امتیاز راشد
پنجاب اس وقت شدید گرمی کے ساتھ ساتھ گرم سیاست کی بھی لپیٹ میں ہے۔ اور ملکی سیاست کا مرکز بنا ہوا ہے یہاں ہونے والے سیاسی فیصلے پورے ملک کی سیاست پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ سے کاغذات نامزدگی کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے بعد اب سیاسی سرگرمیاں اپنے عروج کی طرف بڑھتی جارہی ہیں۔ امیدواروں کی طرف سے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا سلسلہ جاری ہے۔ امیدواروں میں کافی حد تک سیاسی جوش و جذبہ دیکھنے میں آرہا ہے اور ہر امیدوار پرامید ہے کہ الیکشن 25جولائی کو ہوجائیں گے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ بعض عناصر غیر جمہوری بیان دے کر انتخابات کے انعقاد کو مشکوک بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں، شاہد ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکے اور اس سلسلے میں کسی کی دال گلتے نظر نہیں آرہی۔ تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی سمیت دیگر سیاسی اور مذہبی جماعتیں اپنے اپنے امیدواروں کے ناموں کو فائنل کرنے پر لگی ہوئی ہیں سب سے زیادہ درخواستیں مسلم لیگ(ن) کو موصول ہوئی ہیں۔ ہر درخواست گزار( ن) کا ٹکٹ لینے کا خواہشمند نظر آرہا ہے اور اس طرح مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی بورڈ کا بھی امتحان شروع ہوچکا ہے کہ وہ کس امیدوار کو صحیح سمجھتے ہوئے ٹکٹ دینے کی سفارش کرتا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ اس بارے حتمی فیصلہ مسلم لیگ کے قائد میاں نواز شریف کا ہی ہوگا۔ ٹکٹوں کے مسئلے پر جس طرح تحریک انصاف کچھ پریشان سی لگ رہی ہے وہ کیفیت (ن) کی نہیں ہے۔ (ن) اب آئندہ بڑی سے بڑی قربانی دینے والے امیدوار کو ٹکٹ دینے کے حق میں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو ہاتھ لگ چکے ہیں متعدد ارکان نے (ن) کو چھوڑ کر دوسری جماعتوں کی طرف جو رخ کرلیا ہے۔ اب( ن) والے اس سلسلے میں چوکس ہوچکے ہیں وہ شاید اب ایک سوراخ سے دوسری مرتبہ ڈسنے والی بات شروع ہی نہ کریں، اس کے پاس ہر قسم کی قربانی دینے والے امیدواروں کی کمی نہیں ہے۔ وہ اب قربان ہونے والوں کو ہی ٹکٹیں دے گی۔ تحریک انصاف ٹکٹیں دینے کے عمل پر آسانی سے کامیاب اور سرخرو نہ ہوسکے گی، اسی دوران کافی اتار چڑھائو آئیں گے اور اس اتار چڑھائو کے نتیجے میں تحریک میں اختلافات پیدا ہوسکتے ہیں جن کے کچھ آثار نظر آرہے ہیں لیکن عمران خان مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے بارے میں روزانہ کہیں نہ کہیں سے اس قسم کی خبریں پڑھنے اور سننے میں آرہی ہیں کہ اس جماعت کو امیدوار ہی نہیں مل رہے ، امیدواروں کی طرف سے درخواستوں کی تعداد بھی کم ہے اور جس کو بھی الیکشن لڑنے کا کہا جارہا ہے وہ ابھی تک تو کنی کترا رہا ہے لیکن ان حالات کے باوجود پیپلز پارٹی پنجاب میں اپنے امیدوار کھڑے کرے گی جن کو اللہ کے آسرا پر میدان میں چھوڑ دیا جائے گا، پیپلز پارٹی کے اگر ہارنے والے امیدواروں کی تعداد بہت ہوگئی تو اسے یہ کہنے کا شاہد موقع مل جائے کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے۔
