پاکستان کی طرح جدہ، ریاض اورسعودی عرب کے دیگر شہروں میں بھی’’ یوم تکبیر‘‘ منایاگیا۔اس حوالے سے’’ مجلس محصورین پاکستان‘‘ کےتحت ایک سمپوزیم ’’ایٹمی ٹیکنالوجی ہماری ضرورت اور ذمے داری‘‘منعقد ہوا ۔،جس کی صدارت سعودی تجزیہ نگار اور سابق سعودی سفارت کار ڈاکٹر علی الغامدی نے کی۔ انہوں نے کہا کہ ایٹمی طاقت اور نیوکلیرکلب کا ممبر بننا صرف پاکستان کے لئے ہی نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کے لئے باعث فخر و تکریم ہے۔ انھوں نے اس پرافسوس کا اظہارکیاکہ پاکستان نے ایٹمی ٹیکنالوجی سے اپنے دفاع کو ناقابل تسخیر بناتو لیا لیکن پچھلے 20سالوں میں یہاں عوامی مفاد اور پرامن مقاصد مثلا بجلی، زراعت، پانی، اور طب کے میدان میں کوئی کام نہیں ہوا، جبکہ آج کی قومیں ترقی کے لئے ایٹمی ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کرتی ہیں۔انہوں نے کہا معزز قومیں اپنے شہریوں کو نظرانداز نہیں کرتیں ،لہذا پاکستان کا فرض ہے ڈھائی لاکھ محب وطن پاکستانیوں کو پاسپورٹ جاری کرے اور بنگلہ دیش کے کیمپوں سے جلد منتقل کرکے پاکستان میں آباد کرے۔ انہوں نے پاکستانی فلاحی ادارے ’’مسلم ویلفیئر اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن‘‘، فنڈ برائے محصورین اور امریکا میں اوباٹ ہیلپرز ،فرینڈ اف ہیومینیٹی اور سعودی ادارے اسلامی ڈویلپمنٹ بنک، اسلامی عالمی تنظیم کی تعریف کی جو محصورین کے کیمپوں میں امدادی کام کرتےہیں،البتہ یہ تمام مل کر بھی 10 فیصد آبادی کی امداد کو پورا نہیں کرسکتے ہیں، لہذا مزید فلاحی تنظیموں کو آگے آنا چاہیے تاکہ ان کی کسمپری میں کمی ہو سکے۔پی آر سی کے ڈپٹی کنوینر حامد الاسلام خان نے کہا کہ ایٹمی دھماکہ وقت کی ضرورت تھی، اس کے بعد اس ٹیکنالوجی سے استفادہ نہ کرنے کی وجہ سےہماری صنعتیں ڈوب رہی ہیں۔ بجلی ،پانی وغیرہ جیسے وسائل کی کمی کو ایٹمی ٹیکنالوجی کے ذریعہ پورا کیا جاسکتا تھا جوترقی یافتہ قوموں کی ترقی کا باعث ہے۔ریاض گھمن اور محمد اکرم آغا نے بھی اپنی تقریر میں ایٹمی دھماکے کو ملک کے دفاع کےلئے نا گزیرقرار دیا۔ شمس الدین الطاف نے ابتدائی تقریر عربی زبان میں کی اور ڈاکٹر غامدی کی سمپوزیم میں شرکت پر شکریہ ادا کیا۔
کنوینر سید احسان الحق نے آخر میں ڈاکٹر غامدی اور تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا 28مئی 1998کو پاکستان ایٹمی دھماکہ نہ کرتا تو پاکستان بھی بنگلہ دیش یا نیپال کی طرح ہندوستان کا دست نگر ملک بن کر رہتا، لہذا یہ ملک کی بقا کے لئے ناگزیر تھا،البتہ ڈاکٹر قدیر خان جیسے سائنسدان کی موجودگی سے فائدہ نہ اٹھایا گیا جو ملک کے بجلی ،پانی اور زراعت جیسے بحرانی مسائل کو حل کرسکتے تھے۔انھوں نے مندرجہ ذیل قراد اد پیش کی جو منظور ہوئی:
1۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی سربراہی میں نیوکلیر ریسرچ یونیورسٹی قائم کی جائے، جو ہنگامی بنیاد پر ملک کو بجلی، پانی، زراعت ،طب اور دوسرے اہم شعبوں میں وسائل کے فراہیمی کو یقینی بنائے۔
2۔ کشمیرمیں ہندوستانی مظالم کے خاتمے کے لئے اور رائے شماری کے انعقاد کے لئے حکومت اعلی سطحی کمیشن قائم کرے جو اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں پر ہندوستانی مظالم کواجاگر کرے اور حق خود اختیاری کا انتظام کرے۔
3۔ محصورین کو فوری پاکستانی پاسپورٹ جاری کیا جائے اور ان کی منتقلی و آباد کاری کا فوری انتظام کیا جائے ، جب تک ان کی منتقلی نہ ہوجائے ڈھاکہ میں پاکستان ہائی کمیشن ان کی خبرگیری اور ضروریات زندگی کی فراہمی اور جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
مسجد الحرام اور مسجد نبوی شریف انتظامیہ کے سربراہ اعلیٰ شیخ ڈاکٹر عبدالرحمن السدیس نے مسجد الحرام اور خانہ کعبہ کو خوشبویات سے معطر کرنے کی مہم کا افتتاح کردیا۔ اس مہم کا مقصد بیت اللہ شریف کی تعظیم و تکریم اور عمرے و زیارت و نماز کے لیے آنے والوںکے ساتھ حسن سلوک کا اہتمام ہے۔ مسجد الحرام کی تاریخ میں پہلی بار روزانہ کی بنیاد پر 60سے زیادہ (مبخرے) استعمال ہوں گے۔ ان میں اعلیٰ درجے کی خوشبو دار لکڑی استعمال کی جاتی ہے او راس سے اٹھنے والے دھویں سے زائرین کو معطر کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ روزانہ 60کلو اعلیٰ درجے کی خوشبو استعمال کی جائے گی۔ حجرہ اسود اور ملتزم کو روزانہ 5مرتبہ اعلیٰ درجے کے عود کی خوشبو سے معطر کیا جائے گا۔