عبدالاحد حقانی
امام الانبیاء،سیدالمرسلین،نبی رحمت حضرت محمد ﷺ کا سب سے مقدّم فریضہ خانۂ کعبہ کو بُتوں کی آلائش سے پاک کرنا اور اُس میں توحید کا علَم بلند کرنا تھا، لیکن قریش کی دشمنی اور عرب کی عام مخالفت کی وجہ سے اب تک اس کا موقع نہ آیا تھا۔ صُلح حُدیبیہ کے باعث چند روز امن و امان ہو گیا، لیکن معاہدۂ حدیبیہ بھی قریش سے نِبھ نہ سکا۔ معاہدۂ حدیبیہ کی رُو سے قبائلِ عرب میں سے خزاعہ آنحضرت ﷺ کے حلیف ہو گئے تھے اور بنوبکر قریش کے، اور ازرُوئے معاہدہ اِن میں سے کسی دوسرے پر ہاتھ اُٹھانے کا حق نہ تھا، لیکن بنوبکر نے حرم میں بنوخزاعہ کو قتل کیا اور قریش نے اِن کی مدد کی۔ خزاعہ کے چالیس افراد کا وفد حضور ﷺ کو صورتِ حال سے آگاہ کرنے اور مدد مانگنے کے لیے مدینے گیا۔ آنحضرت ﷺ کو واقعات سن کر سخت رنج ہوا اور آپؐ نے قریش کے پاس قاصد بھیجا اور تین شرطیں پیش کیں کہ اِن میں سے کوئی ایک منظور کی جائے۔ (1) مقتولوں کا خوں بہا ادا کیا جائے۔(2) قریش بنو بکر کی حمایت سے الگ ہو جائیں۔(3) اعلان کر دیا جائے کہ معاہدہ ٹوٹ گیا۔
اِن شرائط کے بعد قریش کی جانب سے کہا گیا ’’ صرف تیسری شرط منظور ہے۔‘‘ قاصد کے چلے جانے کے بعد قریش کو ندامت ہوئی اور انہوں نے ابوسفیان کو تجدیدِ معاہدہ کے لیے مدینے بھیجا، لیکن آپؐ نے معاہدے کی تجدید نہ فرمائی۔
خاتم الانبیاء،سرور کا ئنات، حضرت محمد مصطفیٰ ﷺرمضان المبارک 8 ہجری کو دس ہزارمجاہدین کے لشکرکے ساتھ مدینے سے روانہ ہوئے۔ اس موقع پر آپؐ نے اپنا مقصدکسی پر ظاہر نہیںکیا تھا۔ چناں چہ دفاعی حکمت عملی کے تحت وہ پُر پیچ راستہ اختیار فرمایا کہ جب تک آپؐ مطلوبہ مقام پرخیمہ زن نہ ہوگئے، اُس وقت تک کسی مکّے والے کو خبر نہ ہُوئی۔ رات کے وقت جب حضورِاکرم ﷺ کے حکم سے ہر سپاہی نے اپنے لیے علیحدہ آگ روشن کی،اُس وقت مکّے والوںکو خبر ہُوئی اور اکابر قریش میں سے ابوسفیان، حکیم بن حِزام اور بدیل بن ورقاء دیکھ بھال کے لیے نکلے۔انہوں نے جب دس ہزار روشن چُولہوںکو دیکھا تو اُن پر سکتہ طاری ہوگیا۔ان کی حضرت عبّاسؓ سے ملاقات ہُوئی تو اُنہوں نے اپنی پناہ میں لے کر حضورِ اکرم ﷺ کی خدمت میں پیش کیا، جہاں ان تینوں نے دینِ اسلام قبول کیا۔
دوسرے دن صُبح ابوسفیان ایک ٹیلے پر سے مسلم مجاہدین کے اس عظیم لشکر کو مکّے میں داخل ہوتے دیکھ رہے تھے۔
فوجی دستوںکو تین سَمتوں میں متعیّن فرمانے کے بعد آپؐ نے غسل فرمایا۔اسلحہ زیبِ تن کر کے اُونٹ پر سوار ہُوئے۔اسی مکّے میں ایک وہ نازک وقت تھا کہ جب قریش نے آپؐ کے قتل کا فیصلہ کرلیا تھا، رات بھر آپؐ کے مکان کا محاصرہ کیے رہے۔ اب اسی شہر میں اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو پورا پورا اقتدار بخشا۔اس غیر متوقع کامیابی پر آپ جذبۂ تشکّر سے سرشار ہوگئے اور اپنا خرقہ مُبارک جُھکا دیا اور اُونٹ پر بیٹھے ہی بیٹھے سجدۂ شُکر ادا کیا اور پھر بلند آواز سے سُورۂ انَّا فتحنا تلاوت فرمائی۔(بحوالہ ، عہدنبویﷺکے غزوات وسرایا)
