26 سال قبل جب میں پردیس آیا تو ایک نو عمر لڑکا تھا،گھریلو حالات اچھے نہ تھے۔ہمارے ایک انکل الخبر میں ملازمت کرتے تھے لہذا والد صاحب نےان سے میں میری ملازمت کی درخواست کی ۔چوں کہ میں انٹر میڈیٹ کرچکا تھا اور ساتھ ہی الیکٹریشن کا ڈپلومہ بھی کیا تھا لہذا مجھے وہاں ملازمت مل گئی اور انکل کی ہی کاوشوں سے میں الخبرروانہ ہوگیا۔یہاں آکراندازہ ہوا کہ زندگی اتنی آسان نہیں جتنا دور سے نظر آتی ہے یا یوں کہ لیں کہ ’’دور کے ڈھول سہانے‘‘۔بہرحال دن رات کام کے علاوہ اور کوئی دل چسپی اور مصروفیت نہ تھی۔نہ عید کا پتہ چلتا تھا نہ ہی بقرعیدکا ،اپنوں سے دوری کا دکھ بے چین رکھتا۔چوں کہ نئی نئی ملازمت تھی لہذا تہوار کے لیے چھٹی بھی نہیں ملتی تھی۔سال،مہینے اوردن سارے ہی کٹ جاتے تھے سوائے ’’عید ‘‘کے۔ماں ،باپ،بہن ،بھائیوں کے چہرے آنکھوں میں گھومتے،والدین سے فون پر بات کر کے گھنٹوں روتا۔عجیب بے بسی تھی جس کا انتخاب میں نے خود کیا تھا لیکن وطن میں بے روزگاری سے بہتر تھی۔
پردیس میں جہاں ایک طرف سکھ ہے تو دوسری طرف تنہائی کا دکھ بھی ہوتا ہے۔’’پردیس ‘‘ایک بہت بڑی اور کڑوی حقیقت ہے ،جس کو اگر مناسب طریقے سے ڈیل نہ کیا جائے تو زندگی کا سکون اور چین بھی غارت ہو سکتا ہے۔ پردیس کے خواب بہت سہانے ہوتے ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ سوچیں ایسا تانا بانا بنتی ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے لیکن جب حقیقت سے واسطہ پڑتا ہے تو چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔ایک طرف محبتیں ہوتی ہیں تو دوسری طرف ان محبتوں سے جڑی مصلحتیں۔بہت سے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو پردیس آئے اور پھر دیس کی خبر نہ لی، اپنوں سے رابطہ بھی بس برائے نام کا ہی رکھا۔ انسان چاہے ساری زندگی پردیس میں گزار دے لیکن تہوار منانے کا جو مزہ اپنے دیس میں اپنے لوگوں کے بیچ ہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں نہیں ہے۔ بےشک کوئی شخص اپنے خاندان کے ساتھ ہی کیوں نہ مقیم ہو پھر بھی دیس کی یاد تو ستاتی ہے۔ اپنے پیاروں کی یاد بھی تڑپاتی ہے۔شروع میں میرا مسئلہ یہ تھا کہ میں یہاں بالکل اکیلا تھا۔عید کے موقعے پر اپنا ملک،گلی ،محلہ ،یار،دوست اور خاندان والے سبھی کی یاد نے بےچین رکھا۔آج میں یہاں اپنی فیملی کے ساتھ مقیم ہوں لیکن آج بھی عید کے موقعے پر احساسات وہی ہیں جو کئی سال قبل تھے۔
دیار غیر میں عید سے مراد صرف نماز عید کی ادائیگی ہے، مجھے یہاںپہلی عید پر فیملی کے ساتھ ساتھ وطن کی بھی بہت یاد آئی ۔پردیس کی بھی عجب عید ہوتی ہے، نہ تو شوال کا چاند نظر آنے کی بے تابی، نہ چاند رات کی رونق، نہ ہی کسی گڑیا کا رنگ برنگی چوڑیوں کو تلاش کرتا ہوا چہرہ، نہ ہی پکے رنگ کی مہندی لگے ہاتھ، نہ ہی گھر یا محلے کی طرح رات کے آخری پہر تک کی تیاری۔ دیار غیر میں نہ ہی وطن عزیز کی عید جیسی صبح ہوتی ہےاور نہ ہی ویسااُجلا دن چڑھتا ہے، نہ ہی میٹھی چیزوں میں وہ میٹھاس اور نہ ہی نماز عید کے لیے اٹھتے ہوئے قدموں میں وہ رمق ہوتی ہے۔ ایک چھوٹے سے کمرے میں چند افراد کا نماز عید کی ادائیگی کے بعد ایک دوسرے سے بغل گیر ہونے اور عید کی مبارک باددینے کے بعد ہی عید کا رنگ پھیکا پڑنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد کے گزرنے والے لمحات عہدرفتاں سے دھول اڑانا شروع کر دیتے ہیں اور ایسے میں بے بسی اپنے انتہاکو پہنچ جاتی ہے۔ دیار غیر میں تمام مادی سہولتوں کے باوجود انسان اپنوں کی محبت اور وطن کی مٹی کی مہک کا متلاشی رہتاہے ،ایسے میں اگر وطن عزیز سے کوئی یاد کرلے تو ایسی کیفیت ہوتی ہے جیسے زہر آلودہ جسم میں تریاق کا قطرہ اور پھر ان کی طرف سے پوچھا جانے ولا یہ سوال ’’عید کیسی گزر رہی ہے؟‘‘ کہ جواب میں اپنے احساسات و جذبات کو چھپاتے ہوئے،رندھی ہوئی آواز میں حلق سے صرف یہی الفاظ نکلتے ہیں ’’بہت اچھی‘‘ ۔ (محمد یاسین،الخبر)