• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عار ف عزیز

آزادی سے قبل ہندوستان کی پانچ سو باسٹھ ریاستوں میں، صرف بھوپال کی ریاست کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ، یہاں کی دو سو چار سالہ تاریخ میں چار بیگمات نے یکے بعد دیگرے ڈیڑھ سو سال تک کامیابی کے ساتھ حکومت کی اور تاریخ کے صفحات پر اپنا نقش چھوڑا۔

پہلی خاتون بیگم’’ ماجی ممولا‘‘ تھیں، جن کا حکومت کے نظم ونسق میں پورا دخل تھا، وہ ریاست کی باقاعدہ حکمراں تو نہیں تھیں، لیکن اپنے شوہر نواب یار محمدخاں کے انتقال کے بعد ان کے دو کمسن جانشینوں کےلئے حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی تھی اور جب تک حیات رہیں ان کے اثر ورسوخ میں کمی نہیں آئی۔ ماجی ممولا، نومسلم تھیں، ان کی کوئی اولاد نہیں تھی، اسی لئے نواب فیض محمد خاں کی اطالیق بن کر جو یار محمد خاں کی دوسری بیگم کے بیٹے تھے ، تعلیم وتربیت کا کام سر انجام دیتی رہیں اور اپنے وپرایوں کی سازش کا مقابلہ کرنے کےلئے انہیں تیار کیا، اس وقت بھوپال ریاست خاندانی رقابت اور مرہٹوں کی یورش کا شکار تھی ،اس کے تحفظ کے لئے وہ سرگرم رہتی تھیں،وہ پڑھی لکھی نہیں تھیں ۔

قدسیہ بیگم ریاست بھوپال کی پہلی خاتون حکمراں تھیں، انہوں نے اپنے شوہر نواب نظر محمد خاں کی حادثاتی موت کے بعد اٹھارہ برس کی عمرمیں کاروبارِ حکومت سنبھالا۔ ناخواندہ ہونے کے باوجود نہایت لیاقت کے ساتھ حکومت کے فرائض انجام دیئے ، ان کے زمانہ میں شمالی ہند اور دکن کے کئی شعراء بھوپال آئے،جن کی وجہ سے بھوپال میں، جہاں شعری ماحول استوار ہوا، وہیں بیرونی رسم ورواج کو بھی پروان چڑھنے کا موقع ملا۔

نواب سکندر جہاں بیگم کواپنے شوہر نواب جہانگیر محمد خاں دولہؔ کی طرح اردو زبان سے گہری محبت تھی، جس کا مظاہرہ انہوںنے شعراء اور ادباء کی دل کھول کر مدد سے کیاتھا۔ شمالی ہند کے سفر پر گئیں تو دہلی اور لکھنؤ کے مشاہیر سے ملاقات کرکے انہیں بھوپال آنے کی دعوت دی ، جن میں غالب بھی شامل تھے، لیکن غالبؔ دہلی چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوئے تو وقتاً فوقتاً ان کی خیریت دریافت کرتی رہیں، اسی حسن سلوک کا نتیجہ تھا کہ غالبؔ نے اپنے اصل دیوان کا نسخہ اپنے قلم سے تصحیح کرکےان کی نذر کیا، جو کتب خانہ کی زینت بنا اور بعد میں ’’نسخہ حمیدیہ‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ سکندر جہاں نے مشاہیر کی تصانیف کا فارسی سے اردو میں ترجمہ کرایا ، ریاست کے قوانین اردو میں مرتب کرائے ۔ اردو کو فارسی کی جگہ عدالتی اور سرکاری زبان بنایا ۔ انہوں نے سخت ہدایات جاری کیں کہ تمام سرکاری احکامات وہدایات اردو میں دی جائیں، اردو وفارسی کے مدارس کھولے، خود بھی تصنیف وتالیف کا ذوق رکھتی تھیں، لہذا کئی کتابیں اردو میں تحریر کیں ۔ سکندر جہاں بیگم نے بھوپال میں ’’مطبع سکندری‘‘ کے نام سے ایک بڑا چھاپہ خانہ بھی قائم کیاتھا۔ در حقیقت یہ علم وادب کی ایک اکیڈمی کی ابتداء تھی، جس نے مستقبل میں کئی کارہائے نمایاں انجام دیئے، اس دور میں بھوپال نے تہذیبی وثقافتی لحاظ سے بھی اتنی ترقی کرلی تھی کہ اس پر دہلی اور لکھنؤ ہی کا گمان ہونے لگا تھا۔سکندر جہاں بیگم نے ۱۸۵۷ء کے خونی ہنگاموں سے بھی اپنی ریاست کومحفوظ رکھنے کی کامیاب کوشش کی، انگریزوں نے ان کی مدبرانہ صلاحیت کا اعتراف کرکے دلی دربار میں ’’اسٹار آف انڈیا‘‘ کے خطاب سے انہیںسرفراز کیاتھا۔