اشرارِ مکّہ کے بھاگ جانے سے ہر طرف امن ہوگیا توآپؐ اپنے خاص رفقاء کے ساتھ حرم پہنچے۔ وہاں ایک ایک بُت کے پاس جا جا کر فرماتے،’’حق آیا اور باطل مٹ گیا اور باطل مٹنے ہی کے لیے تھا۔‘‘ ’’آپؐ کے حکم سے تمام اصنام توڑ دیے گئے اور دیواروں پر جو تصویریں تھیں،اُن کو مٹا دیا گیا۔ یہ عجیب منظر تھا کہ مشرکین اپنی آنکھوں سے اپنے باطل خُدائوں کی بے بسی کا نظارہ کررہے تھے۔ ’’غرض یہ کہ جب کعبہ بُتوں سے پاک ہو گیا تو آپؐ بیت اللہ میں داخل ہوکر نماز اور ذکر میں مشغول ہوگئے،اس کے بعد آپؐ نے حاضرین کے سامنے یہ خُطبہ دیا:’’ اللہ کے سِوا کوئی معبود نہیں، اُس کا کوئی شریک نہیں،اُس نے اپنا وعدہ سچّا کر دکھایا،اُس نے اپنے بندے کو مدد دی۔
‘‘پھر آپؐ نے قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی۔ (ترجمہ) ’’لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا، اور تمہیں قبیلوں اور خاندانوں میں تقسیم کر دیا، تاکہ ان کے ذریعے تم باہم پہچانے جائو، لیکن اللہ کے نزدیک معزّز وہی ہے جو پرہیزگاری اور تقویٰ میں سب سے بڑھ کر ہو۔ بے شک اللہ دانا اور باخبر ہے۔‘‘آپ ؐ نے فتحِ مکّہ کے موقع پر قریشِ مکّہ سے فرمایا،’’تم سے آج کوئی بازپُرس نہ ہوگی۔ جائو تم سب آزاد ہو۔‘‘
کیا قریش کے مظالم کی لرزہ خیز داستان سُن کرکوئی شخص بھی آنحضرتؐ کی طرف سے ایسے جواب کی توقع کرسکتا تھا؟کیا دنیا کے کسی قائد نے ایسی مثال پیش کی ہے ؟ اگرکوئی اورفاتح ہوتا، تو آج اکڑکر مکّے میں داخل ہوتا۔اس پر اور اس کے ساتھیوں پر جو مظالم ہوئے تھے،ان میں سے ایک ایک کا بدلہ لیتا، بلکہ مفتوح شہر میں قتلِ عام کا حکم دے دیتا۔جوکچھ بھی ہوتا،کم تھا۔ لیکن آپؐ نبی تھے، رہ نُمائے انسانیت تھے۔آپؐ کا مقصد دِلوںکو مسخّر کرنا تھا اور لوگوںکو خُدا کے دِین کا گرویدہ بنانا تھا۔دوسرے دن حضورِاکرم ﷺ کوہِ صفا کی بلندی پر تشریف فرما تھے اور لوگ جوق در جوق آکر اسلام قبول کررہے تھے۔ان سے توحید و رسالت کے اقرارکے ساتھ خصوصی طور پر رائج خرابیوں سے بچنے کا عہد لیا جا رہا تھا، یعنی چوری نہ کروںگا، زنا کا مرتکب نہ ہوںگا، خونِ ناحق نہ کروںگا، لڑکیوںکو ہلاک نہ کروںگا،کسی پر بہتان نہ لگائوںگا، اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کروںگا،اُن کی نافرمانی نہ کروںگا۔
ڈاکٹر غزالہ رئوف کے مطابق بیعت کی یہ شرائط خود اپنی حقّانیت کا ثبوت تھیں۔ عام طور سے یہ اعتقاد تھا کہ مکّے میں صرف وہی غالب رہ سکتا ہے، جسے خُدا کی تائید حاصل ہو۔ یہ اعتقاد اُس وقت بھی باقی تھا، جب پیغمبرِ اسلامؐ کے مقابلے میں قریش کو مسلسل ناکامیوںکا مُنہ دیکھنا پڑا۔ ابرہہ کے حملے کے بعد یہ اعتقاد اور قوی ہوگیا تھا اور لوگ یہ سمجھتے تھے کہ قریش خُدا کے مقبول بندےہیں۔ فتحِ مکّہ نے اس اعتقادکا رُخ بدل دیا۔ اب وہ سمجھ گئے کہ مسلمان مقبولِ الٰہی ہیں اور اب وہ اسلام اور مسلمانوںکے حامی بن گئے۔ اس کا اثر مکّے کے لوگوں تک محدود نہیں رہا، بلکہ آس پاس کے قبائل بھی آکر اسلام قبول کررہے تھے۔
جس کعبۃ اللہ کی بنیاد،ایک موحّد(حضرت ابراہیمؑ) نے اپنے بیٹے (حضرت اسمٰعیلؑ) کی شرکت سے جس اعلیٰ ترین مقصدکے لیے اُٹھائی تھی، وہ مقصد تقریباً سیکڑوں سال سے نگاہوں سے اوجھل تھا۔ اب 20 رمضان 8 ہجری سے پھر زندہ ہُوا، جن کو ناحق ان کے وطن سے بے وطن کیا گیا تھا،ان کو عزّت و شان سے واپس لایا گیا۔ فتحِ مکّہ کے پندرہ روز بعد تک آپؐ کا مکّے میں قیام رہا۔ مکّے کے اطراف میں جو بُت تھے، ان کو توڑنے کے لیے آپﷺ نے صحابہ کو بھیجا۔ بُتوںکے پرستاروںکو اس کی طاقت نہ ہوئی کہ اپنے کسی باطل معبودکو بچا سکتے۔