• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حیدرآباد کے ’مول چند محل‘ میں کس کی روح بھٹک رہی ہے؟

’’مول چند محل‘‘حیدرآباد

ماہرین عمرانیات اس امر پر متفق ہیں کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ انسانی رہن سہن، شعور و ادراک، رویے بھی تبدیل ہوتےجاتے ہیں اورپھر زندہ قومیں اپنے ماضی کو نظرانداز کرنے کے بجائے، اپنی درخشاں روایات کی مدد سے مستقبل کا تعین کرتی ہیں۔ ماہرین کے اس فکر و فلسفے کے برعکس حیدرآباد سمیت سندھ میں آہستہ آہستہ تاریخی، ثقافتی، سماجی و علمی ورثے اور منفرد طرز تعمیر کی حامل سب ہی قدیم عمارتوں سمیت ان کے دلکش نقوش کو کسی حرفِ غلط کی طرح مٹایا جارہا ہے۔ اس امر کا بلاشبہ متعلقہ محکموں اور ان کے تعینات افسران و عملے کی غفلت و بے حسی کو موردالزام ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ ان میں وہ افسران و بیوروکریٹس، سیاستدان، بااثر شخصیات بھی شامل ہیں، جو پہلے قدیم ثقافتی و تاریخی عمارتوں کی جگہ پلازہ بنانے میں اپنی مہارت دکھاتے ہیں، بعدازاں مختلف عوامی فورم اور جلسوں و دوروں کے دوران ان کے تحفظ کو یقینی بنانے کےلیے کوئی کسر اٹھا نہ رکھنے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں، اس کا اندازہ اس امر سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک جانب محکمہ ثقافت و ہیریٹج سندھ کے ورثے کی حامل عمارتوں کی طویل فہرست ہر روز نمایاں کررہا ہے، دوسری جانب حیدرآبادسمیت سندھ کی لاتعداد معروف عمارتیں ہر روز منہدم ہورہی ہیں، تاکہ نئی عمارتیں تعمیرہوسکیں۔ المیہ یہ ہے کہ ایسی کئی معروف عمارتوں کا تذکرہ اب محض کتابوں یا پرانے اخبارات و جرائد ہی میں ملتا ہے،کیونکہ خطے کو ماضی کے حسین طرز معاشرت کے اسلوب سے محروم کردینے کی روایت، بدعنوانی، لوٹ کھسوٹ کے مجوزہ دور میں روزافزوں مستحکم ہورہی ہے، یہی وجہ ہے کہ حیدرآباد کے علاقے تلک چاڑی روڈ پر واقع معروف کھیانی مینشن کا مقدمہ مقامی عدالت میں زیرسماعت ہونے کے باوجود اس محل نما عمارت کو پراسرار انداز میں منہدم کیا جارہا ہے اور اس کا ملبہ گدھوں پر لادکر دُور دراز علاقوں میں گرایاجارہا ہے۔ اسی طرح قیام پاکستان سے قبل حیدرآباد کی پہلی پوش آبادی ہیرآباد کی خواتین کی سماجی، ثقافتی اور ادبی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کےلیے لیڈیز کلب کی عمارت تعمیر کی گئی، پھر اس عمارت کو بھی مقامی بلڈر کے ہاتھوں فروخت کردیاگیا، لیکن اس میں کلب کی ایک عہدیدار نے اسکول قائم کیا ہوا ہے، جسے بلڈر قبضہ قرار دیتا ہے۔