ڈاکٹر حافظ محمد ثانی
مولودِ کعبہ، نونہالانِ اسلام میں مسلمِ اوّل، دامادِ پیمبرؐ، فاتحِ خیبر، حیدرِکرّار، جوانانِ جنّت کے سردار، سیّدنا حسنؓ و حسینؓ کے والدِ گرامی، ہاشمی و مُطلبی، خاتونِ جنّت سیّدہ فاطمۃ الزہراءؓ کے شوہرِ نامدار، علومِ نبویؐ کے امین، عشرۂ مبشرہؓ کے بزم نشین، شیرِ خدا، ابو تراب سیّدنا علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی ذاتِ گرامی جرأت و شجاعت، ہمت وبہادری اور سیرت و کردار کا ایک قابلِ فخر اور روشن باب ہے۔ ’’بابُ العلم‘‘ سیّدنا علی مرتضیٰؓ کی سیرت کا ایک تاریخ ساز پہلو آپ کی جرأت و شجاعت، استقامت و پامردی اور بہادری و دلیری ہے۔ اس حوالے سے آپؓ اسلام کی پوری تاریخ میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ ہجرتِ مدینہ کے موقع پر رسالت مآبﷺ نے آپؓ کو مکے میں امین اور اپنا نائب مقرر فرمایا۔ حضرت علی مرتضیٰؓ کو اپنے فرشِ اطہر پر استراحت کی سعادت بخشی۔ شیرِخدا سیّدنا علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی عمر اس وقت بائیس، تئیس برس تھی۔ عالمِ شباب میں اپنی زندگی کو امتحان اور آزمائش میں ڈالنا اور قربانی کے لیے پیش کرنا بہادری اور جاں نثاری کا بے مثال کارنامہ ہے۔ رات بھر کاشانۂ نبویؐ پر اعدائے اسلام، کفار و مشرکین کا محاصرہ قائم رہا اور اس شدید خطرے کی حالت میں آپؓ نہایت اطمینان و سکون کے ساتھ محو استراحت رہے۔ صبح نمودار ہونے کے بعد جب کفار و مشرکین گھرکے اندر داخل ہوئے تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ شہنشاہِ دو عالم، سیّد عرب و عجم حضرت محمد ﷺ کا جاں نثار، حیدرِکرّارؓ اپنے آقاﷺ پر قربان ہونے کے لیے سربکف محو استراحت ہے۔
شیرِیزداں، شاہِ مرداں، شیرِ خدا سیّدنا علی مرتضیٰؓ نے عہدِ نبویؐ کے غزوات اور جنگی معرکوں میں جرأت و شجاعت کی تاریخ رقم کی۔ محرم 7ھ میں غزوۂ خیبر میں اہلِ ایمان کا سامنا اپنے روایتی حریف اور بدترین دشمن یہودیوں سے تھا۔ ’’خیبر‘‘ یہودیوں کا مرکز تھا، جس کی جنگی، عسکری اور جغرافیائی لحاظ سے بڑی اہمیت تھی۔ یہاں ان کے متعدد مضبوط قلعے تھے۔ یہ جزیرۃ العرب میں یہودیوں کے جنگی مورچے اور ان کی فوجی چھائونیاں تھیں۔خیبر شمال مشرق میں ستّر میل کے فاصلے پر تھا۔ اس غزوے میں مجاہدین کی کُل تعداد چودہ سو تھی۔ خیبر کے قلعوں میں سے ایک ایک فتح ہوتا رہا، لیکن ان کا مرکزی قلعہ ’’القموص‘‘ ناقابل تسخیر معلوم ہو رہا تھا۔ خیبر میں یہودیوں کے چھ قلعے تھے اور بیس ہزار آزمودہ کار جنگ جُو، جن کے پاس وافر سامان رسد و حرب موجود تھا۔ محاصرہ کئی دن جاری رہا، نتیجے میں یکے بعد دیگرے پانچ قلعے فتح ہوئے، مگر چھٹا قلعہ ’’القموص‘‘ فتح ہونے میں نہیں آرہا تھا۔ یہ بڑا مستحکم اور عسکری لحاظ سے بنیادی اہمیت کا حامل تھا۔ اس کا سردار ’’مرحب‘‘ عرب کے قابل ذکر اور نام ور بہادروں میں شمار ہوتا تھا۔ اس فوجی حصار اور مرکزی قلعے کی فتح میں تاخیر کو دیکھتے ہوئے رسالت مآب ﷺ نے فرمایا: ’’کل میں جنگ کا عَلم ایسے بہادر کو عطا کروں گا جس کے ہاتھ پر اللہ فتح عطا فرمائے گا، جسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت ہے اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری، باب غزوۂ خیبر)