ریاست بھوپال کی تیسری حکمراں نواب شاہ جہاں بیگم تھیں، ادب میںانہیں منفرد مقام حاصل تھا، ان کے دور حکومت میں اعلیٰ فنکاروں، ادیبوں اور شاعروں کی خوب ہمت افزائی ہوئی، وہ خود بھی اپنے والد جہانگیر محمد خاں کی طرح صاحبِ دیوان شاعرہ تھیں، پہلے شیریں بعد میں تاجور تخلص کرتی تھیں، ان کا پہلا دیوان ’’دیوانِ شیریں‘‘اور دوسرا ’’تاج الکلام ‘‘کے نام سے شائع ہوا تھا، اس کے علاوہ ان کی ایک مثنوی ’’صدق البیان‘‘ فن شاعری کا اعلیٰ نمونہ تھا، ، کئی دیگر نثری کتب کے علاوہ ’’خزینۃ اللغات‘‘ بھی ان کی یادگارتھی۔شاہ جہاں بیگم کے شوہر نواب صدیق حسن خاں بھی بڑے شاعر، عالم اور ادب نواز تھے ، بیگم صاحبہ خود بھی اپنے محل میں مشاعروں کا اہتمام کراتی تھیں، تاریخ ادب اردو کے مولف رام بابو سکسینہ نے ان کی شاعرانہ صلاحیت کا اعتراف کیا ، ان کے زمانے میں کم وبیش ڈیڑھ سو خواتین شعر کہتیں اور خواتین کے مشاعروں میں شرکت کرتی تھیں، حقیقت یہ ہے کہ دورِ شاہ جہانی میں بھوپال علم وادب کا مرکز بن گیا تھا، اپنے شوہر کے تعاون سے شاہ جہاں بیگم نے علماء وفضلاء کی سرپرستی ہی نہیں کی، سینکڑوں ایسی نایاب کتابیں شائع کرنے کےلئے وسائل بھی فراہم کئے، جس کی وجہ سے اس چھوٹی سی ریاست کا نام دنیا بھر میں مشہور ہوگیا تھا، انہوں نے عصری تعلیم کے جگہ جگہ مدارس کھولے۔ اردو کا پہلا اخبار ’’عمدۃ الاخبار‘‘ شائع ہوا، دیگر اخبارات ورسائل بھی نکالے۔علم وادب کے فروغ کے ساتھ بیگم صاحبہ کو عمارات سازی کا بھی بڑا شوق تھا،تاج المساجد جیسی مایہ ناز مسجد کے علاوہ تاج محل، عالی منزل کے باقیات لاکھ مٹانے کے باوجود آج بھی نظر آتے ہیں۔

ریاست بھوپال کی چوتھی اور آخری بیگم نواب سلطان جہاں نے ء میں انتظام حکومت سنبھالا تو یہاں اردو زبان وادب کے ہر شعبہ میں قابل لحاظ ترقی ہوئی، وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور روشن خیال خاتون تھیں، بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ ایک مصنفہ کا دماغ لےکر پیدا ہوئی تھیں، خود ۴۱ کتابوں کی مصنفہ تھیں، جن میں سے بیشتر کتابیں تعلیم اور اس کے مسائل پر مشتمل ہیں اور اتنی معیاری کہ اس موضوع کی اہم کتابوں کے مقابلہ میں رکھی جاسکتی ہیں’’روضۃ الریاضین‘‘ ان کی پہلی تصنیف تھی، جس میں سفرِ حجاز کے احوال کے ساتھ، حرمین شریفین کی مفصل تاریخ بھی رقم کی گئی ، بیگم صاحبہ نے تربیتِ اطفال ، تیمارداری، خانہ داری، معاشرت اور پردہ کے موضوع پرکئی جامع کتابیں اپنی یادگار چھوڑی ہیں۔

انہوں نے دفتر تاریخ قائم کرکے بڑے پیمانہ پر علمی کتابیں لکھوائیں، محمد امین زبیری، نیاز فتح پوری، علامہ محوی صدیقی، محمد یوسف قیصر ، مانی جائسی، محمد مہدی اور عبدالرزاق البرامکہ اس کے کارکن تھے ،جن کی سرپرستی کے علاوہ ریاست سے باہر کی بے شمار علمی کتابیں حکومت کی مالی امداد سے شائع کرائیں، ان میں علامہ شبلی نعمانی کی شہرۂ آفاق’’سیرۃ النبی‘‘بھی شامل ہے۔ بھوپال میں حمیدیہ لائبریری قائم کی جو بجائے خود علم وادب کا بیش بہا خزانہ تھی ’’الحجاب‘‘ اور ’’ظل السلطان‘‘ ماہنامے جاری کئے اور دارالمطالعے کھولے۔ سلطان جہاں بیگم بڑی اچھی مقررہ تھیں، علمی اور ادبی اداروں میں جو تقاریر انہوں نے کیں وہ اردو کا معیاری سرمایہ ہیں، ہر جگہ اردو کی ترقی وسربلندی پر بے لاگ اظہار خیال کرتیں تھیں اور زبان وادب کے خدمت گاروں کی امداد میں پیش پیش رہتیں، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کو بیگم صاحبہ سے اور خود انہیں اس درس گاہ سے گہرا لگائو تھا، اسی تعلق باہمی کے نتیجہ میں دو مرتبہ اس یونیورسٹی کی وائس چانسلر منتخب ہوئیں تھیں۔

نواب سلطان جہاں کی فیاضانہ علمی وادبی خدمات اور مشاہیر ادب کی سرپرستی کا اثر ان کے جانشیں صاحبزادے نواب حمید اللہ خاں نے بھی قبول کی اور یہ روایت آگے بھی جاری رہی۔

تازہ ترین