• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سیاسی عید ’’مبارک ہو‘‘

غزالہ خالد

سب سے پہلے تو عید کے پر مسرت موقع پر بہت بہت " عید مبارک "یقینا اللہ کے فضل و کرم سے آپ سب روزے پورے اہتمام کے ساتھ رکھ رہےہونگے اور اپنے شب و روز عبادات میں گذارنے کی بھی پوری کوشش کررہے ہوںگےاسلئے عید کی حقیقی خوشیوں کے حقدار بھی آپ لوگ ہی ہیں ، اللہ تعالی ہم سب کے حق میں ہمارے اس تہوار کو مبارک ثابت کرے آمین۔ عید ا لفطر کو میٹھی عیدکہا جاتا ہے یہ تو آپ لوگوں کو یقیناً معلوم ہوگا ،اسی طرح عید کے دوسرے دن کو باسی عید کہتے بھی سنا ہوگا بلکہ عید کے تیسرے دن کو کچھ لوگ " تباسی عید " بھی کہہ دیتے ہیں تو یہ تباسی کا عجیب لفظ بھی کانوں کو اجنبی نہیں لگتا لیکن مجھے یقین ہے کہ " سیاسی عید " آپ لوگوں نے ضرور پہلی مرتبہ سنی ہوگی لیکن زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں یہ تو خوشی کی بات ہے، کیونکہ آپ اور ہم تو اس سیاسی عید کے چشم دید گواہوں میں سے ہیں۔ اس عید کی تو رونقیں ہی الگ ہیں ، سچی بات تو یہ ہےکہ ہماری جتنی سالہ زندگی بھی ہےاس میں اس سال جیسی عید پہلے کبھی نہیں آئی ،اس لحاظ سے ہم یہ بلا جھجک کہہ سکتے ہیں کہ یہ عید ایک منفرد مقام رکھتی ہے ،الیکشن کی آمد آمد ہے پورا امضان عید کی رونقیں کم اور الیکشن کی رونقیں زیادہ نظر آئیں، ہر طرف ایک ہلچل اور افرا تفری مچی رہی ،"ادھر کا مال ادھر اور ادھر کا مال ادھر " ہوتے بھی ہم نے خوب دیکھا ،لگتا تھا جیسےبڑے بڑے لیڈرز اپنے منہ کے آگے شمع رکھ کر بیٹھ گئے ہیں اور انتظار میں ہیں کہ ِ "ادھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر آتا ہے پروانہ " ہمیں تو ان بے چارے لوٹا کہلانے والوں سے بھی ہمدردی ہی رہی، وہ چاہے کسی بھی پارٹی میں گئے ہمیں تو ان کی شکلیں دیکھ دیکھ کر دل ہی دل میں´ آتے جاؤ پھنستے جاؤ ´یاد آتا رہا اور ایک عجیب سی ہمدردی کے جذبات بھی ابھرتے رہے۔ نوابزادے ہوں کہ مخدوم ، خان بہادر ہوں یا نواب ، چودھری ہوں یا وڈیرے ، سردار ہوں کہ پیر ، پارٹی بدلتے ہی حکم مل جاتا ہے کہ اب جو ہم کہیں گے وہی بولنا ہوگا اور بے چارے مرتے کیا نہ کرتے ،مستقبل کے سہانے خواب آنکھوں میں سموئےوہی کرنا شروع کردیتے ہیں اور کرنا بھی چاہئے کیونکہ بقول شاعر،

"جس دیس رہیؤ وا ہو کی سی کہیو

اونٹ بلیا لے گئی تو ہاں جی ہاں جی کہیو "

