محمد عبداللہ صدیقی
رسول کریم،رئوف الرحیم ﷺ کی طویل حدیث کا مختصر سا بڑا جامع جملہ جس میں ماہ صیام کی ساعتوں کا نہایت حکیمانہ طریقے پر تجزیہ کیا گیا اور یہ کمال بھی حق تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ ہی کو عطا فرمایا کہ مختصر الفاظ میں مضامین کے بڑے بڑے سمندر سمو دیے، آپ ﷺ نے خدائے بزرگ و برتر کی عطا کو بیان کرتے وقت ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ نے مجھے جوامع الکلم عطا فرمائے۔ پس یہ مختصر جملے بھی ان ہی پیغمبرانہ جوامع الکلم میں سے ہیں،وہ کلمات ہیں…اللہ کریم نے جو ماہ رمضان المبارک کو فضیلتیں بخشیں، ان میں یہ بھی کہ پہلے عشرے کو سرتاپا رحمت بنایا، دوسرا عشرہ گناہوں سے معافی کا ہے، جب کہ تیسرا عشرہ جہنم سے رہائی کا۔
٭ پہلا عشرہ ٔرحمت…:۔رحمت خداوندی کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے (روزے دار) بندوں پر عطا و بخشش۔ پس یہاں بھی رحمت کے معنی ہیں توفیق الٰہی اور نیکی کے جذبات پیدا کرنا، گویا کہ رمضان المبارک کا پہلا عشرہ اور پہلی دہائی رحمت خداوندی اور توفیق الٰہی کا عشرہ ہے،جس میں انسانوں (روزے دار مسلمانوں) کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے طاعت و بندگی اور ماہ رمضان المبارک کی ذمے داریوں کو پورا کرنے کی ہمت و توفیق عطا فرمائی جاتی ہے ۔اس عشرہ اول کی ابتدائی ساعتوں کی غیر معمولی تاثیر کا مشاہدہ ایک دو نے نہیں،ہر مسلمان کی آنکھ اور اس کے دل نے بارہا کیا ہے کہ رمضان شریف کے آتے ہی ہر گناہ گار اپنے گناہ پر ندامت محسوس کرتا ہے۔جس نے سال بھر نمازیں نہیں پڑھیں،وہ صرف پانچ وقت کی نہیں ،بلکہ دوسری اہم عبادات یعنی مثلاً تراویح کی رکعتیں باجماعت پڑھنے کی تیاری میں مصروف ہوجاتا ہے،جس نے سال بھر قرآن پاک کی تلاوت نہیں کی،وہ قرآن کریم کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کی تیاری میں مصروف ہے۔جو عیش و تنعم کی زندگی میں ایک منٹ کی بھوک اور پیاس برداشت نہیں کرسکتے تھے ،وہ روزے کے ذریعے صبح صادق سے غروب آفتاب تک اللہ تعالیٰ کی راہ میں بھوکا پیاسا رہنے کا عزم کرچکے ہیں۔ غور کرنے کی بات ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق نہیں تو اور کیا ہے؟ فرضیت روزہ کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے آسانی پیدا فرمانے کا وعدہ کیا کہ اللہ چاہتا ہے تم پر آسانی اور نہیں چاہتا تم پر دشواری‘‘۔جو رمضان المبارک کی ابتدائی ساعتوں سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے روزے داروں کو عطا کی جاتی ہے…
٭ دوسرا عشرہ گناہوں کی معافی کا:۔دوسرے دس دن اور راتوں کی خاصیت ارشاد فرمائی کہ یہ تاثیر بھی اول عشرہ کے ساتھ مربوط اور گہرا تعلق رکھتی ہے۔ یہ عشرہ گناہوں کی معافی اور مغفرت کا ہے اور ابتدائے رمضان شریف سے جو نیکیاں اور عبادتیں اللہ تعالیٰ کی توفیق اور مدد سے کی گئیں،ان کا قدرتی نتیجہ اور تاثیر یہ ہے کہ اس نے تمام گزشتہ گناہوں کو اپنے فضل و کرم اور رحمت سے معاف فرما دیا۔اسی لیے رسول اکرمﷺ نے خبر دی کہ رمضان شریف کا درمیانی عشرہ بخشش اور معافی کا ہے۔
٭ آخری عشرہ آتش جہنم سے رہائی:۔حضور اکرم ﷺ کے ارشاد عالی کا یہ تیسرا مختصر سا جملہ ہے جس کا ترجمہ ہے ’’اور تیسرا عشرہ (آخری دس روز) جہنم کی آگ سے آزادی کا عشرہ ہے۔‘‘گویا کہ اس آخری عشرے میں رمضان المبارک میں توفیق خداوندی سے کی ہوئی عبادات پر اجر و ثواب اور نجات کا اعلان کیا جاتا ہے۔ارشاد نبویﷺ کے تینوں جملے آپس میں نہایت حکیمانہ طریقے پر مربوط اور مرتب ہیں، کیوںکہ ابتدا میں رحمت خداوندی اور توفیق الٰہی عطا کی جاتی ہے جس کا قدرتی نتیجہ مغفرت اور خطا پوشی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے اور توفیق عبات (اور دوسرے عشرے میں) عطائے مغفرت… دونوں کا لازمی اور قدرتی نتیجہ آتش دوزخ سے نجات پانے کا اعلان اور جہنم سے بری ہونے کی خوش خبری ہے۔ پس…رمضان شریف کے تینوں عشروں اور دہائیوں کی جو خاصیت و تاثیر بیان کی گئی۔ وہ بالکل حکیمانہ ترتیب کے مطابق ہی بیان کی گئی۔یعنی رحمت پہلے عشرے سے متعلق ہے۔ مغفرت درمیانی عشرے سے اور آتش جہنم سے رہائی اور گلوخلاصی کا اعلان آخری عشرے سے وابستہ ہے۔ اس تفصیل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پہلے دو عشرے محنت و ریاضت اور کارکردگی کے ہیں اور آخری عشرہ صلہ یابی اور اجر پانے کا ہے۔ اسی لیے آخری عشرے کی فضیلت دوسرے عشروں کی بہ نسبت بہت زیادہ ہے اور طاعت و بندگی کے لحاظ سے بھی اس آخری عشرے کا درجہ بہت اونچا اور بلند ہے، کیوںکہ رمضان شریف کے پہلے دو عشروں میں غروب آفتاب سے انتہائے سحر تک خورو نوش اور ازدواجی تعلق کی اجازت دی گئی اور تیسرا عشرہ جس میں معتکفین کے لیے خلوت نشینی اور اعتکاف کی نئی عبادت شروع ہوتی ہے،اس میں غروب آفتاب سے خور و نوش کی اجازت ہے، لیکن ازدواجی تعلق کو ممنوع قرار دے دیا گیا اور یہ ممانعت صرف معتکفین حضرات کے لیے ہے۔