تقریباًتین دہائیوں قبل پاکستان سے اپنی آنکھوں میں بہتر مستقبل کے خواب سجائے بڑی تعداد میں پاکستانی یورپی ممالک کی طرف آئے ، جنہوں نے دن رات محنت کر کے اپنا اور اپنے اہل خانہ کا مستقبل محفوظ بنایا ۔ بہت سے پاکستانی مزدوری کرنے کو ترجیح دینے لگے اور کئی پاکستانیوں نے بزنس میں طبع آزمائی کی اور کام یاب رہے ۔اسپین میں پاکستانیوں کی بڑی تعداد آباد ہے ،جہاں وہ اپنے کلچرکی خدمت کے لیے بھی کام کررہی ہے۔اس سلسلے میں گزشتہ دنوں بارسلونا میں ایک مشاعرہ منعقد ہوا جس میں مختلف ممالک کے شعراء نے حصہ لیا اور سب کا کلام ا سپینش زبان میں ترجمہ کرکے پیش کیا گیا ۔پاکستانی کمیونٹی کی جانب سے بارسلونا میں مقیم معروف شاعرہ ڈاکٹر ارم بتول قادری اور شاعرو صحافی ارشد نذیر ساحل نے بارسلونا کے تاریخی مقام پارک گوئیل میں مقامی ہسپانوی ادبی تنظیم OREIGکے زیر اہتمام منعقد ہونے والے اس کثیر للسانی مشاعرےمیں اپنا کلام پیش کیاجبکہ تقریب کی میزبان’’ بلانکہ حداد‘‘ نے دونوں شعراء کے کلام کاا سپانش میں ترجمہ پیش کیا۔اس محفل مشاعرہ میں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے شعراء نے اپنی اپنی زبانوں میں کلام پیش کیا اور ان کا ترجمہ بھی اسپینش زبان میں پیش کیا گیا۔ مشاعرے کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں مختلف ممالک کے معروف گلوکاروں نے بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔یہ ایک خوبصورت ثقافتی روایت ہیجوشاعری اور فنون لطیفہ کے ذریعے بارسلونا شہرمیں آبادمختلف ممالک کے باشندوں اور میزبان معاشرے کے لوگوں اور زبان وادب کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے اورسماجی انضمام میں معاون ہونے کے ساتھ ساتھ ثقافتی تنوع کا بھرپور اظہار ہے۔ محفل مشاعرہ میں پاکستان، اٹلی، جرمنی پرتگال، آسٹریا ، ہالینڈ ، فرانس اود دیگر ممالک کے شعراء نے اپنا کلام پیش کرکے خوب داد وصول کی ۔
پاکستان کی طرف سے اپنے وطن اور قومی زبان اردو کی نمائندگی معروف شاعرہ ڈاکٹر ارم بتول قادری اور شاعر و صحافی ارشد نذ یر ساحل نے کی۔ڈاکٹر ارم بتول قادری نے اپنی دو نظمیں ’’آواز’’اور’’ دختر اعظم‘‘ پیش کی ،اس شاعری میں عورت ذات کے دکھ اور استحصال کو زیر بحث لایا گیا تھا ۔ ارم بتول نے اپنے کلام میں بتانے کی کوشش کی کہ عورت کسی بھی ملک یا خطے سے تعلق رکھتی ہو اُس کے دُکھ سانجھے ہوتے ہیں۔ا سپینش کمیونٹی نے جب ا سپینش زبان کے ساتھ ارم بتول کا کلام سنا تو وہ داد دیئے بغیر نہ رہ سکی اور کچھ اشعار دوبارہ بھی سنے گئے ۔شاعر اور صحافی ارشد نذیر ساحل نے اپنی دو غزلیں پیش کیں۔ ارشد نذیر ساحل کی شاعری میں سماج کے دکھ ، ہجر کے کرب اور معاشی ناہمواریوں کے ذکر تھا ۔ جنگ سے بات کرتے ہوئے ارشد نزیر ساحل کا کہنا تھا کہ ایسے پروگرام دو اقوام کو اکھٹا کرنے کا بہترین ذریعہ ثابت ہو سکتے ہیں ۔ شاعری ایک تخیل ہوتا ہے جسے حقیقت کا رنگ دینے کے لئے شاعر اس تخیل کو الفاظ کا جامہ پہناتا ہے اور پھر شاعر اپنے خوبصورت انداز میںکلام سنا کر دنیا کو بھی اپنے خیال میں شامل کرتا ہے جس سے اسے داد بھی ملتی ہے اور معاشرے میں اچھا مقام بھی ملتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سفارت خانہ پاکستان اور قونصلیٹ جنرل آف پاکستان بارسلونا کو چاہیے کہ وہ پاکستان کے قومی دنوں کی مناسبت سے مشاعرے منعقد کیا کریں ،جن کے انعقاد سے ہماری نئی نسل اردو کے ساتھ ساتھ اپنے کلچر سے جڑی رہے گی اور دوسرے ممالک میں اردو کی ترویج کے لئے اچھا کام ہو سکے گا ۔ اس مشاعرے میں اسپینش ، اٹلی ، جرمنی ، رومانیہ اور پاکستانی کمیونٹی کی کثیر تعداد شریک تھی جنہوں نے مشاعرے کے انعقاد پر مقامی انتظامیہ اور شعراء کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں آئندہ بھی ایسی محافل انعقادپذیر ہوتی رہیں گی ۔مشاعرے کی میزبان بلانکہ حیداد نے پاکستانی شعراء کے کلام کا دو زبانوں یعنی اسپینش ا ور کتلان میں ترجمہ پیش کیا ۔