ڈاکٹر حافظ محمد ثانی
’’اس تاریخی فتح سے کفرو شرک اور ظلم کا باطل نظام سرزمینِ عرب سےہمیشہ کے لیے نیست و نابود ہوگیا،اسلام کی عالم گیر ترویج واشاعت کی راہیں ہموار ہوئیں‘‘
سرور کونین،فخر موجودات ، محسنِ انسانیت، حضرت محمد ﷺ کے پیغمبرانہ امتیازاور خصائص میں ایک امتیازی وصف اور آپﷺ کی نمایاں ترین خصوصیت آپﷺ کی’’ شان رحمۃ لّلعالمینی‘‘ ہے،جس کے متعلق قرآن کریم میں فرمایا گیا: ترجمہ:اور ہم نے آپﷺ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ یوں توآپ ﷺ کی حیاتِ طیبّہ کفّار و مشرکین اور بد ترین دشمنوں سے حسن سلوک، عفو و درگزر اور رواداری سے عبارت ہے،لیکن اس کا ایک اہم اور تاریخ ساز موقع ’’فتح مکہ‘‘ کا وہ مثالی واقعہ ہے کہ جب آپﷺ کو اپنے دشمنوں کفار مکہ پر کامل اختیار و اقتدار حاصل تھا، جب صحن کعبہ میں اسلام، پیغمبر اسلامﷺ اور جاں نثارانِ اسلام کے دشمن گروہ در گروہ سرجھکائے کھڑے تھے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ مکہ فتح ہونے کے بعد رسول اکرم ﷺ نے کفارِ قریش کے ساتھ جو سلوک اور رویہ اپنایا، پوری انسانی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس موقع کی مرقع آرائی معروف سیرت نگارعلّامہ شبلی نعمانی کی زبانی سنیے ’’آپﷺ نے مجمع کی طرف دیکھا تو جبّارانِ قریش سامنے تھے۔ ان میں وہ حوصلہ مند بھی تھے جو اسلام کو مٹانے میں سب کے پیش رو تھے۔ وہ بھی جن کی تیغ و سنان نے پیکر قدسیﷺ کے ساتھ گستاخیاں کی تھیں، وہ بھی جنہوں نے آنحضرت ﷺ کے راستے میں کانٹے بچھائے تھے۔ وہ بھی تھے،جو وعظ کے وقت آنحضرت ﷺ کی ایڑیوں کو لہولہان کردیا کرتے تھے۔ وہ بھی تھے جن کی تشنہ لبی خون نبوت کے سوا کسی چیز سے بجھ نہیں سکتی تھی،وہ بھی تھے جن کے حملوں کا سیلاب مدینے کی دیواروں سے آ آ کر ٹکراتا تھا، وہ بھی تھے جو مسلمانوں کو جلتی ہوئی آگ پر لٹا کر ان کے سینوں پر آتشیں مہریں لگایا کرتے تھے۔ رسول اکرمﷺ نے ان کی طرف دیکھا اور پوچھا: تمہیں کچھ معلوم ہے، میں تم سے کیا معاملہ کرنے والا ہوں؟ وہ اگرچہ ظالم تھے، شقی تھے، بے رحم تھے، لیکن مزاج شناس تھے، پکار اٹھے کہ تو شریف بھائی ہے اور شریف برادر زادہ ہے، ارشاد ہوا! تم پر کچھ الزام نہیں۔ جائو ،تم سب آزاد ہو‘‘۔
دنیا نے دیکھاکہ پیغمبر رحمت، محسن انسانیت ﷺ نے ان دشمنوں کے ساتھ عین اس وقت کہ جب وہ مفتوح تھے، قیدی تھے، غلام تھے،زیردست تھے، ان میں مقابلے کی تاب نہ تھی، بے بس اور بے کس تھے، نیز جب یہ صدا بلند ہوئی: آج تو جنگ و جدال، اور قتال و انتقام کا دن ہے، آج تو خوںریزی اور بدلہ لینے کا دن ہے، اس موقع پر محسن انسانیت ﷺ کی سیرت طیبہ میں عفو و در گزر اور رواداری کا وہ شان دار نمونہ نظر آتا ہے، جو دیگر علم برداران مذاہب اور فاتحین عالم میں، فاتح مکہﷺ کو ممتاز مقام عطا کرتا ہے۔
آپ ﷺنے اس موقع پرتمام امیدوں اور تصورات کے برخلاف رواداری پر مبنی مثالی انقلابی اعلان فرمایا! ’’الیوم یوم المرحمۃ‘‘ ’’آج تورحم و کرم، عفو ودرگزر اور ایثار و روا داری کا دن ہے، آج عفو عام کا دن ہے۔‘‘
