• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک بھلی مانس شرما شرما کر دعا مانگ رہی تھی ’’ اللہ میاں شوہرمیرا whiteہو ، لمبی اسکی Hightہو ،غصہ اسکا Lightہو،ہراگلا دن پچھلے سے Brightہو ، ڈنر روزانہ Candle Lightہو ،سسرال میں جب بھی میری Fightہو تو یہ بولے بیگم تم ہی Rightہو ‘‘۔ ایک شخص نے بڑے دکھی ہو کر جب مولوی صاحب سے کہا ’’حضور بیوی لڑکر میکے چلی گئی ہے ‘‘ تومولوی صاحب کے منہ سے بے اختیار نکلا ’’ تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے‘‘۔خاوند کی سالگرہ پر بیوی نے جب پوچھا ’’ جانو کیا گفٹ لو گے ‘‘ تو خاوند بولا ’’ اگر تم لڑنا جھگڑنا چھوڑ کر تمیز سے بات کرلو تو یہی کافی ہے ‘‘ بیوی بڑے پیار سے بولی ’’ نہیں جانو میں تو گفٹ ہی دوں گی ‘‘۔
ایک شخص نماز کے بعد ہاتھ اُٹھا کر بولا ’’ اے اللہ تو نے بچپن دیا پھر لے لیا ،جوانی دی پھر لے لی اورپھر بیوی دی …اللہ میاں اب کافی سال ہوگئے ہیں ‘‘ ۔رات کے کھانے کے بعد قہوہ پیتے اور ٹی وی دیکھتے خاوند سے بیوی نے پوچھا ’’ جانو ٹائی ٹینک کی ہیروئن کون تھی ‘‘ ٹی وی پر نظر یں جمائے خاوند بولا ’’ کیٹ ونسلٹ ‘‘ بیگم نے پھر پوچھا فلم ’’دل والے دلہنیا لے جائیں گے میں کاجل کا کیا نام تھا ‘‘قہوے کا گھونٹ بھر کر جب خاوند نے جواب دیا ’’ سمرن‘‘ تو بیوی نے اگلا سوال کیا ’’آخر ی پاک بھارت میچ میں شاہد آفرید ی نے کتنے رنز بنائے تھے ‘‘ پہلی بار ٹی وی کی بجائے بیوی کو دیکھ کر خاوند بولا’’آخری میچ میں تو شاہد آفریدی کھیلا ہی نہیں تھا‘‘ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد بیوی پھر بولی ’’ ہماری پڑوسن شگفتہ کو یہاں آئے ہوئے کتنا عرصہ ہوا ہوگا‘‘ اب باقاعدہ بیوی کی طرف مڑنے اور ٹی وی کی آواز آہستہ کرنے کے بعد خاوند نے کہا ’’ اُسے تو یہاں آئے ہوئے ایک سال 2مہینے اور 18دن ہوگئے مگر تم یہ انٹ شنٹ کیوں پوچھ رہی ہو‘‘ بیوی بولی ’’میں یہ انٹ شنٹ اس لئے پوچھ رہی ہو ں کیونکہ تم بھول گئے کہ آج میری سالگرہ تھی ‘‘۔
جیسے مسلم دنیا میں بہت کم بکرے ایسے جو اپنی طبعی موت مریں ایسے ہی اپنے ہاں بہت تھوڑے خاوند ایسے جواپنی مرضی کی زندگی جی پائیں ،یہا ں خاوندوں اور حکمرانوں کو کبھی کسی نے سکھی نہ دیکھا ، یہاں شادی بجلی کی وہ تار کہ جو اگر صحیح جڑ جائے تو گھر روشن ورنہ زندگی کی ہر شے جل جائے ، یہاں کامیاب ازدواجی زندگی کے دوہی اصول، پہلا یہ کہ بیوی ہمیشہ حق پر اور دوسرا اگر بیوی حق پر نہ ہو تو پہلا اصول دیکھ لیں ،یہاں گستا خِ بیگم کی حالت اُس مریض جیسی جس سے ڈاکٹر نے جب پوچھا کہ تمہارے دانت کیسے ٹوٹے تو وہ بولا’’ گزشتہ روز بیگم نے مٹن کچھ زیادہ ہی کچا پکا دیا تھا‘‘،ڈاکٹر نے کہا ’’تم کھانے سے انکار کر دیتے‘‘،مریض نے جواب دیا ’’یہی تو کیا تھا‘‘، یہاں بیویا ں شوہروں پر ایسا اندھا اعتبا ر کریں کہ ایک شوہر بیگم کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر بڑے ہی لاڈ بھرے لہجے میں جب بولا’’جانِ من میں اگلے 100سال تمہارے ساتھ رہنے کا وعدہ کرتا ہوں‘‘ تو بیوی ہاتھ چھڑا کر بولی ’’ بعد میںکہاں منہ کالا کرو گے‘‘۔
