• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سرمایہ درانہ نظام کو زمین بوس ہونے کا خوف

کیا ہوائی جہازوں کے ذریعے فضا سے غریب بستیوں پر نوٹ گرانے سے ترقی ہوسکتی ہے؟یہ سوال سابق وزیراعظم سنگاپور کی بیٹی نے پارلیمنٹ میں اٹھایاتھا۔اسی سوال کو بڑھایا جائے اور پوچھا جائے کہ 250 ارب روپے کی اورنج ٹرین جو صرف 26 کلومیٹرتک سفر کرسکتی ہے اس سے غریب آدمی کوکوئی فائدہ ہوگا؟ اتنے پیسے میں تو پنجاب میں سرکاری اسکول نجی اسکولوں سے آگے نکل جاتے اگر درست طریقے سے اس قرضے کی رقم کو خرچ کیاجاتا۔قرض ایسے پروجیکٹس پرلگایا جاتاہے جہاں سے بعدازاں آمدنی ہو اور پروجیکٹ کی مینٹینس بھی ہو یہ اورنج ٹرین 26 کلومیٹر سیر کروانے والی 14 ارب روپے زرتلافی کی وجہ سے سالانہ خسارے پر چلے گی تو قرض کون ادا کرے گا؟

لیکن عالمی سطح پر نگاہ ڈالی جائے تو دنیا کے معاشی ماہرین سرمایہ دارانہ نظام کو زمین بوس ہونے کے وہم میں مبتلا ہوگئےہیں، حالانکہ یہ سوفیصد وہم نہیں ایک حقیقت ہے جس کا ذکر آئی ایم ایف نے اپنی رپورٹ میں کیا۔مختصراً یہ بتانا ضروری ہے کہ اس وقت ساری دنیا خاص طور پر مالدار ترین ممالک 164 ٹریلین ڈالر کے قرض میں پھنس چکے ہیں۔ ایک سوال یہ بھی ابھرتاہے اگر ساری دنیا قرض دار ہوگئی ہے تو قرض کون دیتاہے؟ آسان جواب یہ ہے کہ ملٹی نیشنلز کے شراکت دار تمام بینک جن میں عالمی مالیاتی ادارے بھی شامل ہیں۔آئی ایم ایف کو بظاہر تشویش لاحق ہے کہ تمام دنیا کے قرضے ان کے جی ڈی پی سے 225 فیصد بڑھ گئے ہیں۔دراصل ہم ایک گہری تاریخی تبدیلی کا تقاضا کرتے معروضی دور میں رہ رہے ہیں جہاں موضوعی اعتبار سے کوئی باشعور تحریک نہ ہونے کی وجہ سے معاشی دلدل اور قرضوں کے انبار میں پھنستے جارہے ہیں۔چالیس سالہ بے مثال ترقی کے بعد منڈی کی معیشت اپنے انجام کو پہنچ رہی ہے ابتداء میں نیوکلیائی ہستیوں کی سرمایہ داری نے باوصف اپنے وحشیانہ جرائم کے جن میں عراق‘کویت‘ ایران‘ افغانستان‘ پاکستان‘ کشمیر‘ فلسطین اور یمن بھی شامل ہیں، اسلحہ سازی سے منافع کمانے کی خاطر اپنی پیداواری قوتوں کو فروغ دے کر معاشرے کے لیے ایک نئے استحصالی نظام کی بنیادیں فراہم کیں اور ان میں توسیع ریگون اور تھیچر نے کی کہ قرضوں کے ذریعے ضرورت سے زیادہ ترقی حاصل کرنے کے لئے آزاد تجارت کی بنیاد رکھی۔ذرا ماضی میں جھانک کر دیکھیں ،پہلی عالمی جنگ اور روسی انقلاب نے سرمایہ دارانہ نظام کے تاریخی رول کے بارے میں واضح اشارہ دے دیاتھا کہ پیداواری قوتوں کو فروغ دینے والے نظام کی بجائے یہ معاشی اور سماجی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن گیا۔