غلام سرور انجم
’’خوش گوار ازدواجی زندگی کے لیے اپنی بات منوانے اور دوسروں کی بات سننے کا حوصلہ ہونا چاہیے‘‘
خواتین کی زندگی میں مشکلات و مصائب کا احاطہ کیا جائے توعموماً ’’ازدواجی زندگی‘‘ سے متعلق مسائل کی تعداد زیادہ ہی ہوتی ہے۔ اس حوالے سے دکھوں، ناکامیوں اور محرومیوں میں گھرے افراد معاشرے کا اہم کردار ہوتے ہیں۔ خانگی مسائل کی بات کی جائے تو عورت کے لیے سسرال اور میکے کے حوالے سے پیش آنے والے مسائل تضادات پر مبنی ہوتے ہیں، ان حالات کا شکار اکثر خواتین گوشہ امان کے یقین میں بے یقینی کا شکار ہو جاتی ہیں اور اگر خواب ٹوٹ جائے تو پیمانہ چھلک ہی جاتا ہے۔
خواتین سے امیدیں رکھنے والوں کو بھی احساس نہیں ہوتا کہ شیشے کی طرح نازک اس صنف کو محض احکامات صادر کرنا ہی خانگی زندگی کا اصول نہیںہے، تاہم بعض خواتین اس قدر سادہ ہوتی ہیں کہ سوانگ اور بہروپ کے جھانسے میں آ جاتی ہیں جبکہ بعض اس قدر طرار اور ہوش مند ہوتی ہیں کہ کسی کو بھی انگلیوں پر نچا دیتی ہیں۔ گھریلو ماحول کے حوالے سے زیادہ تر میاں، بیوی پر منحصر ہے کہ وہ کس ہوش مندی اور حوصلے سے ازدواجی زندگی گزارتے ہیں۔ دوراندیشی، نکتہ پردازی، مقدّس و محترم رشتے کی حلاوت ہو یا غم ناکی یا صرف مداوا کی کوشش، خسروانہ سلوک یا محض مراسم کی مروّت، خوابوں خیالوں کا جال یا یقین و گداز یہ سب میاں، بیوی پر ہی منحصر ہے۔ حسن خلق، زندہ دلی اور دریا دلی ہو تو جوڑے کی ازدواجی زندگی جنّت نظیر ہو جاتی ہے، تاہم عام حالات میں نہ سہی دقّت طلب اور صبرآزما لمحات میں حوصلے کی کرشمہ سازی ہی نظر آتی ہے۔
ازدواجی جھگڑوں کے دوران خواتین میں ہیجان اور ہذیان کی کیفیت زیادہ دیکھنے میں آتی ہے۔ سننے والے دیگر افراد کی شمولیت اور مستعدی بھی کہنے والوں کا حوصلہ ہوا کرتے ہیں۔ زمانے کے نشیب و فراز سے ناواقف، زندگی کی نیرنگیوں سے ناآشنا خواتین ازدواجی سکھ سے محروم ہو جاتی ہیں۔ بعض اوقات دیکھنے اور سننے کی صلاحیت ہونے کے باوجود نہ سنائی اور نہ دکھائی دیتا ہے۔کہیں صرف محکومی اور کہیں خوشنودی کا احساس ہوتا ہے۔
بیٹیوں کی اضطراب آمیز یاسیت اور بے تاثّر آنکھیں والدین کے دل دہلا دیتی ہیں۔ زندگی کا بڑا حصّہ وضع داری میں صرف ہو جاتا ہے،تاہم اپنی بات منوانے اور دوسروں کی بات سننے کا حوصلہ ہونا چاہئے، محض راضی بہ رضا اور مجہول زندگی مشکل ہوجاتی ہے۔صاحب نظر اور جوہر شناس کو بھی سمجھنے میں دیر تو لگتی ہے اور ضروری نہیں کہ ہر شخص دوسرے کے ارادے اور جستجو سے متفق ہو۔ ہر شخص صحرا نوردی کا متحمّل نہیں ہو سکتا اور نہ اعلیٰ درجے کی رفاقت کا متحمّل ہوتا ہے۔ جوئے شیر نہ سہی بس ہونا تو یہی چاہئے کہ پانی ہر دم رواں شفاف اور شہدآگیں ہو۔ ایسا گلستاں جہاں ہر موسم میں پھول کھلے ہوں، ایسا شجر جس کا سایہ کبھی ختم نہ ہو، سرتاپا پھول، خوشبو۔لطف و التفات کے لیے الفاظ کم پڑ جائیں، تاہم ایک رعایت ضرور دینا چاہیے ۔ کبھی اپنی سماعت اور نگاہ کے غبار میں دوسرے کے مطالب اور مفہوم سمجھنے میں چوک ہو جاتی ہے۔ عقلمندی سے کام لیا جائے تو ’’ازدواجی زندگی‘‘ سنور سکتی ہے۔ یہ بھی ہے کہ تعین کوئی طلب گار ہی کرتا ہے۔ کوئی کتنا عقلمند ہو، کتنا پری پیکر، گل اندام ہو، سانچے میں ڈھلا ہو، قیمت تو مطلوب کی ہوتی ہے اور مطلوب کے لیے ملکوتی صفات لازم نہیں، اس کی قیمت نہ ظاہری اوصاف میں یکتائی سے مشروط ہے نہ باطنی حسن کی فضیلت سے، یہ تو سینے میں جاگزیں اور آنکھوں میں نقش ہو جانے کا معاملہ ہے۔ ہر شخص کا اپنا ایک پیمانہ ہے، جو بھی اس پیمانے پر اتر جائے،بہتر ہے۔ دو آدمیوں کے درمیان یک نفسی و یکجائی کی رمز کوئی تیسرا کیسے جان سکتاہے۔ ازدواجی زندگی صرف محبوبیت نہیں ہوتی لیکن اسے محبوبیت کے رنگ میں رنگا جا سکتا ہے۔