رمضان سے پہلے خبر گرم ہوئی تھی کہ اس سال مختلف چینلز پر رمضان میں چلنے واے گیم شوز پر پابندی لگا دی جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا گیم شوز تو ہر سال کی طرح اس سال بھی ٹیلی کاسٹ ہوئے لیکن حیرت انگیز طور پر عوام نے ان میں پہلے کی طرح دلچسپی نہیں لی ، توجہ حاصل کرنے کے لئے کچھ میزبانوں نے عجیب و غریب ڈرامے بھی کئے لیکن پھر بھی لوگوں نے زیادہ اہمیت نہیں دی اور نہ ہی ہر سال والی رونق ان میں نظر آئی، کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ لوگ اب ان کھیل تماشوں کے عادی ہوگئے ہیں ،اس لئے اب ان گیم شوز میں ان کی دلچسپی ختم ہوتی جارہی ہے لیکن ہماری ناقص رائے میں جب نیوز چینلز پر اس سے زیادہ چٹ پٹاہٹ موجود ہو تو ان گیم شوز میں کس کا دل لگے گا، یقین نہ آئے تو خبروں کا کوئی بھی چینل لگا کے دیکھ لیں آج کل کا ہر سیاست دان "آغا حشر کا تربیت یافتہ معلوم ہوتا ہےجسے دیکھو تنگ آمد ، بجنگ آمد " بنا نظر آئے گا کہیں ایک دوسرے کا کچا چٹھا کھولا جا رہا ہے، تو کہیں خونی آنکھوں سے شعلے نکل رہے ہیں ،کہیں گھرکیاں ہیں تو کہیں جھڑکیاں ، کہیں دھمکیاں سننے کو ملیں گی تو کہیں گالیاں سن کر جلدی سے چینل تبدیل کرنا پڑے گا،ہر ایک لڑنے بھڑنے کو تیار ہے ،کہیں مذہب کے نام پر ڈھول پیٹاجا رہا ہے تو کہیں آزادانہ ٹھمکے لگ رہے ہیں ،کہیں ترانے ہیں تو کہیں گانے،ترانے والے گانے والوں کو کافر کہہ رہے ہیں تو ٹھمکوں والے دوسروں کو بے ایمان ثابت کرنے میں مصروف ہیں ۔لیڈران کا تو آج کل وہ حال ہے کہ " دن کہیں ، رات کہیں ، صبح کہیں ، شام کہیں "انہیں تو سانس لینے کی فرصت نہیں اور رہ گئے بے چارے عوام تو ان کی جمالیاتی حس ویسے ہی کھو چکی ہے ۔یہ سب دیکھ دیکھ کر ان کی تہذیب و اخلاق بھی کہیں دور روانہ ہوچکی ہیں۔ اخلاقی طور پر دیوالیہ تو ہو ہی چکے تھے ، لہذا اب انہیں بھی اسی اودھم دھاڑ میں مزا آتا ہے اور جسے جب موقع ملتا ہے دامے، درمے، سخنے اس بھونچال میں اپنا حصہ بھی ڈال دیتا ہے، کہیں جوتے برسا کر اور کہیں گالی کی صورت میں بلکہ اب تو گولی بھی میدان میں آچکی ہے اللہ ہم سب پر رحم کرے ،پہلے صرف اپنے پسندیدہ لیڈر کی پریس کانفرنس اور جلسے ہی جھوم جھوم کر دیکھے جاتے تھے لیکن اب سنگ دلی کا یہ عالم ہے کہ مخالفین کے جلسے بھی گھنٹوں آنکھیں پھاڑ کر محض اس لئے دیکھے جاتے ہیں کہ نجانے کب کہیں سے جوتا یا گولی آجائے تو ہم اس دلفریب سین کو لائیو نہیں دیکھ پائیں گے ،اسی لئے بے چارے اپنے لیڈر کی محبت میں قریب جانے والے عوام بھی شک کی بناء پر ٹھوک پیٹ کر دور سے ہی روانہ کر دئے جاتے ہیں اور وہ معصوم گالیاں کھا کر بھی بے مزہ نہیں ہوتے بلکہ سینہ تان کر زندہ باد کے نعرے لگاتے ایسے چل دیتے ہیں جیسے کوئی اعزاز مل گیا ہو ، اب آپ لوگ خود ہی بتائیں، ایسے ماحول میں عید سیاسی نہیں کہلائی جائے گی تو اور کیا کہلائے گی؟ ہم نے اپنی ان گناہ گار آنکھوں سے دیکھا ہے کہ خواتین تک کو مہندی ، چوڑی، گجرا، کنگن، ہار بھولا ہوا ہے ،ہاں کپڑے نہیں بھولے یہ ہم اقرار کرتے ہیں ،البتہ سنا ہے کہ اس سال خواتین کپڑوں میں اپنی سیاسی پارٹی کے جھنڈوں کے رنگ کے کپڑے لینے کو ترجیح دے رہی ہیں ، چوڑیاں بھی اسی کی میچنگ کی لے لی جا ئیں گی اور تو اورمہندی لگوانے سے زیادہ دلچسپی انگوٹھے پر ووٹ ڈالنے کے بعدلگائی جانے والی سیاہی میں ہے ،" اب دیکھئے کیا گذرتی ہے قطرے پر گہر ہونے تک" ۔ پورا ملک رنگ برنگے جھنڈوں سے سجا ہوا ہے ،تقریباًایک مہینہ رہ گیا ہے امید تو یہی ہے کہ انتخابات وقت پر ہوجائیں گے اور اللہ کرے ایسا ہی ہو کہ بقر عید سے پہلے ہمارے ملک کا نظم و نسق بہترین ہاتھوں میں چلا جائےاور اگر خدانخواستہ کسی بھی وجہ سے یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی تو سیاست دانوں کا تو کچھ نہیں جائے گا ٹکٹ کٹا کر امریکہ، دبئی ، لندن جانا کون سا مشکل ہے ۔ہم تو یہ سوچتے ہیں کہ ہمارا یعنی عوام کا کیا ہوگا ؟؟ بقول شاعر

وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا

مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا

بے چارے بجلی، پانی، گیس ،تعلیم اور صحت کو ترسے عوام کی امید بھری نظریں انتخابات کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ اللہ ہم سب کی امیدیں پوری کرے ۔خدا کرے کہ اگلے رمضان ہم اپنے روزے کم از کم لوڈ شیڈنگ میں نہ گذاریں ،کیونکہ اتنا تو ہم جانتے ہیں کہ جو بھی نئی حکومت آئے گی وہ جادو کی چھڑی لے کر نہیں آئے گی کہ گھمائی اور سب کچھ ٹھیک ہوگیا ،البتہ امید ہی کرسکتے ہیں کہ عوام کی بہتری کے اقدامات کئے جائیں گے، کم از کم اتنا تو ہوجائے کہ ایئر کنڈیشنگ بسوں میں لوگ ڈبل ٹکٹ لے کر صرف اس لئے نہ بیٹھیں کہ روزہ ٹھنڈک میں گذارا جائے نہ ہی بجلی جانے کے وقت فالتو میں شاپنگ مالز میں ادھر سے ادھر چکراتے پھریں ۔ابھی ہم نے ایک بابرکت مہینہ گذارا ہے، جس میں رحمت ، مغفرت اور جہنم کی آگ سے آزادی کا وعدہ ہے ،امید ہے اس ماہ کی برکت سے اللہ تعالی ہماری دعائیں بھی ضرور قبول فرمائے گا اور ہمارے لیڈرز کو بھی یہ توفیق دے گا کہ اپنی زبان و انداز کی تلخیوں کو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے کلچر اور ہر وقت طیش، غصہ، اشتعال والی سیاست کوچھوڑنے کی کوشش کریں۔ اگر آپ لوگ ملک اور عوام کی بہتری کے لئے نکلے ہیں تو سب سے پہلے ان چیزوں پر عمل کرنا ہوگا ۔ایک راہ نما کے پیچھے اس کے بہت چاہنے والے ہوتے ہیں اور وہ اس کے طریقے پر ہی چلنے کی کوشش کرتے ہیں بحث و اختلاف مہذبانہ طریقے سے بھی ہوسکتا ۔لکھتے لکھتے خیال آیا کہ میں یہ کیوں لکھ رہی ہوں ،بھلا نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنے گا ؟لیکن کیا کریں کہ " نہ تم بدلے ،نہ میں بدلا ، نہ دل کی آرزو بدلی " ہر مرتبہ الیکشن کے قریب یہی امید بھری باتیں ہوتی ہیں اور آخر میں ہم پھر اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ہیں بہر حال امید پر تو دنیا قائم ہے، اس لئے ایک بار پھر امید لگانے میں کوئی حرج نہیں ،سو امید کا دامن تھام کر عید منائیں اورسویاں کھائیں ایک بات طے ہے کہ اس عید پر مہمانوں سے بات چیت کا موضوع صرف اور صرف انتخابات ہی ہوگا اسی لئے ہماری طرف سے ایک بار پھر " سیاسی عید مبارک "

تازہ ترین