ڈاکٹرحافظ حقانی میاں قادری
باب العلم،مولودِ کعبہ ،دامادِ پیمبر سیّدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ عظیم البرکات شخصیت ہیں، جن کی ولادت کعبہ شریف کے اندر ہوئی ۔یہ آپ کی ایسی فضیلت ہے کہ جس میں آپ کا کوئی شریک نہیں،اس بات کو ان کے فضائل ومناقب میںشامل کرتے ہوئے بے شمار علمانے اسے اپنی تصانیف کی زینت بنایا ہے ،اس حوالے سے سیدنا علی المرتضیٰ ؓکے بے شمار القاب میں سے ایک لقب مولودِ کعبہ بھی ہے جو کتابوںمیں وارد ہوا ہے ۔آپ کا نام علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب قریشی ،ہاشمی ہے۔ آپ مسلمانوں کے امیر ہیں، رسول اللہ ﷺ کے چچازاد بھائی اورآپ ﷺکے داماد ہیں۔ حضرت علی ؓ کی والدہ ماجدہ کا نام فاطمہ بنتِ اسد بن ہاشم بن عبدمناف ہے ۔یہ پہلی ہاشمیہ خاتون ہیں ،جنہوںنے نبی کریم ﷺ کے دستِ حق پرست پر اسلام قبول کیا اور مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی ،آپ ہی نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور ان کی قبر میں اترے۔حضرت علی ؓ کی کنیت ابو الحسن تھی اور اللہ کے رسول ﷺ نے انہیں ابوتراب کی کنیت عطا فرمائی جو آپ کوسب سے زیادہ پسند تھی ،آپ اللہ کے رسول ﷺ کے مواخاتی بھائی تھے۔
سیدنا علی مرتضیٰ ؓ آپ ﷺ کی چہیتی بیٹی سیدہ فاطمۃ الزہراء ؓکے شوہرنامدار اور آپ ﷺکے پیارے نواسوں سیدنا امام حسن ؓ اورسیدنا امام حسین ؓ کے والد گرامی ہیں۔ سیدناعلی مرتضیٰ ؓ پہلے ہاشمی ہیں، جن کے ماں اور باپ دونوںہاشمی ہیں۔آپ نبی کریم ﷺ کے دست حق پرست اسلام پرقبول کرنے والے پہلے کم سن نوجوان تھے۔جس کا اظہار انہوں نے اپنے اس شعر میں بھی کیا ہے ۔ترجمہ: میں نے تم سب سے پہلے اسلام کی طرف سبقت کی اور اس وقت میں بلوغت کی عمر کو بھی نہیں پہنچا تھا۔
سیدنا علی مرتضیٰ ؓ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہر معرکے میں خواہ وہ بدر واُحد ہو ں،بیعتِ رضوان ہو،خیبرو حنین یا طائف کا میدان ہو، تمام مواقع پر کفر وطاغوت سے برسر پیکا ر رہے ۔غزوۂ تبوک میں آپ شریک نہ ہو سکے کیوں کہ رسول اللہ ﷺ اس موقع پر آپ کو مدینہ منورہ میں اپنا جانشین بنا کر گئے تھے۔ تمام معرکوں میں مولیٰ علی ؓ نے کارہائے نمایاں رقم کیے اور بہت سے معرکوںمیں آپﷺ نے سیدنا علی المرتضیٰ ؓ کو علم عطا کیا ۔معرکہ اُحد میں حضرت علی ؓ کو سولہ زخم لگے تھے۔ آپ کی بہادری ،جنگی کارناموں اور دفاعی حکمت عملی کے واقعات سے اسلامی تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں ۔
حضرت ابن عباسؓفرماتے ہیں:علم کے دس حصے ہیں ،ان میںسے نو حصے حضرت علی ؓکو دیے گئے اور دسویں حصے میں بھی وہ لوگوں کے ساتھ شریک ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ جب کوئی بات حضرت علی ؓ سے ثابت ہوجاتی ہے تو ہم اسے چھوڑ کردوسری بات اختیار ہی نہیں کرتے ۔اکابر اور جید صحابہ کرامؓ مشکل و دقیق مسائل میں حضرت علی ؓکی طرف رجوع کرتے تھے ۔
حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :جس کا میں مولیٰ ہوں، علی بھی اس کامولیٰ ہے۔ حضرت بریدہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے جن لوگوں سے محبت کا حکم دیا ہے، ان میں سے ایک علیؓ بھی ہیں، یہ بات آپ ﷺنے تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔
حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں صحابہ ؓکے درمیان مواخات قائم فرمائی تو سیدنا علی المرتضیٰ ؓ بے ساختہ رو دیے اور کہا اے اللہ کے رسولﷺ، آپ ﷺنے صحابہ ؓکے درمیان مواخات کروائی، لیکن میری کسی کے ساتھ مواخات نہیں کرائی ،تو اس پر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تم دنیا اورآخرت میں میرے بھائی ہو۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت علیؓ کے بارے میںارشاد فرمایا جس نے علیؓ سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی ،اس نے رب العزت سے محبت کی او رجس نے علیؓ سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اورجس نے مجھ سے بغض رکھا، اس نے اللہ رب العزت سے بغض رکھا ۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے علیؓ ! اللہ تبار ک وتعالیٰ نے تمہیں ایک ایسی زینت اور خوب صورتی سے نوازا ہے کہ اس سے زیادہ کسی زینت سے اپنے بندوں کو نہیں نوازا ،وہ ان لوگوں کی زینت ہے جو اللہ کے نزدیک نیکو کار ہیں یعنی دنیا میں زہد وبے رغبتی اختیار کرنے والے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے تمہیں مساکین کی محبت عطا کی ہے ۔‘‘
امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ کے اصحاب میں سےعلی بن ابی طالب ؓ کے بے شمار فضائل و مناقب ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آب سابق الاسلام ہونے کے علاوہ آنحضرت ﷺ کے قرابت دار ہیں ۔ رشتے داری کے تعلق میںسب سے بڑھے ہوئے اور حقوق قرابت کو سب سے زیادہ پہچاننے والے تھے۔ پھر لطف ربانی نے نصرت فرمائی اور حضرت علی المرتضیٰ ؓکو تربیت کے لیے نبی کریم ﷺ کی پاک گود میں ڈال دیا گیا تو ان کا مرتبہ قرابت مزید دوبالا ہوگیا اور آپ کی شان میں اضافہ ہوگیا ۔پھر جب سیدہ فاطمہ الزہراء ؓکوآپ کے عقد میں دے دیا تو مزید فضیلت سیدنا علی المرتضیٰ ؓکے شامل حال ہوگئی ۔ پھر نبی کریم ﷺ کے فرامین متین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں وارد ہوئے ہیں جن کا مسلسل تذکرہ کیا جاتاہے ۔
زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جو شخص یہ چاہتا ہے کہ میری طرح زندگی گزارے اورمیری طرح جنت الخلد میں رہے جس کا میرے رب نے میرے مرنے کے بعد مجھ سے وعدہ کیا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ علی بن ابی طالبؓ کی اطاعت کرے کیوں کہ وہ تمہیں سید ھے راستے سے ہٹنے نہ دیں گےاور تمہیں گمراہی میںداخل نہ ہونے دیں گے ۔
حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم، منافقین کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی تکذیب ، نمازوں سے پیچھے رہ جانے اور ان کے علی بن ابی طالبؓ کے ساتھ بغض وعداوات سے پہچانتے تھے۔ اللہ کے رسول ﷺنے اپنی پاکیزہ بیٹی خاتون ِجنت سیدہ فاطمتہ الزہرا ء رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا تھا اے فاطمہ ! کیا تواس بات سے خوش نہیں ہے کہ اللہ عزوجل نے زمین والوں کو دیکھا ،دو آدمیوں کو برگزیدہ کیا ان دو میں سے ایک تیرے والد محمدﷺ ہیں اور دوسرے تیرے شوہر علیؓ ‘‘۔
سیدنا علی المرتضیٰ ؓ کے فضائل و مناقب کے حوالے سے سرکارِ دو جہاں ﷺ کے یہ فرامین و ارشادات آپ کی سیرت و کردار کا تاریخ ساز اور روشن باب ہیں۔