کہتے ہیںجو غلطی نہ کرے وہ فرشتہ ،جو غلطی کرے وہ انسان ،جو غلطی کرکے ڈٹ جائے وہ شیطان اور جسے واقعی شیطان سمجھا جائے وہ خاوند ۔خاوند بولے تو قصوروار ،یہ چپ ہو تو دوشی ، بیگم کی تعریف نہ کرے تو برااور اگر تعریف کر دے توپھر اسکی حالت اُس شریف النفس جیسی جس نے کبھی بیگم کے کھانے کی تعریف نہیں کی تھی لیکن ایک دن کہیں سے یہ سن کر کہ بیگم کے کھانوں کی تعریف کرنا بھی ثواب ہے، اس نے دال کھاتے ہوئے جب ابھی یہی کہا تھا کہ ’’ واہ کیا بات ہے، ایسی دال تو زندگی بھر نہیں کھائی ، کمال کا ذائقہ ہے ،یہ دال تو گوشت کا نمبر بھی کاٹ گئی ‘‘تو بیلن ہاتھ میں پکڑ ے بیگم صاحبہ کچن سے باہر آکر انتہائی غصے سے بولیں ’’ 20سال ہوگئے مجھے تیرا دوزخ بھرتے ہوئے مگر تو نے کبھی ٹوٹے منہ میری تعریف نہ کی اور آج پڑوسن نے دال بھجوادی تو تعریفیں کر کر آسمان سر پر اُٹھا لیا ،حد ہوتی ہے بے شرمی کی ‘‘۔ برصغیر پاک وہند وہ خطہ جہاں لوگ انگریزوں کی غلامی سے پہلے بھی غلام ہی تھے،مطلب بیویوں کے غلام اور غلام بھی ایسے کہ جیسے جلی سڑی روٹیاں کھاتے ایک خاوند نے جان پر کھیل کر جب یہ کہا کہ ’’ ہماری شادی کو اتنا عرصہ ہو گیا لیکن تمہیں روٹیاں بنانا نہ آئیں،کم ازکم اپنی ماں جیسی روٹیاں ہی پکا لو ‘‘ تو بیگم دھاڑی ’’ میں اپنی ماں جیسی روٹیاں کیسے پکاؤں ،تم ویسا آٹا ہی نہیں گوندھتے جیسا ابا گوندھتے ہیں ‘‘۔
ہمارا وہ دوست جس کا تعلق اُس باپردہ گھرانے سے کہ جہاں کی مکھیاں بھی دوپٹہ اوڑھ کر اڑیں ، جسکی نظر ایسی کہ اسے پاس بیٹھا بندہ تو دکھائی نہ دے مگر میلوں دور لڑکی نظر آجائے ، جسکی باتوں میں اتنی ہی حماقت کہ جتنی کسی بے وقوف کی گفتگو میں دانش ، جو اس قدر ناقابلِ اعتبار کہ کبھی اور کسی وقت بھی سچ بول دے ،جو دوستوں سے سلام یوں لے کہ جیسے خیرات دے رہا ہو، جو خواتین سے بات وہاں سے شروع کرے جہاں دوسرے ختم کر دیں ، جسے ایک بار جب پتا چلا کہ روز ایک سیب کھانے سے ڈاکٹر دور رہتا ہے تو پھر ایک عرصے تک وہ اپنی نرس دوست کو روزانہ ایک سیب بھجواتا رہا ،جسکی چال خاوندوںجیسی اورچلن بیویوں جیسا ، جو اوپر سے اتنا میٹھا کہ چھینک بیگم کو آئے اور نزلہ اسے ہو جائے مگر اندر سے اتنا کھٹاکہ ابھی تک پچھتائے کہ ایک بار جب بیوی کے منہ پر مچھر بیٹھا تھا تو اس نے یہ مچھر کیوں نہ مارا اور جس کا پسندیدہ شعر یہ کہ :
نجانےگزرے گی کیا دل پہ کیسی وہ گھڑی ہوگی
سنا ہے درمیاں حوروں کے بیگم بھی کھڑی ہو گی
