الحاج ابوالبرکات
’’صلحِ حدیبیہ‘‘ کے باعث عرب میںکسی قدرامن و سکون قائم ہوا تو بنو بکر نے پرانی تاریخ پھر تازہ کرنے کی ٹھانی اور بنو خزاعہ پر اچانک حملہ کر دیا۔بنو خزاعہ نے مجبور ہو کر حرم میں پناہ لی، اور اُن کے چالیس ناقہ سوار فریاد لے کر مدینے پہنچے۔ رسول اللہﷺ مسجدِ نبوی میں تشریف فرما تھے کہ وفد خزاعہ کے پیش رو عمرو بن سالم کی دردناک آواز سنائی دی۔’’اے خدا، میں محمد ﷺ کووہ معاہدہ یاد دلائوں گا، جوہمارے اور اُن کے درمیان ہوا ہے۔ اے پیغمبراللہ ہماری مدد فرمائے اوراللہ کے بندوں کو بلائیے، وہ سب مدد کے لیے جمع ہوں گے‘‘۔
قریش کی اس بدعہدی سے آپﷺ بہت افسردہ ہوئے۔ تاہم آپ ﷺنے ضبط فرمایا اور ایک قاصد کے ذریعے قریش کے پاس یہ تین شرطیں بھیجیں کہ اُن میں سے کوئی ایک منظور کر لو :مقتولین کا خوں بہا ادا کیا جائے۔قریش بنو بکر کی حمایت سے دست بردار ہو جائیں۔یا’’معاہدۂ حدیبیہ‘‘منقطع کردیا جائے۔قریش نے پہلے تو غصّے میں کہہ دیا کہ انہیں صرف تیسری شرط منظور ہے، مگر قاصد کے لَوٹنے کے بعد انہوں نے پھر سوچا اور اپنا ایک نمایندہ مدینے بھیجا کہ ’’صلحِ حدیبیہ‘‘ کی تجدید کر لی جائے،مگر قریش کی سابقہ بدعہدیوں، گستاخیوں اور شر انگیزیوں کے پیشِ نظر آنحضرتﷺ ملتفت نہ ہوئے اور مَکّے کی تیاریاں شروع کر دیں۔
دس ہزار مجاہدوں کی جمعیت میں آپﷺ نے مدینے سے کوچ فرمایا۔ راستے میں کچھ قبائل بھی آ کر شریک ہو گئے۔ قریش نے یہ خبر سنی، تو تحقیق کے لیے اپنے چند افراد کو بھیجا، جن میں ابوسفیان بھی تھے۔ اُن کو خیمۂ نبویؐ کے محافظ نے دیکھ لیا اور گرفتار کر کے بارگاہِ رسالتؐ میں پیش کیا۔ عفوِ محمدیؐ جذبۂ انتقام پر غالب آیا۔ آپﷺ نے انہیں معاف کر دیا۔
لشکرِ اسلام مکّے کی طرف بڑھا تو آنحضرتﷺ نے حضرت عبّاسؓ سے ارشاد فرمایا کہ ابو سفیان کو لے جا کر پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا کر دو کہ وہ اپنی آنکھوں سے اللہ کے سپاہیوں کا جلال دیکھ لیں۔ سب سے پہلے قبیلۂ غِفار کا پرچم نظر آیا، پھر دوسرے قبیلوں کے دستے آئے اور تکبیر کے نعرے لگاتے گزر گئے، سب کے بعد انصارؓ کا قبیلہ اِس ساز و سامان سے آیا کہ آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔ رسول اکرم ﷺ جب شہر میں داخل ہوئے، تو اِس طرح کہ سر جھکا ہُوا اور ہونٹوں پر ’’سورۃ الفتح‘‘ کی تلاوت جاری تھی۔ آپﷺ باطل خدائوں کے باطل مجسّموں کو لکڑی کی نوک سے ٹھوکے دیتے جاتے اور فرماتے جاتے تھے:’’حق آ گیا اور باطل چلا گیا اور اب باطل پھر نہ آئے گا‘‘۔عثمان بن ابی طلحہؓ خانۂ کعبہ کے موروثی کلید بردار تھے۔ آپﷺ نے اُن سے کنجی طلب کی۔ آج اُن کے لیے عجیب عبرت کا دن تھا۔ آغازِ نبوّت میں ایک بار آپﷺ نے اُن سے بیت اللہ کا دروازہ کھولنے کو کہا تھا، تو انہوں نے صاف انکار کر دیا تھا۔ اِس پر آپﷺ نے فرمایا تھا ’’نہ کھولو، مگر ایک دن تم دیکھو گے کہ یہ کنجی میرے ہاتھ میں ہو گی، اور میں جسے چاہوں گا، دوں گا‘‘۔ عثمان جھنجھلا کر بولے تھے۔ ’’کیا اُس دن سارے قریش ناکارہ اور ذلیل ہو جائیں گے؟‘‘۔ آپﷺ نے جواب دیا ’’نہیں، اُس دن وہ آج سے زیادہ معزز ہوں گے‘‘۔
عثمان خوف و ندامت سے عرق عرق ہو رہے تھے، لیکن جبینِ رحمت پر شکن تک نہ تھی۔ عثمان نے کنجی پیش کی۔ آپﷺ دروازہ کھول کر اندرونِ کعبہ تشریف لے گئے اور دو رکعت نمازِ شُکرانہ ادا فرمائی۔ نماز سے فارغ ہو کر آپﷺ اُن کے پاس تشریف لائے اور فرمایا:’’اے قومِ قریش، خدا نے تمہارا جاہلیت کا غرور اور نسلی افتخار توڑ دیا۔ سچ تو یہ ہے کہ تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم کی تخلیق مٹّی سے ہوئی تھی‘‘ اللہ فرماتا ہے:’’لوگو، میں نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہارے خاندان اور قبیلے بنائے کہ آپس میں ایک دوسرے سے پہچان لیے جائو، لیکن اللہ کے نزدیک زیادہ شریف وہ ہے، جو زیادہ پرہیزگار ہے۔ اللہ دانا اور واقف کار ہے‘‘۔
پھر رسول اللہﷺ نے کوہِ صفا پر چڑھ کر اسلام میں داخل ہونے والوں سے بیعت لی۔ حضرت عمر فاروقؓ ایک ایک شخص کو پیش کرتے جاتے اور آپﷺ بیعت لیتے جاتے تھے۔ہر شخص کو اقرار کرنا پڑتا تھا کہ میںنہ تو ذات میں اور نہ صفات میں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کروں گا، نہ اُس کے علاوہ کسی کی عبادت کروں گا اور نہ اُس کے سوا کسی سے مدد مانگوں گا۔ آپﷺ نے بیت اللہ شریف کا طواف فرمایا،حجر اسود کو بوسا دیا اور بیت اللہ شریف کے اطراف میں نصب بتوں کو دیکھ کر فرمایا۔ ’’حق آ گیا اور باطل مٹ گیا، بے شک باطل تو مٹنے کے لیے ہی تھا‘‘۔
چھڑی سے خانہ کعبہ کو تمام بتوں سے پاک و صاف فرما دیا۔ کعبے کے اندر بتوں کو بھی پاش پاش فرمایا اور بیت اللہ کے تمام گوشوں میں صدائے تکبیر بلند فرمائی۔ اس طرح تطہیر کعبہ کا یہ اختتامی مرحلہ طے پایا۔ اس کے بعد آپ ﷺنے کعبے کی کنجی حاصل کر کے عثمان بن طلحہؓ کو دے دی اور فرمایا کہ اب یہ ہمیشہ تمہارے پاس رہے گی۔آپﷺ بیت اللہ شریف میں تھے کہ اہل مکہ بہت بڑی تعداد میں جمع ہو گئے۔ آپﷺ نے اس موقع پر سب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ’’اللہ عزوجل کے سوا کوئی معبود نہیں،وہ تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا۔ اپنے بندے کی مدد فرمائی اور تنہا دشمن کے تمام جتھوں کو شکست دی،اے قریش کے لوگو! آج اللہ عزوجل نے تمہارے جاہلانہ گھمنڈ،غرور،نسب کے تفاخر کو خاک میں ملا دیا۔