دوسری طرف پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ کی تقرری کا مسئلہ سیاسی مذاق ہی بنا رہا اس سلسلے میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا جس سے پتہ چلتا تھا کہ حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے نگران وزیر اعلیٰ کے لئے زیادہ ہوم ورک نہیں کیا گیا تھا ورنہ یہ کام دنوں کا نہیں منٹوں کا تھا، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اعتماد کا فقدان نظر آیا پھر یہ سننے میں بھی آیا کہ نگران وزیر اعلیٰ کی تعیناتی کے لئے ایک جگہ سے ڈوری ہلے گی اور اس کے ساتھ پنجاب میں نگران وزیر اعلیٰ آجائے گا۔ جلد نگران وزیر اعلیٰ آنے کا مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ اس نے پھر اپنی کابینہ بھی بنانا ہوتی ہے اس میں بھی کچھ دن لگتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ صوبے کو بھی چلانا ہوتا ہے۔ الیکشن کی گہما گہمی عیدالفطر کے بعد شروع ہوگی۔ جماعتوں کی طرف سے امیدوار فائنل ہوچکے ہوں گے وہ کاغذات نامزدگی بھی جمع کراچکے ہوں گے، انتخابی نشان بھی انہیں الاٹ ہوچکا ہوگا، اب تو صرف یہ رہ جائے گا کہ وہ کارنر میٹنگوں کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے جلسے اور اجلاس بھی کریں سو یہ تمام کام اب جلد شروع ہوجائیں گے، جن امیدواروں کو یقین ہے کہ انہیں جماعت کی طرف سے ٹکٹ مل جائے گا، انہوں نے تو افطار پارٹیوں کا سہارا لے لیا وہ خود بھی افطاری کرارہے ہیں اور دوسروں کی دعوت پر بھی جارہے ہیں لیکن ابھی بڑے بڑے معرکے سامنے آئیں گے، جب میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، عمران خان، پرویز الٰہی، بلاول بھٹو زرداری سمیت مذہبی جماعتوں کے قائدین علامہ خادم حسین رضوی، علامہ اشرف آصف جلال، حافظ زبیر احمد ظہیر اور دیگر سیاسی قائدین کھلے میدانوں میں اپنے جلسے کرکے اپنی اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کریں گے۔ اس سیاسی قوت سے کچھ اندازہ ہوسکے گا کہ کس جماعت کا کیا گراف ہے اور وہ الیکشن میں کیا معرکہ دکھا سکتی ہے۔
ادھر متحدہ مجلس عمل کا منشور بھی آچکا ہے اس میں شامل جماعتوں کی طرف سے الیکشن کی تیاریاں شروع ہوچکی ہیں۔ مولانا فضل الرحمان متحدہ مجلس عمل کے سرکردہ لیڈر اور سربراہ ہیں۔ ایم ایم اے کتاب کے نشان پر الیکشن لڑے گی ابھی اس سلسلے میں اس کی طرف سے ہوم ورک نہیں ہوا لیکن وہ اس سلسلے میں پرامید ہیں کہ پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کے ساتھ سیٹ ایڈجسمنٹ کرکے پنجاب سے کچھ سیٹیں تو حاصل کرلیں گے لیکن ذرائع کے مطابق مسلم لیگ(ن) ابھی کسی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے حق میں نہیں ہے۔ مسلم لیگ(ن کے قائدین ابھی تک اپنی جگہ پرامید ہیں کہ 2018میں جو سیاسی ریلا آئے گا اس کا رخ ان کی طرف ہوگا وہ بغیر کسی اور سیاسی جماعت کے اس قدر کامیابی حاصل کریں گے کہ حکومت بھی ان کی ہی بنے گی، وزیر اعظم بھی ان کا ہوگا اور پنجاب میں بھی مسلم لیگ(ن) ہی قیادت سنبھالے گی جبکہ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کی قیادت کچھ اور ہی سوچے بیٹھی ہے کہ وزیر اعظم بھی ان کا ہوگا اور پنجاب کی کمان بھی ان کے ہاتھوں میں ہوگی۔ یہ دعوے ابھی سننے اور دیکھنے میں آرہے ہیں لیکن دعوے کس کے سچے ثابت ہوں گے اس کے لئے 25جولائی کا الیکشن حاضر ہے ۔ ادھر نیب اور سپریم کورٹ میں وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی پیشیوں کا بھی خوب ذکر اور تذکرہ رہا نہ جانے یہ ذکر اور تذکرہ اب کہاں جاکر ختم ہوگا ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن میاں شہباز شریف کا عزم یہ ہے کہ جو کہتے ہیں کرکے دکھاتے ہیں الیکشن کے بعد خدمت کا سفر آگے بڑھائیں گے۔