اس پر بالائے ستم یہ ہے کہ یہ علاقہ حیدرآباد کے قدیم تاریخی و ثقافتی ورثے میں شامل ہونے کے باوجود متعلقہ محکموں سے قدیم عمارتوںکی جگہ بلند و بالا پلازوں کی تعمیرات کےلیے دھڑا دھڑ نقشے منظور ہورہے ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق اس منظوری میں ’’بھاری چمک‘‘ استعمال ہورہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نئی تعمیرات اور ورثے کو ملیامیٹ کرنے کے جرم میں ملوث کسی فرد، ادارے اور تعمیراتی کمپنیوں کے مالکان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔یہی نہیں سندھ پراونشل کوآپریٹو سوسائٹیز بینک کی عمارت کے علاوہ 1947 سے قبل تعمیر ہونے والے سنیما،ِ پارکوں، اسکولوں، اسپتالِوں ، مسافر خانوں کوبھی رہائشی و کاروباری مراکز میں تبدیل کردیا گیا، حالانکہ عوام کی تفریح طبع کےلیےمختص و دیگر فلاحی مقاصد کےلیے مخصوص کردہ پلاٹوں اور عمارتوں کو قطعی طور پر کاروباری و رہائشی مقاصد کےلیےفروخت نہیں کیا جاسکتا، مگر یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ پاکستان کے طویل ترین شاہی بازار اور اس سے ملحقہ قدیم گلیوں، محلوں، پڑ اور پاڑوں کو ہی دیکھئے، جو تالپور حکمرانوں نے اپنے درباریوں،خدمت گاروں اور معززین کے نام پر آباد کئے تھے۔ اب ان کے نام ہی نہیں مکانات کی ہیت بھی تبدیل ہوگئی ہے، جہاں دکانداروں اور مکینوں کی قائم کردہ تجاوزات خود ان کےلیے بھی ذہنی اذیت کا باعث بن گئی ہے۔

حیدرآباد کے قدیم علاقے فقیر کا پڑ کو ہمیشہ ہی سے مرکزیت حاصل ہے۔یہ وہ مقام ہے، جہاں سے حیدرآباد کے طول و عرض کی درست پیمائش ہوتی رہی ہے، اس علاقے کے مغرب میں شاہی بازار، جبکہ مشرقی سمت میںپھلیلی نہر سے ملحقہ علاقے گرونگر، آفندی ٹائون، گئوشالہ (عثمان آباد)تالاب نمبر 3 اور تالاب نمبر 2 ودیگر واقع ہیں۔ یہ وہی تاریخی نہر ہے، جس کے ذریعے نہ صرف اندرون سندھ، بلکہ وابستہ دریائے سندھ کے راستے سےدنیا بھر میں پھل، سبزیاں، مصنوعات، پارجہ جات و دیگر سامان کی ترسیل ہوتی تھی۔ اسی پھلیلی نہر کے ذریعے تالپوروں نے میانی کے جنگلات میں انگریزوں کے خلاف جنگ لڑی۔ کہا جاتا ہے کہ تالپوروں کے ایک جرنیل ہوش محمد شیدی نے اسی جنگ میں نعرہ لگایا تھا کہ ’’مرویسوں، مرویسوں سندھ نہ ڈیسوں‘‘۔ اسی فقیر کاپڑ چاڑی کے شمال کی جانب کھیمائی محلہ ہے۔ یہ محلہ ان لوگوں کے نام سے منسوب ہے، جو قریشی ذات سے تعلق رکھتے اور سندھ کے صوفی بزرگ حضرت عثمان مروندی المعروف لال شہباز قلندر کے مزار کےلیے 18 گز کی چادر تیا رکرتے تھے، اس کو سرخ رنگ دینے کےلیے گلاب کے پھولوں کا رنگ کشید کیا جاتا تھا۔ اگر اس محلے کو حیدرآباد کے نقشے پر دیکھیں تو شاہی بازار سے متصل ریشم بازار کے مغرب میں اختتام پر عین سامنے ایک گلی ہے، شاہی بازار ان کے درمیان حائل ہے۔ شاہی بازار کو مغرب سے مشرق کی جانب 3قدم کے بعد عبور کریں تو یہ گلی بھی دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہے۔ بائیں طرف بتاشہ گلی اور دائیں جانب کھمبائی گلی ہے، جس میں حیدرآباد کا ایک خوبصورت، گوتھک، مغل طرز تعمیر کا حامل اور 16 سو گز سے زائد رقبے، سٹی سروے نمبر 1372 پر ’’مول چند محل‘‘ واقع ہے۔ 