• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ماحولیاتی تپش

ماحولیاتی تپش موجود ہ دور میں دنیا بھر کا سنگین مسئلہ ہے ۔صورت حال یہی رہی تو موسم کی شدت پہلے کے مقابلے میں دوگنا ہو جائے گی اور دنیا کے مختلف حصوں میں شدید خشک سالی اور تیز ابی بارشوں کا سلسلہ شروع ہوجائے گا ۔ایک رپورٹ کے مطا بق بحر الکاہل میں پیدا ہونے والاموسمی مظہر لا نیناماحولیاتی تپش کی وجہ سے بڑھ کر 23 برسوں میں ایک بار کی بجائے 13 بر سوں میں ایک بار ہوجائے گا ،جس کے سبب موسم میں شدت پید اہو جائے گی اور ہر سال دوسرے سال سے زیادہ خطرنا ک اور مختلف ہو گا ۔ماحولیاتی ماہرین کے مطابق اس کے باعث تباہ کن موسمی حالات پیدا ہوں گے ،جن کے سماجی اور معاشی دونوں اثرات بہت زیادہ ہوں گے ۔ ماہرین ماحولیات کے مطابق’’ ال نینو‘‘ اور’’ لانینا‘‘ پیچیدہ موسمی پیٹرن ہیں جو بحر الکاہل میں در جۂ حرارت کے فرق کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اور ان کے مضر اثرات دنیا بھر میں مرتب ہوتے ہیں ۔ اب ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ ال نینا اور لا نینا ماحولیاتی تپش سے منسلک ہیں ۔ ماحولیاتی تپش کو کم کرنے کے لیے افریقی ملک روانڈا (Rwanda)میںامریکا ،چین ،پاکستان ،ایران ،بھارت اورعراق سمیت تقریبا ًڈیڑھ سوممالک کے درمیان ایک معاہدہ ہواتھا ،یہ مسئلہ گزشتہ کئی عشروں سے عالمی موضوع بن چکا ہے ، کئی ممالک پریشانی میں مبتلا ہیں ۔ماہرین ماحولیات کو اُمید ہے کہ روانڈا میں ہونے والےمعاہدہ کے اثرات خوش آئندہوں گے ۔ پچھلے کئی سالوں سے دنیا کے اوسط درجۂ حرارت میں0.8 فی صد اضافہ ہورہا ہے ،جب کہ گزشتہ تین عشروں میں 0.6 فی صد اضافہ ہوا ہے ۔دنیا بھر میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بڑھتی ہوئی مقدار کے سبب عالمی در جۂ حرارت بہت تیزی سے بڑھا ہے ،فضا میں مختلف گیسیں بھی موجود ہیں ،جن کے بڑھنے کے باعث سورج کی کرنیںزمین سے ٹکرانے کے بعد خلا ء میں نہیں جاسکتیں ہیں ،جس کے باعث فضا اور زمین دونوں کا درجۂ حرارت بڑھ جاتا ہے ۔اس کے بڑھنے سے قطبی برف کی تہہ اور پہاڑوں پر گلیشیئرز پگھل رہے اورسمندر کی سطح 3 ملی میٹر سالانہ کے حساب سے اونچی ہورہی ہیں ۔

