچستان،کے ماہی گیروں کے مسائل ہی مسائل ہیں۔بلوچستان کوسٹل ہائی وے نے بڑے شہروں کو تو کراچی سے ملا دیا ہے لیکن چھوٹے چھوٹے قصبے اور بستیاں ابھی پکی سڑک سے محروم ہیں۔ پینےکا پانی دستیاب نہیں ۔خواتین میلوں دور سے کنووں کا مضر صحت پانی سر پر رکھ کر لاتی ہیں ۔گوادر جیسے شہر میں پانی کا ٹینکر15000روپے کا ملتا ہے تو نواحی علاقوں میں کیا حال ہوگا۔ ریت کے طوفان عام ہیں لیکن ان کے بعد نہانے کا پانی نہیں ہوتا۔ تعلیم اور صحت کی ضروریات کا حال نامناسب ہے۔کسی بھی ایمرجنسی میں کراچی آنے تک چھ سات گھنٹے تو صرف پکی سڑک پر سفر کے لگ جاتے ہیں۔سواری دستیاب ہی نہیں ہوتی۔ذیلی سڑکیں نہ ہونے پر شکار خراب ہوتا ہے اور پھر اچھے دام نہیں ملتے۔ مریض کچے راستوں میں بے انتہا تکلیف اٹھاتے ہیں۔ کتنی ہی بستیاں ہیں جن میں آنے جانے کے لئے سمندر کے اترنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔سمندر اسکول کا وقت دیکھ کر تو نہیں اترتا۔سخت سردی میں صبح صبح اسکولوں کے ننھےطلباء طالبات کمرکمر پانی سے گزر کر سردی میں بھیگتے ٹھٹھرتے ہوئے اسکول جاتے ہیں،جنہیں دیکھ کر ترس آتا ہے۔ابھی ایک ماہ سے موبائل فون کی سہولت کافی علاقوں میں دستیاب ہو گئی ہے، ورنہ تو حادثے کی صورت میں امداد میں کافی تاخیر ہوجاتی تھی۔پورے ساحل بلوچستان مکران میں سرکاری توجہ کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر تو ناپید ہیں ڈسپنسریوں میں اگر سینئر کمپا ؤنڈروں کو ہی لگا دیا جائے توالٹی دست بخار میں ایمرجنسی کی دوا تو دے دیں گے۔ یہ تمام علاقے قدرتی حسن اور انسانی ماحولیاتی چیرہ دستیوں سے محفوظ ہونے کی بنا ء پر سیاحوں کے لئے انتہائی پرکشش ہیں۔ ساحلی علاقوں کے لوگ انتہائی مہمان نواز اور ملنسار ہیں۔