1948 سے 1973ء تک کا دور مغرب میں ترقی کے دور کی نئی سحر کاآغاز دکھائی دیتا تھا،حالانکہ اس کے فوائد محض سائنس اور ٹیکنالوجی میں چند ترقی یافتہ ملکوں تک محدود تھے۔انسانی آبادی کا دوتہائی حصہ جو تیسری دنیا میں موجود تھا ساتھ ساتھ بڑے ملکوں میں بھی تیسری دنیا پیدا کی جارہی تھی تاکہ وہ مالداروں کی خدمت بجالائیں، مگر تیسری دنیا غربت بے روزگاری‘ بیماری کی بدترین استحصال کا شکار ہوگئی۔سرمایہ داری اور اجارہ داروں کا یہ پہلا لوٹنے کا دور تیل کے بحران کے ساتھ ختم ہوگیا۔دوسری عالمی جنگ کے دو عشروں بعد والے دور میں مغرب ترقی اور روزگار کے معیار کو دوبارہ نہ پاسکا۔نشریاتی غیرمساوی نظام نے معاشی انصاف کو سرکے بل کھڑا کردیا اور آج مغرب کے ماہرین بمعہ صدر ٹرمپ کے کہہ رہے ہیں کہ عالمی قرضوں نے ترقی یافتہ ملکوں کو سرکے بل کھڑا کردیا۔14 مئی 2018ء کو آئی ایم ایف نے ڈیٹابیس جاری کیاجس کے مطابق دنیابھر میں قرضوں کا انبار تمام تاریخی ریکارڈ توڑ کر 164 ٹریلین ڈالر تک پہنچ گیا جو دنیا کے 225 فیصد جی ڈی کے برابر ہے اس سے قبل عالمی مالیاتی انہدام کے بعد 2009 میں یہ تناسب جی ڈی پی کا 213 فیصد تھا۔یعنی نوٹ چھاپنے‘کرنسی کا جوا کھیلتے‘کسینوکاجوا‘ اسٹاک مارکیٹوں کی سٹہ بازی‘ قرضوں کی خرید وفروخت‘ یہ اوراس جیسے کئی دوسرے عوامل نے کرنسی چھاپنے پرلگادیا۔غیرپیداواری سروس انڈسٹری‘ انڈسٹریل دور سے آگے نکل گئی۔کرنسی چند مالدار ترین جواریوں اور سودخور بینکوں کی تجوریوں میں آگئی۔اور عالمی معاشرہ کام کرنے والوں کی پیداواری قوت کے کمزور ہونے سےمقابلہ کرنے کے قابل نہیں رہا اور اب مغربی ماہرین کو خدشہ ہے کہ فنانشل کیپٹس نرم نے فنانشل سپراسٹار پیداکرکے اس نظام کو زمین بوس ہونے کا عندیہ دے دیاہے۔آئی ایم ایف نے انتباہ کرتے ہوئے کہا آج عالمی معیشت عالمی مالیاتی انہدام سے پہلے والے دور سے بھی زیادہ قرض دار ہے۔بہت پہلے انتباہ کیاگیاتھا کہ ترقی یافتہ قومیں ایسے منصفانہ اقدام اٹھائیں کہ دوبارہ کھائی میں گرنے کا موقع نہ آئے۔آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق ترقی یافتہ ممالک زیادہ قرض دار ہیں۔جب چادر سے زیادہ پائوں پھیلائے جائیں گے تو قرض تو لینا پڑے گا، جبکہ تیسری دنیا کی پائوں کی چادر اور مال بن گئی جس سے قوت خرید ایک بڑی آبادی کی ختم ہوگئی۔جب خرچ کم ہوگیا تو زائد پیداوار کا مسئلہ بھی سامنے آگیا۔کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ 50 فیصد سے زائد قرضے امریکا‘جاپان اور چین نے لے رکھے ہیں جن کے زرمبادلہ کے ریزو بھی کافی ہیں لیکن پیداوار میں ان کا حصہ کم اور قرضوں کا حجم زیادہ ہے۔