دنیا چاند ہی پر کیوں نہ چلی جائے، عید کے چاند کی خوشی ناقابلِ بیان ہے۔ چمکیلا، روپہلا، باریک سا چاند بادلوں سے ڈھکے آسمان پر ہلکی سی جھلک دکھلاتا ہے اور مسلمان معاشرے میں خوشی کی اِک لہر سی دوڑ جاتی ہے۔ کچھ باقی رہ گیا، یا مَن پسند نہیں آیا تو بازار کا چکر، شیرخُرمے، کباب بنانے کی تیاریاں۔ سات سمندر پار رہنے والے عزیزوں، دوستوں، رشتے داروں کے فون، میسجز، عید کی مبارک بادیں۔ چاند رات سوتے جاگتے گزری، اور پھر عید کی نماز کی تیاریاں، نئے اُجلے کپڑے، خوشبو، دودھ میں بھیگی کھجوریں کھانا سنّت بھی روایت بھی اور نماز سے پہلے فطرے کی ادائیگی، بچّوں کے خوش رنگ لباس، پرس، چشمے، زیورات، لڑکیوں، بالیوں کی مہندی، چوڑی۔ نئے شادی شدہ جوڑوں کے لیے سُسرال میں پہلی عید کا اہتمام اور باہر سے پاکستان آ کر عید منانے والوں سے عید کی رونقیں دوبالا۔
یہ ساری خوشیاں، مسرّتیں اس نعمت کی شُکرگزاری کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ماہ اپنی عبادت کی توفیق دی۔ روزے رکھے گئے، تراویح ادا ہوئی، غریبوں، مساکین کا حق ادا کیا گیا۔ رمضان میں رات اور دِن کے بدلے ہوئے معمولات اور عبادات کے سخت شیڈول کے بعد عید کا دِن، درحقیقت اِک شان دار انعام ہی کا تو دِن ہے۔ فرشتے عیدگاہ جانے والے راستوں پر پھیل جاتے ہیں اور مومنین کی مغفرت کی دُعائیں کرتے ہیں۔بلاشبہ، عید مسلمانوں کے لیے خوشی کا دِن ہے۔ اللہ کے نبی ﷺ کے فرمان کے مطابق عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ مسلمانوں کے خاص تہوار ہیں۔لہٰذا عید کا دِن خوشی کے بَھرپور احساس کے ساتھ گزاریں۔ دوسروں کا خیال رکھیں، مگر خود کو بھی خُوب سنواریں۔ لذّتِ کام و دین سے لطف اندوز ہوں۔ عزیزواقارب سے ملنے کا اہتمام کریں، ساتھ ساتھ اس احساس کو بھی تازہ رکھیں کہ سال کے باقی گیارہ مہینوں میں بھی رب کے احکام بجا لانے ہیں اور رمضان میں کی گئی عبادات کا تسلسل برقرار رکھنا ہے کہ مومن کی پوری زندگی عبادت سے عبارت ہے۔