یہ بہت اہم اعلان تھا۔ قلعۂ قموص کی فتح، خیبر پر اسلام اور مسلمانوں کے غلبے کی نوید اور فاتح خیبر کے لیے اللہ اور اس کے رسول مکرم ﷺ کی رضا و خوش نودی اور محبوبیت کی ابدی سند تھی۔ غزوۂ خیبر میں شریک ہر صحابی رسول ﷺ کی دلی تمنا اور خواہش یہی تھی کہ یہ اعزاز و افتخار اس کے حصے میں آئے، ہر ایک نے بے قراری اور اشتیاق کے عالم میں رات بسر کی۔ صبح ہوئی تو ہر فرد اس بات کا متمنی تھا کاش، اس فخر و شرف کا تاج اس کے سر پر ہو، لیکن روزِ اول سے یہ دولتِ گراں مایہ رسولِ محتشمﷺ کے شفیق و مربی چچا جناب ابو طالب کے نامور فرزند حیدرِکرار سیّدنا علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے لیے مقدر ہوچکی تھی۔ صبح نمودار ہوئی تو دیکھنے والوں نے دیکھا کہ امام الانبیاء، سیدالمرسلین، ہادی عالم حضرت محمد ﷺ کے اشارۂ ابرو پر اپنا سب کچھ لٹا دینے کا جذبہ رکھنے والے، آپؐ کی عقیدت و محبت میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے جاں نثار صحابۂ کرامؓ میں سے ہر فرد اپنا نام سننے کا آرزومند اور منتظر تھا کہ دانائے سُبل، فخرالرسل، مولائے کل ﷺ نے حیدرِکرار سیّدنا علی مرتضیٰؓ کا نام لیا۔ سیّدنا علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ اس موقع پر آشوبِ چشم میں مبتلا تھے، رسالت مآب ﷺ نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن لگایا، ان کے لیے دعا فرمائی، جس سے یہ تکلیف فوراً جاتی رہی۔ بعد ازاں آپﷺ نے جنگ کا عَلم حضرت علیؓ کو مرحمت فرمایا۔ اس موقع پر سیّدنا علی کرم اللہ وجہہ نے دریافت کیا کہ کیا میں اس وقت تک ان سے قتال کروں، جب تک کہ وہ ہماری طرح مسلمان نہ ہوجائیں؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم اپنی راہ پر گامزن ہوجائو اور ان کے مقابلے میں اتر کر انہیں اسلام کی دعوت دو، انہیں بتائو کہ اللہ تعالیٰ کا ان پر کیا حق ہے؟ بخدا، اگر تمہارے ہاتھ پر ایک فرد بھی ہدایت پاجائے تو یہ تمہارے لیے بڑی سے بڑی نعمت اور بے شمار سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔ (صحیح بخاری و مسلم، باب غزوۂ خیبر، کتاب المغازی، غزوۂ خیبر)
قموص کے اس قلعے میں جنگ خیبر کے آخری اور اختتامی مرحلے پر یہودیوں کا نامور سردار مرحب پورے جوش و خروش سے یہ رجز پڑھتا ہوا نکلا:۔
قد علمت خیبرانّی مرحب
خیبر مجھے جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں
شاکی السّلاح، بطلٌ مُجرّب
مسلح پوش ہوں، بہادر ہوں، تجربے کار ہوں
اذا الحُروبُ اقبلت تلھّب
جب کہ لڑائی کی آگ بھڑکتی ہے
شہِ مرداں، فاتحِ خیبر، حیدرکرار سیّدنا علی کرم اللہ وجہہ نے مرحب کے اس متکبرانہ رجز کا جواب دیتے ہوئے یہ اشعار پڑھے:
انا الّذی سمّتنی اُمّی حیدرۃ
میں وہ ہوں، جس کا نام میری ماں نے حیدر رکھا ہے
کلیث غابات کریۃ المنظرہ
جھاڑی کے شیر کی طرح مہیب اور ڈرائونا
او فیھم بالصاع کیل السندرۃ
میں دشمنوںکو نہایت سرعت کے ساتھ قتل کر دیتاہوں۔(صحیح بخاری، جلد دوم، باب غزوۃ ذی قرد)
یہ کہتے ہوئے جھپٹ کر آپ نے ایک ہی وار میں اس سورما کا کام تمام کردیا۔ آپ کے حملے سے اس کے سرکا آہنی خود اور سر دونوں ایک ساتھ کٹ گئے، اس کے جبڑے بھی ٹوٹ گئے، شیرِخداؓ کے اس جرأت مندانہ اقدام سے جنگِ خیبر اور اہلِ ایمان کی فتح مندی کا فیصلہ ہوگیا۔ شیرِ خدا سیّدنا علی مرتضیٰؓ نے قلعۂ خیبر کا دروازہ اپنے ہاتھوں پر اٹھا لیا تھا، جو اتنا وزنی تھا کہ چالیس افراد سے بھی نہیں اٹھتا تھا۔ یہ تاریخ ساز واقعہ آپ کی جرأت و شجاعت کا مظہر ہے۔
اس سے قبل اسلامی تاریخ کے دیگر معرکوں اور غزوات بالخصوص غزوۂ بدر، غزوۂ اُحد اور غزوۂ خندق میں آپؓ جرأت و شجاعت کی تاریخ رقم کر چکے تھے۔ بالخصوص غزوۂ خندق شوال 5ھ میں جسے غزوۂ احزاب کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔ اس غزوے میں آپؓ نے عمرو بن عبدوُد کا جو ایک ہزار شہ سواروں کے برابر سمجھا جاتا تھا۔ بڑی جرأت و پامردی سے مقابلہ کرتے ہوئے اسے واصل جہنم کیا۔ (ابنِ کثیر/البدایہ والنہایہ 4/105)
مشہور واقعہ ہے کہ ایک معرکے میں آپؓ اپنے حریف پر غالب آگئے۔ اس کے سینے پر چڑھ کر اسے قتل کرنا چاہتے تھے کہ اس نے زندگی سے مایوس ہوکر آپ کے چہرے پر تھوک دیا، اس پر آپؓ اس پر قدرت اور قابو پانے کے باوجود اسے چھوڑ کر الگ کھڑے ہوگئے، وہ آپ کے اس اقدام پر حیرت زدہ رہ گیا، اس نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا: اے علی! آپ مجھ پر مکمل طور پر قابو پاچکے تھے، پھر مجھے زندہ اور آزاد کیسے چھوڑ دیا؟ آپؓ نے فرمایا، پہلے میری جنگ تمہارے ساتھ محض اللہ کے لیے تھی، اب اگر میں تمہیں قتل کرتا تو اس میں ذاتی انتقام کا جذبہ شامل ہوتا، اس لیے میں نے تمہیں آزاد چھوڑ دیا۔ وہ شخص آپ کے اس جرأت مندانہ اقدام سے اس قدر متاثر ہوا کہ دائرۂ اسلام میں داخل ہوگیا۔
غزواتِ نبویؐ میں ’’غزوۂ ہوازن‘‘ خاص اہمیت رکھتا ہے، اس میں تمام قبائل عرب کی متحدہ طاقت مسلمانوں کے خلاف اُمڈ آئی تھی، لیکن اس غزوے میں بھی حیدرِ کرارؓ ہر موقع پر ممتاز رہے، رسول اللہ ﷺ نے جن اکابر صحابہؓ کو پرچم عنایت فرمائے، ان میں شیرِ خدا سیدنا علی مرتضیٰؓ بھی شامل تھے، اس اہم معرکے میں جو صحابۂ کرامؓ مردِ میدان اور ثابت قدم رہے، ان میں حضرت علیؓ کو اہم مقام حاصل ہے۔