ابھرتی ہوئی مارکیٹوں میں نجی شعبے نے زیادہ قرض لے رکھے ہیں۔دوسری عالمی جنگ کے بعد سے عالمی قرضوں کاتناسب بڑھ رہاہے۔ایڈوانس معیشتیں اور ابھرتی ہوئی مارکیٹوں کاا گر مقابلہ جی 20 سے کیاجائے جس میں چین‘برازیل اور ہندوستان شامل ہیں تو ایڈوانس اور ابھرتی معیشتوں کا قرض جی ڈی پی کے 90 فیصد سے زیادہ ہے۔آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق 1950 کے بعد ان ملکوں کے نجی شعبے نے تین گنا زیادہ قرض لیاہے۔ابھرتی ہوئی مارکیٹوں نے عالمی معیشت میں ایک نیا رجحان پیدا کیا ہے(چین‘تائیوان‘ کوریا‘ہندوستان وغیرہ) ان کے ابھرنے سے 2016 میں عالمی قرضے 2016 میں جی ڈی پی کا 120 فیصد ہوگئے یعنی ملکوں کے جی ڈی پی سے 120فیصد زیادہ ہوگئے۔1970 میں شرح نمو کے بڑھنے سے قرض کم ہورہے تھے۔1980 کے عشرے کے بعد ریگن تھیچر کے فارمولے پر عمل کرنے سے قرضے بڑھنے لگے۔1980 میں پہلی مرتبہ ابھرتی مارکیٹوں کے قرضے جی ڈی پی کا 63 فیصد ہوگئے تھے۔گزشتہ ایک عشرے میں کنزیومرازم اور قیمتوں کے گرنے سے قرضے برق رفتاری سے بڑھنے لگے۔اس میں درآمدات اور برآمدات کی گردن توڑ مسابقت بھی شامل ہے۔کنزیومرازم نے تعرف کو بہت بڑھادیا۔پرسنل لونز‘کریڈٹ کارڈز اور لیزنگ نے قرضوں کی ریل پیل کردی۔ہاتھ تنگ ہونے یعنی قوت خرید کم آمدنی جامد رہنے کی وجہ سے دو نمبری بڑھنے لگی۔بے ایمانی میں تیزی آگئی۔شریفوں کا زندہ رہنا محال ہوگیا۔پہلی مرتبہ مشاہدے میں آیا کہ آئی ایم ایف کی رپورٹ نے اقتصادی سچائیوں کو برملا سامنے لایاہے۔آئی ایم ایف کا ڈیٹابیس رپورٹ 190 ملکوں کے سرکاری اور نجی شعبے کے قرضوں کی بابت ہے 1950ء کے بعد ساری دنیا میں جتنے حجم میں قرضے لئے گئے ان کے بارے میں ایک ہمہ گیر رپورٹ ہے۔ ساری دنیا کے بڑھتے ہوئے قرضوں کا پھیلائو اور معیشتوں کے سکڑائو کے بارے میں جو رابطہ پیدا کیا گیا ہے وہ بہت اچھا تجزیہ ہے لیکن اس کی وجوہات اس تجزیے میں نہیں بتائی گئیں۔یہ درست ہے کہ اگر قرضوں کے اس انبار کو کم نہ کیاگیاتو ایک اور شدید بحران لپک کر آسکتا ہے امیر ملکوں کے بارے میں آدمی کو سمجھ نہیں آسکتی کہ انہوں نے اتنے قرضے کیوں لئے ،اس کی وجہ ریگن تھیچر فارمولا اور کسینو معیشت ہے، جس میں جوا کھیلنے کے لئے کھلی اجازت ہے۔اسٹاک مارکیٹوں میں لیورج دیاجاتا ہے یعنی جارج سورس جیسا بڑا جواری ایک ملین ڈالر لگاتا ہے تواس دس ملین ڈالر لگائے بغیر جواکھیلنے کی اجازت ہوتی ہے اور وہ شاذ ونادرہی ہارتا ہے۔کسینو دنیا بھر میں بڑے جواریوں کی عیاشی کی پناہ گاہ ہے۔ اگر کسی ملک کا مالدار ترین سرمایہ دار ایک ارب ڈالر لانڈر کرکے دولت سفید کرنا چاہتا ہے تو 10 فیصد کٹوتی کرادے تو کسینو لکھ دے گا کہ یہ جوئے میں جیتا ہے اسی طرح بہت سے دوسرے طریقے ہیں جوغیرپیداواری ہیں جن سے خوب منافع کمایاجاتا ہے جس میں ہیروئن، کوکین دیگر نشہ آور منشیات اور اسلحہ کی فروخت ہے، اس کے لیے فالتو کرنسی چھاپی جاتی ہے اور یوں دنیا کی معیشتیں تباہ ہورہی ہیں ۔آبادی کے ساتھ غربت بڑھ رہی ہے اور جو انقلاب کا دعویٰ کرتے ہیں آج طبقاتی جدوجہد اور سرمایہ داری کے استحصالی صورتحال بتانے کے بجائے لسانی غیرسنجیدہ این جی اوز اور گروپوں کے ساتھ دن گزار رہے ہیں اور احتجاج کرتے نظرآتے ہیں۔غیرملکوں کے قرضے زیادہ ہیں لیکن ان کے ریزو بہت ہیں۔ وہ قرض ادا کرسکتے ہیں، جہاں تک غریب ملکوں کی حالت ہے جس میں پاکستان بھی شامل ہے ،یہ غیرپیداواری اخراجات اور توازن ادائیگیوں کے خسارے (درآمد زیادہ برآمدکم) کے لئے قرض لے رہے ہیں اوران کے ریزو ترسیلات زر سے بھی کم ہیں۔آج پاکستان کے قرضے 88.89 ارب ڈالر ہیں۔سود کی ادائیگی 1620 ارب روپے ہے اور توازن ادائیگیوں کا خسارہ 35 ارب ڈالر ہے سوچاجاسکتا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔

کارل مارکس نے کہاتھا کہ مقتدر طبقے کے خیالات ہی اس معاشرے میں بالادست خیالات ہوتے ہیں۔ اپنے عروج کے زمانے میں سرمایہ دار نے نہ صرف ترقی پسندانہ کردار ادا کیا بلکہ وہ تہذیب کو بڑھاوا دینے کے اپنے کردار سے بخوبی واقف آگاہ بھی تھا۔اب سرمایہ داری کے لئے حکمت عملیاں طے کرنے والے قنوطیت کا شکار ہیں ۔وہ ایک ایسے منافع‘ہوس ،سودی نظام اور جواری نظام کے نمائندہ ہیں کہ، تاریخ نے جس کی قسمت میں تباہی لکھ دی ہے، مگر وہ خود کو اس حقیقت کا سامنا کرنے کے لئے تیار نہیں پارہے۔ یہ وہ مرکزی تضاد ہے جو آج کی سرمایہ دارانہ سوچ میں ایک فیصلہ کن عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔لینن نے کہا تھا کہ ’’گہری کھائی کے کنارے کھڑا شخص مدلل گفتگو نہیں کیاکرتا‘‘۔ یاد رکھئیے،سرمایہ داری کا بحران محض معاشی نہیں ہے بلکہ زندگی کی تمام پرتوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے،سٹہ بازاری‘ سود‘ جوا‘ اسمگلنگ‘ ذخیرہ اندوزی‘ منی لانڈرنگ‘ رشوت‘ دانشورانہ بے ایمانی‘ تشدد‘ قتل عام‘ آبرو ریزی‘ جسم فروشی‘ اناپرستی درسروں کی اذیت میں بے حسی کا مظاہرہ،نظام ہائے سرمایہ کی ٹوٹ پھوٹ مزیدبرآں اس کی اخلاقیات‘کلچر اور فلسفے میں بھی یہ بحران منعکس ہورہاہے اس نظام میں اس کے علاوہ ہوبھی کیاسکتا ہے؟

تازہ ترین