فتح مکہ کے سلسلے میں ابن اسحاق نے یہ روایت ذکر کی ہے۔ (ترجمہ) ’’جب رسول اللہﷺ وادی ذی طویٰ میں پہنچے اور آپﷺ نے دیکھ لیا کہ اللہ نے آپﷺ کوفتح سے سرفراز کیا ہے، تو آپﷺ نے ازراہ تواضع اپنی اونٹنی پر سرجھکا لیا اور یہاں تک جھکے کہ آپﷺ کی ٹھوڑی قریب تھی کہ کجاوہ کی لکڑی سے لگ جاتی۔‘‘’’صحیح بخاری‘‘ میں عبداللہ بن مغفلؓ سے روایت ہے کہ میں نے فتح مکہ کے دن رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺاونٹنی پر سوار ہیں اور خوش الحانی کے ساتھ ’’انّا فتحنا‘‘ تلاوت فرمارہے ہیں۔
اس عظیم الشان فتح کے وقت بار گاہِ الٰہی میں خشوع و خضوع، عاجزی و انکساری کے آثار بھی چہرئہ انور پر نمایاں تھے۔ آپؐ اونٹنی پر سوار تھے، تواضع سے گردن جھکی ہوئی تھی ، آپؐکے خادم اور خادم زادہ حضرت اسامہ بن زید ؓ آپؐ کے ردیف تھے۔ حضرت انسؓ راوی ہیں کہ جب آپؐ مکے میں فاتحانہ داخل ہوئے تو تمام لوگ آپؐ کو دیکھ رہے تھے، لیکن آپؐ اس موقع پرتواضع کی وجہ سے سرجھکائے ہوئے تھے۔ اس موقع پر محسن انسانیت ﷺ نے رواداری اور عام معافی کے اعلان کے ساتھ ساتھ امن کے قیام اور استحکام کے لیے ہدایات جاری فرمائیں کہ!
(1)جو کوئی ہتھیار پھینک دے، اسے قتل نہ کیا جائے۔(2) جو کوئی خانۂ کعبہ کے اندر پہنچ جائے، اسے قتل نہ کیا جائے۔(3) جو کوئی اپنے گھر کے اندر بیٹھا رہے، اسے قتل نہ کیا جائے۔(4) جو کوئی ابو سفیان کے گھرمیں داخل ہوجائے،اسے قتل نہ کیا جائے۔(5) جو کوئی حکیم بن حزام کے گھر جا رہے، اسے قتل نہ کیا جائے۔(6) بھاگ جانے والے کاتعاقب نہ کیا جائے۔(7) زخمی کو قتل نہ کیا جائے۔
سید المرسلین، رحمۃ لّلعالمین حضرت محمدﷺ کی سیرت طیبہ میں ’’فتح مکہ‘‘ ایسا تاریخ ساز واقعہ ہے کہ جس کی نظیر تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔ نامور عرب مصنف شوقی خلیل نے غزواتِ نبویؐ پرمختلف کتابیں تحریر کی ہیں۔ موصوف نے ’’فتح مکہ‘‘پر اپنی کتاب میں سید المرسلین رحمۃ لّلعالمینﷺ کی شان کریمی، رواداری اور عفو و درگزر کو انتہائی بلیغ انداز میں پیش کیا ہے، ان کی تحریر بڑی معنیٰ خیز، اثر انگیز اور بصیرت افروز ہے، شوقی خلیل لکھتے ہیں:’’عفو و در گزر، جُود و کرم کا جو مظاہرہ سرورعالمﷺ نے فرمایا، انسانی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی، اس کی بلندی، اس کی پاکیزگی اور اس کی عظمت، عدیم المثال ہے۔ کسی بادشاہ، کسی سیاسی راہنما، کسی فوجی جرنیل نے اس قسم کے کریمانہ اخلاق کا کبھی مظاہرہ نہیں کیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ کے بھیجے ہوئے نبیﷺ کے سوا کسی کے بس کا روگ نہیں کہ ان حالات میں ایسی عالی ظرفی کا مظاہرہ کرسکے۔ وہ نبی مرسل، جس کی رحمت، اللہ کی رحمت، جس کی حکمت، اللہ کی حکمت اور جس کا عفو و در گزر ،اللہ تعالیٰ کی شان عفو و در گزر کا آئینہ دار ہے۔ رسول اکرم ﷺنے رحمت وحکمت سے لبریز جن کلمات سے اپنے دشمنوں کو عفو و درگزر کا مژدہ سنایا، یہ مژدۂ جاں فزا سن کر ان پر شادی مرگ کی کیفیت طاری ہوگئی۔ گویا انہیں قبروں سے زندہ کرکے دوبارہ اٹھایا گیا ہے۔ وہ اس شان رحمۃ لّلعالمینی کو دیکھ کر جوق در جوق آگے بڑھ کر حضور اکرمﷺ کے دستِ مبارک پر اسلام کی بیعت کرنے لگے۔ فاتح اعظمﷺ نے اپنے خون کے پیاسے دشمنوں کے سامنے اس عظیم فتح کے موقع پر جو خطبہ ارشاد فرمایا،اس میں دنیاکے تمام فاتحوں کے لیے رشد و ہدایت کا وہ دل کش درس ہے، جس سے ہر ایک مستفید ہوسکتا ہے۔پوری توجہ سے اس کا ایک ایک جملہ پڑھیے اور قلوب و اذہان کے فاتح اعظمﷺ پر صلوٰۃ وسلام کے رنگین اور مہکتے ہوئے پھول نچھاور کرتے جایئے۔ اس کے مطالعے سے آپ کو دین اسلام کی عظمت، اس کی عالم گیر تعلیمات اور اس دین کے لانے والے نبی معظمﷺ کی شان عفو و درگزر اور شان رحمت کا اعتراف کیے بغیرچارئہ کار نہ رہے گا۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ ’’فتح مکہ‘‘ آپؐ کی سیرت طیبہ میں ایک منفرد اور ایسا تاریخ ساز واقعہ ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔سکھ سیرت نگار جی، سنگھ دارا ’’فتح مکہ‘‘ کے موقع پر رحمۃ لّلعالمین ﷺ کے رحم و کرم اور رواداری پراپنی کتاب (رسول عربیﷺ) میں لکھتا ہے: ’’سبحان اللہ! رسول اللہ ﷺ نے اپنے قتل کا قصد کرنے والوں، اپنی نور چشم کے قاتلوں،اپنے چچا کا کلیجہ چبانے والوں، سب کو معافی دے دی، اور قطعی معافی، قتل عام دنیا کی تاریخوں میں اکثر سنتے تھے، مگر قاتلوں کی معافی نہ سنی تھی۔‘‘
ہندو سیرت نگار سوامی لکشمن پرشاد سیرت طیبہ پر اپنی کتاب ’’عرب کاچاند‘‘ میں لکھتا ہے! ’’آپ ؐ کے اس عدیم المثال حکم سے جو آپ ؐ نے فتح مکہ کے موقع پر اپنے لشکر کو دیا، ایسی محبت اور ہمدردی ظاہر ہوتی ہے کہ اس کے تصور سے آج بھی انسان کے اخلاقی احساس میں ایک عجیب رفعت و وسعت پیدا ہوتی ہے۔ جذبات صلح و آشتی کا ایسانمونہ تاریخ کے صفحات پیش کرنے سے قاصر ہیں۔‘‘
یوروپین دانش ور ارتھر گلمین اس تاریخ ساز واقعے کے متعلق لکھتا ہے : ’’فتح مکہ کے موقع پر یہ بات آپؐ کے حق میں جائے گی کہ اس وقت جب کہ اہل مکہ کے ماضی کے انتہائی ظالمانہ سلوک پر انہیں جتنا بھی طیش آتا کم تھا، اورانتقام کی آگ بھڑکانے کے لیے کافی تھا، مگر آپؐ نے اپنے لشکر و سپاہ کو ہر قسم کے خون خرابے سے روکا اور اللہ کے ساتھ بندگی اور اطاعت کا مظاہرہ کیا۔دوسرے فاتحین کے وحشیانہ طرز عمل کے مقابلے میں اسے انتہا درجے کی شرافت اور انسانیت سے تعبیر کیا جائے گا۔‘‘ وہ مزید لکھتا ہے ’’محمد ﷺ کی فتح درحقیقت دنیا کی فتح تھی، سیاست کی فتح تھی، انہوں نے ذاتی مفاد کی ہر علامت کو مٹا ڈالا، اور ظالمانہ نظام سلطنت کو جڑ سے اکھاڑ دیا، اور جب قریش کے مغرور و متکبر سردار عاجزانہ گردنیں جھکائے مجرموں کی طرح کھڑے تھے تو محمدﷺ نے ان سے پوچھاکہ تمہیں مجھ سے کیا توقع ہے؟وہ بیک آواز بولے ’’رحم‘‘ اے سخی و فیاض بھائی رحم‘‘ ارشاد ہوا جائو، تم سب آزاد ہو۔‘‘
