(گزشتہ سے پیوستہ)
پارلیمانی جمہوریت کی بنیاد یعنی پارلیمنٹ کو بے وقعت اور کمزور بنا کر اس کے تمام اختیارات اپنی ذات میں مجتمع کرنے والی سیاسی قیادت ملکی معیشت پر ذاتی معیشت، عوامی مفادات کے بجائے ذاتی مفادات اور اچھی حکومت کی جگہ خاندان کی حکومت کو ترجیح دے کر وقتی طور پر خود کو بہت توانا محسوس کرتی ہے، لیکن آشیانہ جو شاخِ نازک پر ہو زیادہ دیر ٹکتا نہیں۔ قومی و ملکی مفادات سے بے اعتنائی، بنیادی عوامی سہولیات کی فراہمی میں ناکامی اور حقیقی عوامی حمایت سے محرومی جب ایک حد سے بڑھ جاتی ہے تو یہ سیاسی قوتیں حقیقی معنوں میں کمزور ہونے لگتی ہیں، جس کا حل تو یہ ہے کہ اپنی اصلاح کی جائے لیکن یہاں حال یہ ہے کہ یہ سیاسی قائدین ہر اس ادارے کو کمزور کرنے کے در پے ہو جاتے ہیں، جو ان کی خواہش کے آگے سرنگوں نہ ہو۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ سیاسی طاقتیں سب سے پہلے ملک کے اُن دو اہم ترین اداروں سے ٹکرائو میں آ جاتی ہیں، جن سے عوام کا احترام، اعتماد اور محبت کا رشتہ ہونا ملکی مفاد کا متقاضی ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے حوالے سے بات کی جائے تو بلاشبہ اس ادارے نے حالات اور ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے خود اصلاحی (Self Correction) پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے بہترین اقدامات کئے ہیں۔ اس معتبر ترین ادارے نے آئین کی روح کے مطابق منصفی کا حق ادا کرنے کیلئے خود کو حکومت سمیت تمام قوتوں کی گرفت سے آزاد کرانے کی مثال قائم کر دی ہے۔ آج حکومت یا کوئی اور بااثر ادارہ یا فرد ججز کی تعیناتی سے لے کر کیسز کی شنوائی تک کسی قسم کے معاملات میں مداخلت کا اختیار نہیں رکھتا۔ ججز کی تعیناتی اور انکی پروموشن کا طریقہ کار طے شدہ ہے، یعنی کس جج نے کس وقت کس عہدہ پر آنا ہے، سب کچھ اندرونی نظام کے تحت طے ہو چکا ہے، جسے کوئی بیرونی طاقت بدل سکتی ہے نہ خود اعلیٰ عدلیہ۔ اور یہ خود اصلاحی (Self Correction) اعلیٰ عدلیہ کا خالصتاً ادارہ جاتی اقدام ہے، جسے آج ہر سطح پر سراہا جاتا ہے، تاہم عدالتی نظام اور عوام کو انصاف کی بلا تاخیر فراہمی جیسے معاملات میں مزید بہتری کیلئےقانون سازی اور حکومتی تعاون وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ دوسرا اہم ترین ریاستی ادارہ فوج ہے، جس کا مطالعہ آج ہر خاص و عام کیلئے انتہائی دلچسپ بن چکا ہے۔ متوسط طبقہ پر مشتمل یہ وہ ادارہ ہے، جس میں شمولیت کیلئے میرٹ کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ یہاں ترقیوں اور تعیناتیوں کا ایک مربوط نظام ہے، جس کا بنیادی نکتہ صرف اور صرف میرٹ ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں جنرل کا بیٹا بھلے ہی جنرل نہ بنے لیکن اپنی قابلیت کے بل بوتے پر ایک سپاہی کا بیٹا جنرل بن سکتا ہے۔ ادارے کے معاملات میں کسی بھی قسم کی بیرونی یا اندرونی مداخلت کی گنجائش نہیں، تاہم چیف آف آرمی اسٹاف کی تعیناتی کا اختیار ملک کے چیف ایگزیکٹو کے پاس ہے اور اسی اختیار کی بنا پر میرٹ سے ہٹ کر فیصلے کئے جاتے رہے ہیں، لیکن ادارے کا بے لچک اور منظم نظام ایسا ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے کوئی بھی افسر جب چیف آف آرمی اسٹاف کا تاج سر پر سجاتا ہے تو وہ کسی فرد واحد کی خواہشات کی تکمیل کے بجائے اپنے ادارے اور ملکی تحفظ کی سوچ کو ہی پروان چڑھاتا ہے۔ تاہم یہ حقیقت بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ فوج کتنی ہی مضبوط و منظم اور اعلیٰ عدلیہ انصاف و قانون کی بالادستی کیلئے کتنا ہی ذمہ دارانہ کردار کیوں نہ ادا کر رہی ہو وہ حقیقی جمہوری طریقہ سے وجود میں آنے والی پارلیمنٹ اور حکومت کا متبادل نہیں ہو سکتی، کیونکہ آئین کی خالق اور محافظ پارلیمنٹ سب سے بالادست ادارہ ہے اور باقی تمام ادارے آئین کے تحت کام کرنے کے مجاز اور پابند ہیں۔
