• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب بھی ورق الٹتا ہوں کسی نہ کسی مقتول کا خون ہاتھ پر لگ جاتا ہے۔ابھی ابھی سابق وفاقی سیکرٹری داخلہ اور صدر اسحاق کے دست راست روئیداد خان نے زندگی کی ڈائری کا ایک ورق، وقت کے کیمرے کے سامنے کیا اورخون کی بوندیں زوم کرتے ہوئے لینز پر پھیل گئیں۔ہوائی جہاز کے تیل میں جلتے ہوئے خون کی بو ابھی تک میرے اردگرد پھیلی ہوئی ہے۔انہوں نے پاکستان کے تیرہ سینئر جنرلز، امریکی جنرل، امریکی سفیر اوراور پاکستان کے کئی دیگراعلیٰ عہدے داران کے قتل کاالزام جنرل اسلم بیگ پر لگا دیا۔ نوے سالہ روئیداد خان زندگی کے اس حصے میں ہیں جب کسی وقت بھی اُس دنیا سے اُن کا بلاوا آسکتا ہے جہاں جنرل ضیاء اور صدر اسحاق موجو د ہیں۔شاید انہی کے سامنے شرمندہ ہونے کے خوف سے کچھ بولنے پر تیار ہوگئے ہیں یا ممکن ہے سپریم کورٹ کے فیصلے نے انہیں حوصلہ دے دیا ہے کہ دل کی بات زباں پر لائی جا سکتی ہے۔
آپریشن مڈ نائٹ جیکال کے دو نوں اہم ترین کردار ،جنرل ضیاء کی موت کے متعلق بھی بہت کچھ کہہ چکے ہیں ۔ میجر عامر نے اپنے انٹرویو میں کہا تھاکہ جنرل ضیاء کے قتل میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد ملوث تھی، موساد کا ایک مائیکل نامی ایجنٹ جو ایئر فورس میں تھا اس نے ایک چھوٹا سا گیجٹ جنرل ضیاء کے طیارے میں نصب کیاتھا جب طیارے کی تباہی کی خبر نشر ہوئی تو اس وقت وہ حراست میں تھا اورطیارے میں مرنے والے امریکیوں کا ذکر سن کر وہ رو پڑا تھا۔بریگیڈئر امتیاز نے اس سلسلے میں کہا تھاکہ”جنرل ضیاء کی ہلاکت میں امریکہ ملوث تھا اس کارروائی میں اندرونی عناصر کو بھی استعمال کیا گیا۔اب اس وقت کے سیکرٹری داخلہ روئیداد خان نے ان’ اندرونی عناصر‘ کوجنرل اسلم بیگ قرار دے دیاہے۔ لگتا ہے آج کل بیچارے جنرل اسلم بیگ کے ستارے کچھ گردش میں آئے ہوئے ہیں۔یقینا اس وقت وہ یہی سوچ رہے ہوں گے کہ وہ کیوں اپنا طیارہ لے کر بہاول پورگئے تھے اورجنرل ضیاء کے کہنے کے باوجود ان کے طیارے کی بجائے اپنے طیارے میں واپس آئے تھے ۔ اپنا طیارہ توامریکی سفیربھی لے کر گیا تھا مگر جنرل ضیاء نے اسے اپنے طیارے میں بٹھا لیاتھا۔روئیداد خان بتا رہے تھے اس امریکی سفیر کی بیوی آج تک جنرل اسلم بیگ سے ناراض ہیں ۔یقینا اسی لئے ناراض ہوگی کہ جنرل اسلم بیگ نے اس کے شوہرکو جنرل ضیاء کے طیارے میں بیٹھنے سے روکا کیوں نہیں۔اس وقت حکومتِ پاکستان نے امریکہ کو اس حادثہ کی تحقیقات کرنے کی اجازت نہیں دی تھی،بیچارہ امریکہ اپنے جنرل اور امریکی سفیر کی ہلاکت پر خاموشی سے اجازت کامنتظر رہا ،شایدوہ انتظار ابھی تک جاری ہو۔بہر حال اپنے طور پرامریکہ نے ایک تخریب کاری کی رپورٹ شائع کی تھی جسے واپس لے لیا گیا تھا۔
جنرل اسلم بیگ کا شمار عسکری دانشوروں میں ہوتا ہے انہوں نے اس دانش کے فروغ کے لئے ایک تھینک ٹینک بھی بنا رکھا ہے،پرسوں تک یہ سوچنے والے ٹینک چیف جسٹس آف پاکستان کے بارے میں فکرمند تھے،اب شایدان کے ذہن روئیدادخان پر مرتکز ہوں۔پاکستان کی فوجی تاریخ کایہ حیرت انگیز واقعہ بھی جنرل اسلم بیگ کے ساتھ منسلک ہے کہ ان کی ریٹائرمنٹ سے کچھ ماہ پہلے صدر اسحاق نے نئے آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ کی تقریری کا باقاعدہ فرمان جاری فرما دیا تھا کہتے ہیں کہ صدر اسحاق کو اس بات کی اطلاع مل گئی تھی کہ جنرل اسلم بیگ اُس تقریر کی تیاری کر رہے ہیں جو یہاں سے شروع ہوتی ہے ”میرے عزیز ہم وطنو“۔سنا ہے انہیں اس بات کا بھی بہت قلق رہا ہے کہ انہوں نے جنرل ضیاء کی ہلاکت کے بعد ٹیلی ویژن پر یہ جملہ کیوں نہیں کہا۔
جنرل ضیاء کی ہلاکت کے وقت بڑے بڑے ماتمی جلسے ہوئے تھے اس کے قبر پر پھول چڑھانے والے بھی بہت تھے۔چھاتی پر ہاتھ رکھ کر یہ کہنے والے سیاست دانوں کی بھی کوئی کمی نہیں تھی کہ میں جنرل ضیا کے مشن کو مکمل کروں گا۔مگر ایک آدھ سال میں مطلع صاف ہو گیا ۔جنرل ضیاء بلکہ کوئی فوجی صدر ایسا نہیں ہے کہ اب جس کی قبر پر کوئی جاتا ہو جس کے لئے کوئی یادگاری ٹکٹ جاری کیا گیا ہے ۔کسی سیاسی جماعت کے منشور میں اس کا مشن شامل ہو۔ کسی دیوار پر اس کی تصویر موجود ہو۔کسی کتب خانے میں اس کے ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریر رکھی گئی ہو۔کسی بڑے آدمی کے ڈرائنگ روم میں ان میں سے کسی کے ساتھ کھینچی ہوئی تصاویر آویزاں ہوں بلکہ ان کا ساتھ دینے والے قوم سے معافیاں مانگتے پھرتے ہیں ۔جنرل پرویز مشرف کو بھی اس وقت سارا منظر نامہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔اور مسلسل کوشش میں ہیں کہ کسی طرح اپنا مستقبل بہتر کرلیں مگر لگتا نہیں ہے کہ انہیں وطن میں دفن ہونا بھی نصیب ہو ۔باقی اللہ کارساز ہے ۔کچھ بھی کر سکتا ہے
تازہ ترین