پچھلے 5سالوں میں 4بیویاں بھگتا کر آجکل پانچویں کے چکر میں ’’چکروچکر‘‘ ہمار ے اسی’’ بیوی اسپیشلسٹ ‘‘ دوست کا تجربہ بتائے کہ بیوی وہ پل صراط جسے آج تک کوئی خاوند پار نہ کر سکا ، اسی کا وجدان کہے کہ شادی سے پہلے جومحبت ٹھاٹھیں مارے شادی کے بعد وہی محبت ٹھاہ ٹھاہ مارے ، اسی کی تحقیق کا نچوڑ کہ بیوی کو خوش کرنا جتنا آسان اسے خوش رکھنا اتناہی مشکل ، اسی کا فرمان کہ بیوی وہ ماچس کی تیلی جو پانی کو بھی آگ لگا دے اور اسی کی منطق کہ جس طرح یہ غلط ہے کہ پی پی کا عزیر بلوچ سے ،ایم کیو ایم کا صولت مرزا سے اور مسلم لیگ (ن) کا گلوبٹ سے کوئی تعلق ہے ،اسی طرح یہ بھی غلط ہے کہ پاکستانی مرد بیویوں کے تھلے لگے ہوئے ہیں ۔
ایک خاوند نے اپنی بیوی کو اسکی سالگرہ پر جب ڈائمنڈ کی انگوٹھی دی تو پھر بیوی نے ایک مہینے تک خاوند سے بات نہ کی ،آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ انگوٹھی نقلی تھی ،نہیں انگوٹھی اصلی ہی تھی ،دراصل دونوں میں معاہدہ ہی یہی ہواتھا ۔ بدذائقہ کھانوں کی ایک ماہر بیگم نے میاں کو دفتر فون کیا ’’ سنو آج میں کیا پکاؤں پلاؤ یا بریانی ‘‘ خاوند بولا ’’ جو بنانا ہے بنا لو ، نام بعد میں مل کر رکھ لیں گے ‘‘ ۔
شادیوں کے شوقین شہنشاہ اکبر نے ایک مرتبہ اپنے دانشور وزیربیر بل سے سوال کیا ’’ مرد اور عورت کی سوچ میں کیا فرق ہوتا ہے ‘‘بیر بل بولا ’’ عورت ایک ہی مرد سے بہت ساری امیدیں رکھتی ہے جبکہ مرد بہت ساری عورتوں سے ایک ہی امید رکھتا ہے‘‘ پھر اک سیانے سے کسی نے پوچھا کیا چالاک مرد اچھے خاوند ہوتے ہیں تو سیانا بولا چالاک مرد کبھی خاوند نہیں ہوتے، کچھ اسی طرح کے اپنے ایک مشہور سیانے رہنما نے چند سال پہلے ایک نامور اداکار ہ سے کہا کہ ’’آپکی شکل میری تیسری بیوی سے بہت ملتی ہے ‘‘ اداکارہ نے مسکرا کر جب پوچھا ’’آپ نے کتنی شادیاںکی ہیں ‘‘تو وہ بولا ’’2 ‘‘، یہ بھی کسی سیانے کا ہی قول کہ خاوند اور سیاستدان جتنا جھوٹا،اُتنا کامیاب، سیاستدان سے یاد آیا، اپنے چھوٹے میاں صاحب کا ایک ’’فین ‘‘ پہلی بار لاہور آیا تو ایک پلازے میں داخل ہوتے ہوئے دروازے پر لکھا Pullدیکھ کر جذباتی ہو کر بولا’’ وا ہ میاں جی واہ کتھے کتھے پل بنوا چھڈے جے ‘‘ ۔ گو کہ اپنے ہاں پہلے ہی کنفیوژن ایسی تھی کہ ایک طرف ہر مرد چاہے کہ وہ عورت کی زندگی کا پہلا مر دہو اور ہر عورت کی خواہش کہ وہ مرد کی زندگی کی آخری عورت ہو جبکہ دوسری طرف ساری عمر مرد اسکے پیچھے بھاگے جوا سکی پہنچ سے ہی دور ہو اور عورت عمر بھر اسے سنبھالتی رہے جو اس کا ہو ہی نہ اوریہاں کنفیوژن ایسی کہ ایک طرف خاوند گھر کا ایسے ہی ہیڈجیسے ملک کا سربراہ صدر جبکہ دوسری طرف خاوند گھروں میں اور صدر ملک میں کتنا بااختیار …؟
لیکن دوستو! اگر یہ کنفیوژن یہاں تک ہی رہتی تو ٹھیک تھی،اپنے ہاں تو کنفیوژن نے بھی یوں حد کر دی کہ یہاں ایک طرف گھر گھر راج بیگم کااور دوسری طرف ملک پر حکومت میاں کی ۔ہیں جی…ہاں جی ۔
تازہ ترین