آج جمہوریت کو لاحق چیلنجز اس امر کے متقاضی ہیں کہ ملک میں جمہوریت کا احیا ہو، منتخب افراد کے حق حکمرانی کو آئین کی حکمرانی اور پارلیمنٹ کو اکثریتی پارٹی کی قیادت کے تحفظ کے بجائے آئین کا محافظ ادارہ بنایا جائے۔ لمحہ موجود میں وطن عزیز کے جمہوری نظام کو جن خطرات کا سامنا ہے، اسکی ایک بڑی وجہ ہماری سیاسی و جمہوری پارٹیوں کا غیر جمہوری رویہ ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت، مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور انکی اتحادی جماعتوں کو کرپٹ اور نااہل سمجھتی ہے۔ وہ انہیں ملکی معیشت کی تباہی اور عوام کی مشکلات کا ذمہ دار قرار دیتی ہے۔ تحریک انصاف کے مطابق مخالف سیاسی پارٹیوں کی قیادت ملک کو کبھی اچھی حکومت نہیں دے سکی، یہ لوٹ مار میں ملوث ہے، ان کا پیسہ اور جائیدادیں ملک سے باہر ہیں، عام آدمی کی زندگی میں بہتری لانے سے ان کا کوئی تعلق نہیں، لہٰذا ملک کا لوٹا پیسہ واپس لانے سے عوام خوشحال اور لوٹ مار کرنیوالوں کو جیلوں میں بھجوانے سے ملک میں میرٹ کا بول بالا ہو گا۔ دوسری طرف مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور اتحادیوں کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کرپٹ، بداخلاق افراد اور پارٹیاں بدلنے والوں کا ٹولہ ہے، جس نے اپنی تخریبی کارروائیوں یعنی دھرنا سیاست کے ذریعے نہ صرف جمہوری اقدار و سیاسی روایات بلکہ ملکی معیشت کو بھی نقصان پہنچایا۔ تحریک انصاف نے عدم برداشت کا کلچر متعارف کروا کے ملک میں افراتفری کے حالات پیدا کئے اور یہ سب کچھ اس نے اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی سے کیا، جس میں عدلیہ بھی ان کا ساتھ دے رہی ہے۔ تحریک انصاف ’’کسی‘‘ اور کے ایجنڈے پر کام کرکے ملک میں جمہوریت کو پابند سلاسل کرکے آمریت کا راستہ ہموار کر رہی ہے۔ یوں ان الزام تراشیوں، بداعتمادی اور نفرت کے باعث سیاسی پارٹیوں، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ میں ٹکرائو بڑھتا جا رہا ہے۔ لہٰذا سیاسی عدم برداشت اور بے لچک رویے خدانخواستہ ملک کو کسی سانحے سے دوچار کر سکتے ہیں۔ تو کیا اس کا حل پھر جمہوری عمل کو سبوتاژ کرکے سیاسی پارٹیوں کو بے دخل کرنا ہے؟ نہیں… ہرگز نہیں، کیونکہ سیاسی پارٹیاں اور ان کی قیادت ایک طویل جدوجہد کا ثمر ہیں، انہیں یوں مکھن سے بال کی مانند نہیں نکالا جا سکتا۔ پیپلز پارٹی کے 50سالہ سفر میں شہداء کا لہو شامل ہے۔ مسلم لیگ ن نے اڑھائی دہائیوں پر مشتمل اپنی تاریخ میں خود کو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں متعارف کروایا، بہت سی آزمائشیں اور سختیاں برداشت کیں۔ تحریک انصاف نے ملک کے عوام کو ایک نئی آپشن کی سہولت فراہم کی، اس کی قیادت کے ساتھ کرکٹ ورلڈ کپ، شوکت خانم کینسر اسپتال اور نمل یونیورسٹی جیسے کارنامے منسلک ہیں لہٰذا سیاسی قیادت یا سیاسی پارٹیوں کو عدالتی فیصلے یا کسی اور غیر جمہوری اقدام کے ذریعے سیاست سے مکمل طور پر بے دخل نہیں کیا جا سکتا، لیکن اس کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا یہ ملک شخصی یا خاندانی آمریت کے تسلسل کے ذریعے آگے بڑھ سکتا ہے؟ جس کا جواب بہرصورت نفی میں ہے، تو پھر اس مشکل سے نکلنے کے لئے ہمارے اہل علم و فکر و دانش، میڈیا اور عوام کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ایسے اقدامات تجویز کرنا ہوں گے، جن سے ملک کو آگے لے جانے میں مدد مل سکے، جمہوریت کمزور ہونے کے بجائے مستحکم ہوتے ہوئے اپنی معراج پا لے، سیاسی پارٹیاں اور ان کے قائدین کو فنا کرنے کے بجائے ان کی اصلاح ممکن ہو، سیاسی پارٹیاں شخصی یا خاندانی آمریت کے دوام کا ذریعہ بننے کے بجائے جمہوری ادارے بن سکیں، پارٹیوں میں جمہوری عمل کے ذریعے قیادت تبدیل ہو، پارلیمنٹ اور دیگر جمہوری اداروں میں اہل افراد اور تمام طبقات کی نمائندگی ہو، سیاسی نظام کی ان خامیوں پر قابو پایا جائے، جن کی وجہ سے سیاست صرف دولت مندوں کا مشغلہ بن کر رہ گئی ہے، پارلیمنٹ وہ تمام کام کرے، جس کے لئے اسے بنایا گیا تاکہ ادارے مضبوط اور ملک ترقی کر سکے۔