• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
محلے و ماحول کی صفائی بھی آپ کی ذمے داری ہے

عائشہ رفیق

آج ہر گھر میں عید کے لیے صفائی ستھرائی کا انتظام ہو رہا ہوگا،بھائیوں کے بازار کے چکر لگ رہے ہوں گے، ہر حکم پر جانفشانی سے عمل کر رہے ہوں گے،سو چیزیں لا کر ایک بھول جائیں تو سارا گھر سیاستدانوں کی طرح ان پر کڑی تنقیدشروع کر دے گا۔سو کاموں کی تعریف کوئی نہیں کرے گا ایک بھول پر کٹہیرے میں کھڑاکر دیاجائے گا۔

بہنوں نے کمرے صاف کر کے کرفیو لگا دیا ہوگا،خلاف ورزی کرنے والے کو بڑی بہن نے دیکھتے ہی جھاڑو یا وائپر کھینچ کر مارنے کا حکم دے دیا ہوگا۔

من چلے بھائی، جان بوجھ کر سارے گھر میں مٹر گشت کر رہے ہوں گے ۔

امی وزیر اعظم کی طرح مصلحت کے تحت خاموش ہوں گی تاکہ لڑائی نہ بڑھ جائے۔

ایک حساس چھوٹی بہن کھڑکیوں کے شیشے صاف کرتی سوچ رہی ہوگی کہ ہر عید تہوار پر ہمارے گھر میں ہی کیوں خانہ جنگی ہوتی ہے( ہر بندہ یہی سوچتا ہے)

اللہ سب کے گھر اور ان کی خوشیاں آباد رکھے، آمین۔

ایک کام اکثر لوگ کرتےہیں،ہمارے ساتھ بھی ہوتا ہے،وہ یہ کہ اپنا گھر صاف کر کے کوڑا باہر پڑوسیوںکے گھر کے آگے پھینک دیتے ہیں۔

اگر پلاسٹک کے تھیلے میں کوڑا ڈال کر بلدیہ کے کوڑے دان میں ڈال آئیں، تو ہوا سے اڑ کر وہ ساری سڑک کو بھی گندہ نہ کرے اور خاکروب کی دعا بھی آپ کو لگے،ایک غریب کے لئے آسانی پیدا کرنے کی نیت سے جو کام کریں گے تو اللہ بھی آپ کو آسانی دے گا۔

اکثر راہ چلتے دیکھا ہوگا کہ گھر کا دروازہ کھلتا ہے، قانون کے ہاتھ جیسی پہنچ والا ایک زنانہ ہاتھ باہرآتا ہے اور نشانہ بناکر باسی سالن، چاول، خشک روٹیاں سامنے والوں کے گھر کے سامنے پھینک دی جاتی ہیں؟

یہ کیا بیہودگی سیکھی ہے ؟ رزق کی بے حرمتی؟

اچھی طرح یاد ہے ہمیں پاؤں تک غلط اٹھانے پرمارکھانی پڑتی تھی، ابو اکثر اچانک پوچھ لیتے،آپ جب فلاں جگہ سے آئیں تو راستے میں ٹافی کا کاغذ نظر آیا تھا؟

نہیں کہنے پر بھی شامت آجاتی کہ نظر کیوں نہیں آیا اور ہاں کہنے پر یہ سننے کو ملتا، پھر یہ کچرا صاف کون کرے گا؟ غلام تو ہم آپ کو جہیز میں دے نہیں سکتے آپ کو خود ہی زحمت کرناپڑے گی،لہذا کھسیانی ہنسی کے ساتھ معافی مانگ کرہم صفائی شروع کردیتے۔

یہ نظم و ضبط اب ہمارا کردار بن چکا ہے۔ایسی بہت سی خواتین ہیں، جو بہت زیادہ تمیز اور تہذیب سے گھروں کو سنوارتی ہیں اور اولاد کونظم و ضبط سکھاتی ہیں۔ کسی بھی ماں کا احسان عظیم ہوتا ہے اپنی اولاد اور معاشرے پر کہ وہ نظم و ضبط قائم کرےاور اپنے کام خود کرنے کی عادت ڈال دے۔اس طرح خاتون خانہ کی پریشانی اور ذمے داری بھی اسّی فیصد کم ہوجاتی ہے اور اولاد بھی کام چور اور دوسروں کی محتاج نہیں رہتی۔

جب ہم گلیوں، سڑکوں پر جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر، بچوں کے گندے ہاتھ منہ ، کپڑے اور مردوں کو راستے میں جگہ جگہ تھوکتا اور اذان کے وقت بھی نوجوانوں کو اونچی آواز میں گانے بجاتے(جو کہ عیدالفطر کے دن بہت ہوتا ہے) دیکھتے ہیں توایسا محسوس ہوتا کہ ماؤں نے اولاد کی تربیت کرنا چھوڑ دی ہے۔

عیدضرور منائیں مگر اپنے محلے اور ماحول کو بھی صاف ستھرا رکھیں۔

تازہ ترین