ایک اور مغربی دانش ور ’’فتح مکہ کے متعلق اپنے تاثرات یوں قلم بند کرتا ہے:’’یہ ایک عجیب و غریب منظر تھا۔ ایسا عجیب و غریب جس کی کوئی مثال تاریخ انسانی میں نہیں ملتی۔ یہ وہ واقعہ اور وہ موقع تھا جس میں پیغمبر اسلامﷺ انتقام لے سکتے تھے، ان کے قدیم دشمن جنہوں نے ان پر طرح طرح کے ظلم کیے تھے، وہ اب ان کے قدموں میں تھے، کیا اب وہ ان کو روند ڈالیں گے؟ کیا وہ ان کو دکھ دیں گے؟ کیا اب وہ اپنا بدلہ لیں گے؟ یہ وہ وقت تھا جس میں پیغمبر اسلامﷺ کی اصل سیرت بے نقاب تھی، ہم اس کے تصور سے کانپ اٹھتے ہیں، مگر دراصل ہوا کیا، گلیوں میں خون کا کوئی قطرہ بھی نہیں گرا، حقائق دراصل حقائق ہیں اور اس میں کوئی کلام نہیں کہ رسول اللہﷺ کا دشمنوں پر فتح کا دن، درحقیقت حضور سرور عالمﷺ کا اپنے نفس پر سب سے زیادہ قدرت کا دن تھا۔ انہوں نے نہایت ہی فراخ دلی سے قریش مکہ کے سارے مظالم کو معاف کردیا، انہوں نے مکے کی ساری آبادی کو پناہ دی۔‘‘
ہندو سیرت نگار ’’شردھے پر کاش دیوجی‘‘ نے نبی اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ پر مستقل تصنیف ’’سوانح عمری حضرت محمدﷺ بانی اسلام‘‘ لکھی جو 1907ء میں نو ل کشور پرنٹنگ ورکس لاہور سے شائع ہوئی۔وہ رسول اکرمﷺ کے مثالی عفو و در گزر کو بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہے: ’’یہ وقت بہت نازک تھا، ہر شخص کو یقین تھا کہ اب خیر نہیں۔ آنحضرتﷺ قتل عام کا حکم دیں گے اور جو اذیتیں انہیں دی گئی تھیں، آج ان کا خوب بدلہ لیں گے۔ لوگ اس خیال سے کانپے جاتے تھے کہ موت سر پر کھڑی ہے۔ وہ شہر چھوڑ کر بھاگنے لگے تھے کہ آپؐ نے منادی کرائی کہ کوئی مسلمان تلوار نہ چلائے اورمکے کا کوئی آدمی شہر چھوڑ کر نہ جائے۔ آج لڑائی اور بدلے کا دن نہیں۔ ’’آج رحمت اور شفقت کا دن ہے، میں تمہارا دشمن بن کر نہیں آیا، نہ میں تم سے کسی قسم کا بدلہ لوں گا۔ میں تم سب کے ساتھ وہ سلوک کروں گا جو یوسفؑ نے مصر میں اپنے بھائیوں سے کیا تھا، جائو… تم سب آزاد ہو۔‘‘
یورپین اسکالر آر۔ ڈبلیو۔ اسکاٹ لکھتا ہے:’’اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ دنیا کے بیش تر مذاہب تلوار اور طاقت کے بل بوتے پر پھیلائے گئے۔ اسپین میں مسلمانوں کی حکومت کو ختم کرکے مسلم آبادی کو جبراً عیسائی بنا دیا گیا۔اس کے برعکس محمدؐ نے (فتح مکہ کے موقع پر) جو حکمت عملی اختیار کی، وہ انسانی تاریخ کا روشن ترین باب ہے۔ آپ ؐ نے عناد، دشمنی اور انتقامی سزائوں کے بغیر میدان کار زار میں بہادری کے ابواب تحریر کیے، کھلی جنگ میں پست حربہ استعمال نہیں کیا۔
مغربی سیرت نگار ای ڈرمنگھم، ’’فتح مکہ‘‘ کو اپنی نوعیت کاتاریخ ساز واقعہ قرار دیتے ہوئے رقم طراز ہے:’’فتح کے بعد جب مسلمان مکے میں داخل ہوئے تو محمدﷺ نے ایک ایسا فیصلہ دیا، جو انسانی تاریخ میں اپنی نوعیت کا واحد فیصلہ تھا۔‘‘
یورپ کا معروف دانش ور لین پول ’’فتح مکہ‘‘ کو تاریخ کا بے مثال واقعہ قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے:’’حقائق تلخ ہوتے ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ محمد ﷺ نے جس دن اپنے دشمنوں پر فتح پائی اور جو ان کی عظیم ترین فتح تھی۔ وہی دن دراصل محمد ﷺ کی ذات اورانسانیت کی عظیم ترین فتح کا تھا۔ آپ ﷺ نے مکے کے لوگوں کو عام معافی دے دی۔ یہ وہی لوگ تھے جن کے ناقابل بیان مظالم اور اذیتوں کا آپؐ نشانہ بن رہے تھے۔ انسانی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی، جس طرح محمدﷺ فاتح کی حیثیت سے مکے میں داخل ہوئے دنیا کا کوئی فاتح اس کی مثال پیش نہیں کرسکا۔‘‘