ٹھٹھہ جسے کئی بار لوٹا گیا اور تین بار غیر ملکی حملہ آوروں نے آگ لگائی ۔ پورچوگیز، ارغونوں نے اور ایک بار اکبر کی فوجوں نے۔ ٹھٹھہ علم وادب، کاروبار، سیاست، حب الوطنی، حسن و عشق، بہادری کا گہوارہ۔ ٹھٹھہ دیسی پردیسی حکمرانوں، سپاہیوں، درویشوں، عالموں، عاشقوں، ہنرمندوں شاعروں کی آخری آرام گاہوں کا مسکن۔ ایک شہر موت۔ ٹھٹھہ کبھی سندھ کا دمشق و بغداد ہوا کرتا تھا۔ ایک پرفسوں پر اسرار اندر اسرار شہر۔ اسی شہر کے حسین و جمیل صراف لڑکے ابھیچند پر صوفی سرمد شہید فنا فی الیار ہو بیٹھا تھا۔ ٹھٹھہ سندھی حکمرانوںکا دارالحکومت جہاں سے سندھ پر سمہ حکمران جام نظام نے بھی حکومت کی اور اسکے سپاہ سالار دولہا دریا خان نے بھی۔ یہاںسندھ کا سب سے بڑا سورما دفن ہے۔ جام نندو کا مدفن۔ یہیں پر سکندر اعظم کے جہاز ڈبودئیے گئے تھے۔ یہیں پر شاہ فیروز تغلق پلا مچھلی سے افطاری کر کے بیمار ہو کر مرا تھا۔ سندھ میں نقشبندی صوفیا کا شروعاتی مسکن۔
’’پرتگال میں رہنے والو
جوئے خون میں بہنے والو
برسوں بیتے تم نے جب ٹھٹھہ میں آگ لگائی تھی
اور میرے لب پہ دہائی تھی‘‘
سندھی شاعر شیخ ایاز نے انگولا میں پرتگالیوں کے نکالے جانے پر نظم لکھی تھی۔ اس میں لکھا تھا کہ انگولا والے میرے ٹھٹھہ کے جلائے جانے کا بدلہ تم سے اب لے رہے ہیں۔ ٹھٹھہ ایک ہی وقت سندھ کے سیاسی شعور اور بے شعوری کی آماجگاہ ہے۔ یہ ضلع سندھ اور پاکستان کے ایک بڑے سیاسی دماغ اور جینئس رہنما رسول بخش پلیجو کا آبائی ضلع بھی ہے۔ درویش انقلابی شاعر سیف بنوی کا بھی۔ لیکن ٹھٹھہ کے لوگوں نے رسول بخش پلیجو کو کبھی انتخابات میں کامیاب نہیں کیا۔ اسی لیے کہا گیا تھا کہ پیغمبروں کو بھی محلے والے نہیں جانتے۔ ویسے ٹھٹھہ قادر مگسی کا آبائی شہر بھی ہے جو خود ابھی آصف علی زرداری کے مقابلے میں نوابشاہ کے حلقے سے انتخاب لڑنے والا ہے۔ درس کے شربت اور عقیلیوں کا شہر۔ اس شہر میں ڈاکٹر ممتاز عقیلی کی کچہریاں (مجلسیں) مجھے نہیں بھولتیں۔ میرا دوست غفور سومرو جس کا جنم تو خیرپور میرس میں ہوا جسے شاید کوئی نہیں جانتا نے اسی شہر کو اپنا شہر بنالیا۔ میں نے ٹھٹھہ سیمنٹ فیکٹری کو غفور سومرو کی وجہ سے جانا۔ جہاں مزدوروں کی یونین میں محمد خان احمدانی شاعر حیدر شاہ ہوا کرتے جسے اب خود بھی بھول گیا ہوگا کہ وہ کبھی شاعر تھا۔ اور اس شہر کا شاعر صدیق پکھیڑو۔ جئے سندھ کا مقتول رہنما شفی کرنانی۔ ٹھٹھہ سندھ کے کئی سیاستدانوں کا انتخابی واٹر لو بھی ہے۔ پلیجو خاندان ٹھٹھہ سے سیاست میں ابھرا۔ اختر بلوچ زرینہ بلوچ کی بیٹی اور سسی پلیجو کی اماں ہیں۔ اختر نے "قیدیانی (اسیرہ) کی ڈائری" کتاب لکھی جب ساٹھ کی دہائی میں بھوک ہڑتال کرنے پر جیل گئی تھیں۔ بھوک ہڑتالیوں کا مطالبہ تھا ووٹر فہرستیں سندھی زبان میں بنائی جائیں۔ لیکن منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔ اسی شہر کا نواز خشک یگانہ سیاسی و سماجی کارکن جسکا وڈیروں سیدوں نے نوابی جلوس نکال دیا۔ اس شہر میں ایک نسل کو سومار جنڑی نام کا مجذوب یاد ہوگا جو زرداری اور بینظیر کے یقین کردہ جناتی بابا کا والد تھا۔ آگے سومار جنڑی ہوتا تھا اور اسکے پیچھے شہر کے بچے اور لوگ۔ وہ ہوا میں ہاتھ اچھالتا اور مٹھائی یا ٹافیاں مٹھی میں بھر کر بچوں اور لوگوں کو کھلاتا۔ سومار جنڑی کیلے مشہور تھا کہ جنات اسکے قبضے میں ہیں۔ اسی بات کا امتحان لینے سندھ کے ایک سینئر صحافی ٹھٹھہ آکر سومار جنڑی سے ملے۔ اسے آزمانے کو اس سے کہا ’’سومار اگر واقعی موکل تمہارے قبضے میں ہیں تو آج کے ’’ڈان‘‘ کا شمارہ اپنے جنات سے منگوا دو‘‘ کہتے ہیں سومار جنڑی نے ہاتھ ہوا میں اچھالا کہ جیسے کوئی چیز پکڑ رہا ہو۔ اور آنکھ جھپکنے جتنے وقفے میں اسکے ہاتھ میں اس دن کے انگریزی اخبار کا شمارہ تھا جو ویسے تو ان دنوں مواصلات کے اتنے ذریعے نہ ہونے پر شام گئے یا دوسرے دن ٹھٹھہ پہنچتا تھا۔ سومار جنڑی کے انتقال کے بعد اسکا بیٹا با المعروف جناتی بابا اسکا جا نشیں بنا اور مقامی لوگوں کے بقول ترکے میں جن بھی اسکے قبضے میں بتائے گئے۔ یہ بات جب اسوقت کی وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے کانوں میںپڑی تو جناتی بابا کو انہوں نے دعوت دیکر وزیر اعظم ہائوس بلوالیا۔ پا برہنہ جناتی بابا ہوائی جہاز میں اسلام آباد پہنچا اور وہ کبھی وزیر اعظم ہائوس تو کبھی بلاول ہائوس میں چلے پڑھتا بتایا جاتا۔
ٹھٹھہ میں زرداری کا برادر نسبتی اسوقت کا ڈی سی پیچوہو جناتی بابا کے پروٹوکول میں ہوتا۔پھر جناتی بابا نے خدمت خلق کا بیڑا اٹھایا اور اپنی ’’جناتی بابا فائونڈیشن ‘‘بنالی جسکے تحت ایمبولینس سروس کی خدمات شہر کو مہیا کیں۔ جناتی بابا کی معتقد وزیر اعظم اور انکے شوہر تھے۔ اقتدار کے ایک سورج کو دو سائے ہوتے ہیں۔ ڈوبتے دیر نہیں کرتا۔
سولہویں صدی میں جب قندھار سے آکر شاہ بیگ ارغون نے ٹھٹھہ فتح کیا تو اسکے ساتھ دو بھائی شکراللہ شیرازی اور سید جامد شیرازی بھی آئے تھے جو اٖصل میں ایران کے تھے۔ ان شیرازی بزرگوں میں کچھ خطاط تھے تو کچھ قصہ خوان جنکی قصہ خانی کے چرچے ایرانی صفوی دربار میں بھی تھے ۔ خاص طورپر انکی فردوسی کے شاہنامہ خوانی۔ ان شیرازیوں کو ارغونوں نے ٹھٹھہ کا نواب بنایا جنکی تاجپوشی کا آج بھی سالانہ جلوس ٹھٹھہ شہر میں نکلتا ہے جسے نوابی جلوس کہا جاتا ہے۔ لیکن شیرازیوں نے ٹھٹھہ کا جلوس نکالا ہوا ہے۔ جن تو سونار جنڑی اور اسکے جا نشیں جناتی بابا کے قبضے میں تھے۔ لیکن ٹھٹھہ کے اکثر ووٹر عوام شیرازیوں کے قبضے میں بتائے جاتے ہیں۔ بغیر کسی زور یا پھر زبردستی کے بھی ان شیرازیوں کو اپنے حلقے کے دو ہزار سے زائد ووٹروں کے نام بزبان یاد ہوتے ہیں۔ یہ جاگیردار شیرازی اس پارٹی میں ہوتے ہیں جو اقتدار اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہوتی ہے۔ یہ کئی دفعہ پی پی پی اور نواز شریف کی پارٹیوں میں آور جاوت رہے ہیں۔ انیس سو نوے کے انتخابات میں دھاندلیوں کا اعتراف تو اسوقت کے وزیر اعظم غلام مصطفیٰ جتوئی نے بھی کیا تھا۔ بینظیر کی اسوقت پی ڈی اے (پاکستان ڈیموکریٹک الائنس ) کی جو دستاویز انتخابی دھاندلیوں کے بارے ’’انتخابات کیسے چرائے گئے‘‘ خورشید محمود قصوری نے جاری کیا تھا اس میں ٹھٹھہ کے شیرازی برادران کے بھی نام شامل تھے۔ پھر شیرازی سابق صدر غلام اسحاق کے نواز شریف کے ساتھ تنازعے میں ایم این ایز کی اس پہلی کھیپ میں شامل تھے جنہوں نے نواز شریف سے وفاداریاں تبدیل کرکے صدارتی کیمپ میں شمولیت اختیار کی۔ اب کل پرسوں ہم نے دیکھا کہ ٹھٹھہ کے ان بے تاج بادشاہ شیرازیوں نے بلاول ہائوس کے مغلیہ دربار فلم کی سیٹنگ نما بیٹھک کمرے میں آصف علی زرداری اور فریال تالپور سے ملاقات کر کے نہ جانے کونسی ویں بار پھر پی پی پی میں شرکت کی ہے۔ آجکل سندھ سمیت ملک میں انتخابات کا موسم ہے اور لوٹوں کی بہار آئی ہوئی ہے۔