1925 کے دوران اپنی جوانی کی پہلی انگڑائی لینے والا یہ محل اب مختلف خاندانوں کی ملکیت ہے۔ اس محل کا مرکزی دروازہ مشرق کی سمت، جبکہ 2 دروازے شمال اور جنوب کی جانب ہیں، لیکن آمدورفت کےلیے محض ایک ہی درازہ استعمال ہوتا ہے۔ یہ محل سطح زمین سے 4 فٹ اونچا تعمیر کرایا گیا تھا، اس کی بنیادوں میں سندھ کے قدیم شہر ٹھٹھہ کے علاقے اونگر کی پہاڑیوں کےسخت پتھر، جبکہ عمارت سازی میں بھارت کے ریگستانی علاقے سے پہاڑی پتھر منگواکراستعمال ہوئے۔ 

’’مول چند محل‘‘حیدرآباد

ان پتھروں پر دیدہ زیب نقش و نگار بنانے کے علاوہ محل کی تعمیرات کےلیے جسیلیر، راجستھان کی سلاوٹ برادری کے ماہرین سنگ تراشوں، کریم داد گزدر اور اجمل چوہان و دیگر ہنرمندوں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ سلاوٹ برادری کے آبائو اجداد بھی اُسی وقت پہلی بار حیدرآباد میں آباد ہوئے، جب تالپور حکمراں ہیر آباد کے مقام پر ’’میروں کے قبے‘‘ یعنی میروں کا قبرستان کے ایک مقبرے کی تعمیر کرارہے تھے۔ اس محل کی بالکونیاں، دروازے کھڑکیاں، گھریلو استعمال کا فرنیچر خدا آباد کے بڑھئیوں نے ساگوان کی لکڑی سے بنایا اور لکڑی پر تراش خراش کرکے ان کو منفرد اشکال دیں۔ محل میں روشنی اور حیدرآباد کی ٹھنڈی سرمئی ہوائوں سے لطف اندوز ہونے کےلیے جنوب اور مشرقی سمت میں بالکونیوں کا رخ بازار کی سمت رکھا گیا۔ یوں تو یہ تین منزلہ محل ہے، جس کے نچلے حصے میں 14 دکانیں ہیں،جو کبھی اجناس وغیرہ کے گودام رہے ہوں گے، جبکہ محل میں مجموعی طور پر 32 کمرے ہیں، ان کی بناوٹ و ترتیب کو دیکھ کرکسی رہائشی ہوٹل کا گمان ہوتا ہے۔ مول چند محل میں 900 گز صحن میں 7 فٹ گہری مٹی سے بھرائی کرائی گئی تھی، تاکہ گرمیوں کے موسم میں مکینوں کو تپش کی بجائے ٹھنڈک اور احساس فرحت محسوس ہو۔ محل کے فرش میں بیلجیم سے منقش ٹائلز منگواکر نصب کرائے گئے، جبکہ کمروں کی چھت کےلیے آہنی گارڈرز مقامی کمپنی کے ذریعے برطانیہ سے منگوائے گئے تھے۔ دروازوں کی چٹخنیاں، ہینڈل، کنڈیاں خالص پیتل سے بنوائے گئے، جنہیں قیام پاکستان کے بعد لوگ طلائی سمجھ کر کاٹ کاٹ کر لے گئے۔ ہر کمرے کے داخلی دو پٹ کے دروازے تھے، ان کے عین اوپر کی جانب ایک روشن دان تھا، جس پر رنگین شیشے نصب تھے، جن میں سرخ اور ہرا رنگ نمایاں تھا۔ اس محل میں داخل ہونے کےلیے چند سیڑھیوں کے بعد زینہ ہے، جس کے اختتام پرپہلے ایک کشادہ صحن تھا، ہر منزل پر مکینوں کےلیے ایک غسل خانہ اور بیت الخلا تھا، جبکہ باورچی خانہ کی پشت جنوب کی سمت اور دروازہ شمال کی جانب رکھا گیا، جو بیت الخلا سے قدرے فاصلے پر تھا۔ معروف ادیب، نقاد اور سندھ یونیورسٹی جامشورو شعبہ اردو کے پروفیسر مرزا سلیم بیگ کا بچپن مول چند محل کے قریب واقع ایک مکان میں گزرا ہے، وہ محل کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ’’ سیٹھ مول چند کا شمار حیدرآباد کے چند گنے چنے سرمایہ داروں میں ہوتا تھا اور ان کا تعلق بھائی بند ہندوئوں سے تھا۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اس شہر کے قدیم تاریخی ورثے پکا قلعہ تا حیدرآباد میونسپلٹی کے پہلے صدر کے نام سے منسوب نول رائے مارکیٹ کلاک ٹاور (جسے حرف عام میں گھنٹہ گھر بھی کہا جاتا ہے)تک اس بازار کی مغربی سمت میں اکثریت ان ہندوئوں کے مکانات کی تھی، جنہیں ’’عامل‘‘ کہا جاتا ہے،جو ملازمت پیشہ بھی تھے، جبکہ اسی سمت میں وہ بھائی بند ہندو بھی رہائش پذیر تھے،جن کا ذریعہ معاش تجارت تھی۔ 1900 کےبعد یا وقتاً فوقتاً ان دونوں ذاتوں کے ہندو، مسلمانوں سے اراضی و جائیدادیں خرید کر محل نما عمارتیں اور حویلیاں بنواتے رہے۔ بھائی بند ہندو اپنے آباؤاجداد کے نام کے ساتھ ’’نی‘‘ کا لاحقہ لگادیتے ہیں، جیسے آدوانی، گدوانی، سہوانی، ایڈوانی وغیرہ۔ سیٹھ مول چند کا تعلق بھی بھائی بند ہندوئوں سے تھا۔ یہ برادری اپنی شادی بیاہ و دیگر تقریبات، کچے راستےاور تنگ گلیوں کے سبب، پکا قلعہ میں اپنے نانک، رام ہال میں منعقد کرتی تھی۔ محل کے صحن میں ایک وسیع حوض تھا، یہاں سے پانی مکین خود بھرتے تھے۔ محل میںیہ پانی پھلیلی نہر سے مشکیزوں کے ذریعے، ماشکیوں سے منگوایا جاتا تھا۔ مکین اس حوض کے گرد پتھروںسے بنی بنچ پر بیٹھ جاتے اور اپنے پائوں اس حوض کے ٹھنڈے پانی میں ڈال دیتے، جس سے انہیں دن بھر کی تھکاوٹ سے نجات مل جاتی تھی۔ محل کے مرکزی دروازے کے دائیں اور بائیں جانب روشنی کےلیے پتھروںکو تراشوا کر چراغ دان بنوائے گئے، جن میں شام کے ملگجے اندھیرے پھیلنے سے قبل سرسوں کے تیل سے دیے روشن کردیئے جاتے تھے۔ اس محل کے مکین علی الصبح بیدار ہوکر محل کے ایک علیحدہ کمرے میں آکر اپنے دیوی دیوتائوں کی مورتیوں کی پرارتھنا کرتے اور اجتماعی بھجن کرتن بھی ہوتا تھا۔ چھت پر ایک روف گارڈن تھا، جہاں مکین بیٹھا کرتے تھے۔

حیدرآباد کے اس منفرد، خوبصورت اور اہم ورثے کے حامل محل کو قیام پاکستان کے بعد جہاں متعلقہ محکموںنے نظرانداز کیا، وہاں سیٹلمنٹ قانون کے تحت یہ محل ایسے افراد کو الاٹ کردیا گیا، جو محل کو محفوظ رکھنے کے بجائے یکے بعد دیگرے خاندانوں کو فروخت کرتے رہے، حتٰی کہ یہ محل ایسے خاندانوں کے ہاتھوں میں آگیا، جو اس میں تبدیلی اور توڑ پھوڑ کو اپنا حق تصور کرتے ہیں۔ نہ جانے یہ سلسلہ کب تک جاری رہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ سیاحوں کو اس عمارت کے مکین محل میں داخلے کی اجازت تو درکنار تصویر تک بنانے کی اجازت نہیںدیتے ، حتیٰ کہ جو اجناس رکھنے کے گودام تھے،وہ بیڑی کے پتے فروخت کرنے والے تاجروں کو کرائے پر دے دیئے۔ اب یہ مختلف کاروباری مقاصد کےلیے استعمال ہورہا ہے۔ یہ محل ثقافتی ورثے میں شامل ہونے کے باوجود اپنے اجڑے حسن پر نوحہ کناں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حیدرآباد کے اس حسین مول چند محل کی دم توڑتی سانسوں کی بحالی اور سیاحوں کےلیے کارآمد و دلچسپی کا باعث بنانے کےلیے اقدامات کئے جائیں، بصورت دیگر حیدرآباد کی قدیم عمارتیں ناصرف اپنا وجود کھودیں گی، بلکہ مو ل چند محل بھی ملیامیٹ ہوکر کسی بلند و بالا پلازہ میں تبدیل ہوسکتا ہے‘‘۔محض 25 ہزار روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والے مول چند محل کا نام سنگ تراشوں نے ایک بڑے اور بے جوڑ پتھر پر تراش کر محل کی پیشانی اور مرکزی دروازے کے عین اوپر بنی بالکونی پر بیرونی جانب نصب کیا اور پتھروں ہی سے محل کی پیشانی پر تاج بناکر اس پر سن تکمیل 1925 کنندہ کرایا۔ حسن اتفاق یہ ہوا کہ اسی سال معروف سیاسی شخصیت میراں محمد شاہ حیدرآباد میونسپلٹی کے پہلے چیئرمین منتخب ہوئے تو اُنہوںنے اس محل کے اطراف گلیوں کو اینٹوں سے پختہ بنوایا، جس کی بنا پر ملحقہ علاقوں کے لوگوں کی ان گلیوں میں آمدورفت بڑھ گئی۔ دوسری جانب سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کا مطالبہ بھی روز بروز بڑھ رہا تھا، چنانچہ محل کی تعمیر کے ٹھیک 5 سال بعد سندھ کا پہلا گورنر لارڈ گراہم کو بنایا گیا (یہ وہی گورنر تھے، جنہوںنے اپنی بیوی کے نام سے منسوب تلک چاڑی کے مقام پر لیڈی گراہم اسپتال تعمیر کرایا) جس کی بنا پر حیدرآباد سمیت سندھ بھر میں سماجی ترقی کا نیاباب کھل گیا، چنانچہ سیٹھ مول چند کے تعمیر کردہ محل سے ملحقہ اراضی پر اے جے چوٹیر مل اینڈ کمپنی کے مالک جوٹیرمل ساڈوانی اور ان کے بھائی دھنامل چیلارام (جسے پیار سے دھنومل کہا جاتا تھا) نے مشترکہ طور پر 1931 کے دوران ایک عمارت تعمیر کرائی، جو باہر سے بظاہر مول چند محل کا حصہ ہی محسوس ہوتا ہے، لیکن اندرونی طور پر یہ عمارت مول چند محل سے علیحدہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس خاندان کی اُس وقت مجموعی دولت تقریباً 30 ملین پونڈ تھی اور اس خاندان کا شمار شہر کے امیر ترین خاندانوں میں ہوتا تھا، جبکہ چوٹیرمل کا شمار ایسے کاروباری افراد میں رہا، جن کے کانگریسی رہنمائوں سے گہرے مراسم تھے۔ ان کی کمپنی کا منیجر ادھارام جاپان کی ریڈکراس تنظیم کو فنڈز بھی دیا کرتا تھا، لیکن اس امر کے باوجود مول چند محل ہی کو مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔

’’مول چند محل‘‘حیدرآباد

عموماً قدیم عمارتوں سے کوئی دلچسپ، انوکھے، منفرد قصے، کہانیاں، تاریخ و ثقافت کے علاوہ خوفناک، چونکا دینے یا دل ہلادینے والے واقعات منسلک ہوتے ہیں، جو وقت کے ساتھ ساتھ دم توڑ دیتے ہیں یا پھر نسل در نسل منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ مول چند محل بھی ایسے ہی ایک من گھڑت خوفناک اور پراسرار واقعہ کی زد میں ہے۔ بعض محققین نے اپنی کتابوں میں یہ من گھڑت قصہ بھی شامل کردیا ہے کہ سیٹھ مول چند کو ڈاکوئوں نے محل کی سیڑھیوں پر قتل کردیا تھا، جس کی بنا پر اس کی روح محل میں بھٹک رہی ہے، لیکن صرافہ بازار یونین شاہی بازار حیدرآباد کےرہنما، الحاج فضل الرحمٰن نے اس واقعہ کو محض جھوٹ کا پلندہ دیتے ہوئے بتایا کہ ’’سیٹھ مول چند تحریک آزادی ہند کے دوران اپنے کنبے کے ساتھ بمبئی کے علاقے باندرہ میں منتقل ہوگیا تھا اور وہیں اس کا دیہانت ہوا، اس کی سمادی بھی وہیں ہے۔ ہماری اس محل سے اس بنا پر بھی جذباتی وابستگی ہے کہ میری نارتولی برادری کے ایک فرد، اسماعیل ولد ولی محمد کی ملکیت محل کی پوری ایک منزل ہے، جو اُنہوں نے پائی پائی بچا کر خریدی، ابتدا میں یہ پاپڑ فروخت کرتے تھے، بعدازاں پرانے طلائی زیورات کی خرید و فروخت کا کام کرنے لگے تو ان ہی زیورات میں انہیں مانک موتی بھی مل گیا۔ یہ نوادرات کے زمرے میں آتا ہے، جسے اُنہوں نے 1970 کے دوران 73 لاکھ روپے میں لندن جاکر فروخت کیا، اسی حاصل ہونے والی رقم سے انہوں نے اپنے کاروبار کے ساتھ ساتھ مول چند محل کا ایک حصہ بھی خریدا۔ 4 سال قبل سیٹھ مول چند کا خاندان اس محل کو دیکھنے کےلیے آیا تو اس دوران میں بھی وہاں موجود تھا۔ میں نے مول چند کے قتل سے متعلق استفسار کیا تو اس خاندان نے قتل کو نہ صرف محض افوا ہ قرار دیا، بلکہ ایسے مصنفین پر افسوس کا اظہار کیا، جو تصدیق کے بغیر محض افواہوں کو حقیقت بناکر پیش کرتے ہیں۔ دراصل اس نوعیت کی خبریں وہ لوگ پھیلاتے ہیں، جو بلڈرز کے دست راست ہوتے ہیں یا جن کے ذاتی مقاصد ہوتے ہیں، تاکہ عمارتوں کی قیمت کم ہوجائے اور وہ مطلوبہ عمارت کو کوڑیوں کے دام خرید کر پلازہ بنالیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ قدیم عمارتوں میں اگر آسیب یا روح بھٹکتی ہے تو نئی عمارت کی تعمیر کے بعد وہ کہاں گم ہوجاتی ہے؟ یہ بھی محض قیاس ہی ہے کہ یہ محل سیٹھ مول چند کی بیٹھک رہی ہو، ہاں یہ حقیقت ہے کہ اس محل میں ہندوئوں کے دیوی دیوتائوں کی طلائی اور قیمتی نگینوں سے جڑی مورتیاں تھیں۔ اس بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ تمام مورتیاں حیدرآباد کی ایک مشہور بیکری کا ہندو مالک اپنے ساتھ لے گیا تھا، بعدازاں اس کا اکلوتا بیٹا مشرف بہ اسلام ہو گیا۔ ان مورتیوں کی مالیت کروڑوں روپے ہے۔ میں یہ بات اس لیے بھی وثوق سے کہہ رہا ہوں کہ میں خود پیشے کے لحاظ سے جوہری اور صراف ہوں، مول چند محل حیدرآباد کا ثقافتی ورثہ ہے، اس کا تحفظ انتہائی ضروری ہے، اس کے علاوہ حکومت حیدرآباد کی مول چند محل سمیت تمام تاریخی و ثقافتی ورثے کی حامل عمارتوں میں سیاحوں کے داخلے کو یقینی بنانے کےلیے اقدامات کرے، بصورت دیگر حکومت نوجوان نسل، سیاحوں کےلیے تاریخی و ثقافتی ورثے کے حامل عمارتوں کے تحفظ کا دعویٰ نہ کرے‘‘۔

حیدرآباد کی قدیم عمارتیں، اس شہر کا حُسن ہیں، مگر یہ حُسن حوادث زمانہ، مکینوں، اداروں، محکموں کی بے حسی، غفلت کے سبب گہنا گیا ہے،اس سے قبل ان عمارتوں کا وجود مٹ  جائے، ان کے تحفظ اور بحالی کو یقینی بنانا ہوگا۔

تازہ ترین