گر ین ہائوس کی وجہ سے زمین سورج سے حاصل شدہ توانائی کو مقید کر لیتی ہے ۔سورج کی حرارت روشنی کی شکل میں زمین کی سطح سے ٹکرانے کے بعد منعکس ہو کر واپس خلا میں بکھر جاتی ہے ،تا ہم کرۂ ہوائی میں موجود گیسیں اس حرارت کے کچھ حصے کو جذب کر لیتی ہیں ،جس سے کرۂ ہوائی کا نچلا حصہ اور زمین کی سطح دونوں گرم ہو جاتے ہیں ۔اگر یہ عمل نہ ہوتا تو اس وقت زمین 30 درجہ زیادہ ٹھنڈی ہوتی اور اس پر زندگی گزارنا بہت مشکل ہو جاتا ۔قطبی برف پگھلنے سے بر فانی ریچھ کی بقا کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے ۔ماہر ین ماحولیات کے مطابق انسان کار خانوں اور زراعت کے ذریعے گرین ہائوس گیسیں فضا میں داخل کر کے قدرتی گر ین ہائوس اثر کو بڑ ھا وا دے رہا ہے ،جس سے در جہ حرارت مسلسل بڑ ھ رہا ہے ۔سب سے اہم گر ین ہائوس پانی کے بخارات ہیں لیکن یہ فضا میں چند دن ہی باقی رہتے ہیں ۔اس کے مقابلے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ طویل عر صےتک بر قرار رہتی ہے ۔انسان قدرتی ایند ھن جلا کر اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے والے جنگلات کاٹ کر فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں اضافہ کر رہا ہے۔علاوہ ازیں نائٹرس آکسائیڈ اور میتھین بھی خارج کررہا ہے ،1750 میں آنے والے صنعتی انقلاب کے بعد فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں30 فی صد ،جب کہ میتھین کی مقدار میں 140 فی صد اضافہ ہوا ہے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ فضا میں اس وقت جتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ ہے ،پچھلے آٹھ سالوں میں کبھی نہیں تھی ۔ اگر صورت ِحال یہی رہی تو2050 ء تک پوری دنیا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اضافہ دو گنا ہوجائے گا ۔2013 ء میں، عالمی چینل ماحولیاتی تبدیلی نے تخمینہ پیش کیا تھاکہ اس صدی کے اختتام تک دنیا کےدرجۂ حرارت میں1.5 ڈگری تک اضافہ ممکن ہے ۔روانڈا معاہدے کے مطابق امریکا اور یورپی صنعتی ممالک کا کہنا ہے کہ، 2019 ء تک دس فی صداور 2036 تک پچاسی فی صد گرین ہائوس گیسز کے اخراج میں کمی ہوجائے گی ۔یہ بات خوش آئند ہے کہ، ماحولیاتی تپش کو کم کرنے کے لیے کئی ممالک کوشش کر رہے ہیں ۔ایک اندازے کے مطابق گزشتہ بیس سالوں میں یورپ میں لو لگنے سے ایک لاکھ اڑتیس ہزار لوگ زندگی کی بازی ہار گئےتھے ۔اگر تپش کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا توموسموں میں نمایاں تبدیلی آجائے گی ،جس کے نتائج انتہائی بھیانک ہوں گے۔ساحل کے قریب شہر صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے ،طوفان اور سونامی آنے کے خدشات بھی بڑھ جائیں گے ۔فصلوں ،درختوں اور پودوں پر بھی برے اثرات پڑیں گے ۔علاوہ ازیں اس کے باعث سمندروں کی بلند ہوتی سطح زمین کو نگل رہی ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق مالدیپ کے جزائر تیس سے چالیس سال میں سمندر میں غرق آب ہوجائیں گے ۔چین کا شہر شنگھائی بھی آہستہ آہستہ زمین میں دھنس رہا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش کا رقبہ بھی سکڑتا جارہا ہے ،کیوں کہ خلیج بنگال کی موجیں زمین کو نگل رہی ہیں ۔ ماہرین کوخدشہ ہے کہ دن بہ دن بڑھتی ہوئی تپش بڑے پیمانے پر انسانی ہجرت کا سبب بنے گی ۔اوزون کی تہہ تباہ ہو جائے گی ،جس سے جلدی امراض اور کینسر جیسے موذی مر ض سامنے آئیں گے۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی تپش کے اثرات انتہائی شدید اور ناقابل ِتلا فی ہوں گے اور اس کے دنیا پر پڑنے والے اثرات کے وافر شواہد بھی موجود ہیں ۔ یہ اثرات فطری نظام پر بری طرح اثر انداز ہورہے ہیں،جس سے انسانی جانوں کو خطر ہ لاحق ہے ۔ماحولیاتی شعبے کا کہنا ہے کہ اس بڑھتے ہوئے در جۂ حرارت سے انسانی صحت ،رہائش ،کھانے پینے اور حفاظتی انتظامات سب کو خطرہ در پیش ہے ۔ رپورٹ کے مطابق رواں دہائی میں گلیشیئرز کے پگھلنے اور برفانی علاقوں کے درجۂ حرارت میں اضافے سمیت ماحولیاتی تپش کے اثرات تمام بر اعظموں اور سمندروں میں دیکھے گئے ہیں ۔ گرمی کی شدت میں اضافےسے سمندر مزید تیزابی ہو جائے گا ،جس کے باعث جانداروں کو نقصان پہنچے گا ۔ تپش کے بڑھنے کے نتیجے میں انسان اور جانور دونوں اونچائی اور قطبی علاقوں کی جانب بڑھنا شروع ہو جائیں گے ۔اس کی وجہ سے فوڈ سیکورٹی کو بھی خطرہ لا حق ہے ،ایسی صورت میں2050 ء تک مکئی،چاول اور گندم کی پیداوار بھی متاثر ہوگی ۔اندازے کے مطابق اُس وقت دنیا کی آبادی تقریباً نو ارب ہو جائے گی اور ان کے لیے خوراک کی فراہمی مشکل ہو جائے گی ۔علاوہ ازیں مچھلیوںکی بہت سی اقسام گر م پانی کے سبب ناپید ہوجائیں گی،جو بہت سے لوگوں کے لیے خوراک کا اہم ذریعہ ہیں، بعض علاقوں میں مچھلیوں کی تعداد میں 50 فی صد تک کمی آجائے گی ۔آئی پی سی سی کے مصنف اور یونیو رسٹی آف ایکسیٹر کے پرو فیسر، نیل ایڈ جر کے مطابق یہ اندازہ بہت سنگین ہے ،مستقبل میں اس میں مزید تشویش ناک اضا فہ ہوجائے گا ۔انسانوں ،فصلوں ،پانی کی سطح ،روز مرہ کی زندگی او ر خوراک غر ض یہ کہ ہر چیز اس کے زیر ِاثر ہو گی ۔لوگ گرمی اور سیلاب سے بر ی طر ح متا ثر ہوں گے ۔کسانوں اور تعمیراتی کاموں میں شامل مزدور طبقے کو نئے اور ممکنہ خطرات لاحق ہو سکتے ہیں ۔موسم کی تبدیلی کے سبب نقل مکانی اورجنگ جیسے مسائل میں بھی اضافہ ہو جائےگا ۔اس سے غریب ممالک کے متاثر ہونے کے امکان زیا دہ ہیں لیکن امیر ممالک بھی اس کے مضر اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے ۔ ماحولیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کے لیے سائنس دانوں نے سورج کی روشنی کو مدھم کرنے کے لیے ایک منصوبہ بنا یا ہے ۔ماہرین کو اُمید ہے کہ یہ تخلیق کر دہ کیمیائی چھتری دنیا کے خطر ناک حدتک بڑھتے ہوئے در جۂ حرارت میں کمی لانے کے لیے کار گر ثابت ہوگی ۔اس منصوبے کو ’’سولر جیو انجینئرنگ ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔

اس سنگین مسئلے کو جلد ازجلد حل کرنے کے لیے ماحولیاتی ماہرین کو ٹھوس اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔کاربن ڈائی آکسائیڈ کا خاتمہ کرنے کے لیے موثر حل نکالا جائے،

کوئلہ سے چلنے والے صنعتوں پر پابندی عائد کردی جائے ،کارخانوںسے نکلنے والےدھوئیں کو کم کرنے کے لیے جدید آلات نصب کیے جائیں ۔ اسلحہ بنانے والی فیکٹریاں بند کردی جائیں ۔درختوں کی کٹائی اور دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں پر مکمل پابندی عائد کردی جائے ۔

تازہ ترین