• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی پریس کی ایک خبر:
’’درجنوں مشتعل افراد نے بکری چوری کے الزام میں تشدد کر کے نوجوان کو قتل کر دیا۔ ذرائع کے مطابق خانیوال کے نواحی علاقہ چھب کلاں میں انسانیت سوز واقعہ پیش آیا، لوگ خود ہی منصف بن گئے۔ مشتعل ہجوم نے بکری چوری کرنے کا الزام لگا کر سرعام تشدد کا نشانہ بنایا۔ نوجوان زندگی کی بھیک مانگتا رہا لیکن کسی نے ایک نہ سنی اور کلہاڑیوں سے وار کر کے جان سے مار دیا۔‘‘
غالباً دس برس یا آٹھ برس ہونے کو ہیں، سیالکوٹ میں دو بھائیوں کو ڈنڈے مار مار کر قتل کر دیا گیا تھا، ظاہر ہے ڈنڈوں سے ہلاک کئے جانے کے عمل میں کافی دیر لگی، دونوں واقعات پنجاب کی سرزمین کے احوال اور پنجابی قومیت کی مجموعی ذہنی ساخت کو انسانیت کے سینے میں زہریلے تیر کی طرح پیوست کر دیتے ہیں۔
لاہور بھی پنجاب میں واقع اور صوبے کا دارالحکومت ہے، کچھ روز پہلے ڈولفن پولیس فورس نے معاشرے کو ’’مجرموں‘‘ سے بچانے کے لئے ایک نو عمر راہ گیر لڑکے کو مار ڈالا، پولیس افسروں کے مطابق پاکستانی معاشرے کے درپے ان ’’مجرموں‘‘ کی بیخ کنی میں ڈولفن فورس کے لڑکوں نے فرض شناسی کا ’’شاہی مینارہ‘‘ تعمیر کر دیا، راہ گیر لڑکے کی آئی ہوئی تھی، فورس مکمل طور پر صاف سلیٹ ہے، اس پر غلطی، سہو یا رعونت کے کسی چھینٹے کا گمان کرنا کبیرہ گناہوں میں شمار ہو گا۔ یہ واقعہ بھی پنجاب کی سرزمین کے احوال اور پنجابی قومیت کی مجموعی ذہنی ساخت کے سینے میں زہریلے تیر کی طرح پیوست رہے گا۔
پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں پولیس اور دیگر سول یا غیر سول اداروں کی فورسز نے پاکستانی دھرتی پر ظلم و بربریت کے پاپ کا گھڑا بھر دیا ہے یا نہیں؟ یہ اب چھلک پڑا ہے یا نہیں؟ پاکستان جیسے ملک میں اس کا فیصلہ تجربے کی روشنی میں، قدرت پر چھوڑ دیا جائے، اس کے علاوہ ہر جانب سے آنے والا ہر جواب مقدس یا غیر مقدس آلودگیوں کا ایک عبرت آموز شاہکار ہو گا۔ یعنی پاکستانی سوسائٹی کی اصل سچی صورتحال کیا ہے؟ یہاں انسان کی عزت یا تحفظ کا کبھی بھی کوئی غیر جانبدار لمحہ موجود رہا ہے؟ اور اگر کبھی نہیں رہا تب ہمیں پاکستانی ریاست کو کس نقطہ نظر سے بیان کرنا چاہتے؟ حتیٰ کہ نواز شریف کا موجودہ بیانیہ پاکستانی دھرتی پہ انسان کی عزت و جان کی نفی کا اندمال کا سبب بن سکتا ہے۔
اصولی نتیجہ نکالنے سے قبل ایک سول فورس ’’پولیس‘‘ پر تھوڑی سی مزید گفتگو۔
70برس پہلے نہیں صرف بارہ برس قبل سے شروع کرتے ہیں۔ 28اور 29مئی 2006کی درمیانی رات، تین اور سوا چار بجے کے درمیان پنجاب پولیس لاہور نے انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کے 20سالہ طالب علم رائو ذیشان کو قتل اور اس کے 24سالہ دوست خالد سلمان کو زخمی کر دیا۔ دینی نقطہ نظر سے یہ تہجد کا وقت ہے جب خدا پہلے آسمان پر ہوتا ہے۔
29مئی 2006کے اردو انگریزی اخبارات میں دونوں بچوں کے حوالے سے شائع شدہ خبر کی تفصیلات میں انیس بیس کا فرق بھی مشکل سے تلاش کیا جا سکتا تھا، گویا وقوعہ کھلا اور سیدھا ٹھہرا جس کے باعث اخباری رپورٹنگ کو کسی بھی نوعیت کے روایتی سقم سے دوچار نہیں ہونا پڑا۔ خبر یہ تھی۔
’’کوٹھا پنڈ اسٹاپ فیصل ٹائون میں موٹر سائیکل سوار پولیس والوں نے فائرنگ کر کے 20سالہ طالب علم ذیشان کو ہلاک اور اس کے دوست 24سالہ سلمان خالد کو زخمی کر دیا۔ مقتول ذیشان اوکاڑہ کا رہائشی اور گارڈن ٹائون کالج آف مینجمنٹ سائنسز میں پڑھتا تھا اور کالج کے ہاسٹل میں رہائش پذیر تھا، اس کا دوست سلمان اپنے والد کے ساتھ بزنس کرتا تھا۔ دونوں صبح تقریباً سوا تین بجے جوہر ٹائون سے گارڈن ٹائون کی طرف آ رہے تھے، جب وہ کوٹھا پنڈ اسٹاپ کے قریب پہنچے تو موٹر سائیکل پر گشت کرنے والے دو پولیس اہلکاروں نے انہیں رکنے کا اشارہ کیا لیکن انہوں نے پولیس کے خوف سے موٹر سائیکل بھگا دی، موٹر سائیکل سوار پولیس والوں نے ان کا پیچھا کرتے گولیاں چلائیں، ایک گولی ذیشان کے سر پر لگی جبکہ سلمان کو بھی ایک گولی لگی۔ پولیس اہلکار موقع سے فرار ہو گئے، دونوں دوست خون میں لت پت کافی دیر تک وہاں پڑے رہے۔ صبح فجر کی نماز پڑھنے کے لئے جانے والے ایک شخص نے انہیں خون میں لت پت دیکھ کر پولیس کو اطلاع دی، بعد ازاں ریسکیو 1122نے دونوں کو جناح اسپتال پہنچایا۔ وزیر دفاع رائو سکندر اقبال کے آبائی قصبے 40تھری آر کے رہائشی رائو ذیشان کی لاش گھر پہنچی تو گائوں میں کہرام برپا ہو گیا، سارا گائوں پولیس کے خلاف سراپا احتجاج بن گیا۔ متوفی کی والدہ اور بہنوں پر غشی کے دورے پڑنے لگے، اس موقع پر پولیس کے خلاف زبردست نعرے بازی کی گئی۔ متوفی رائو ذیشان کے گھر میں اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے تحصیل ناظم اوکاڑہ رائو محمد جمیل اختر نے کہا کہ رائو ذیشان کی ہلاکت لاہور پولیس کی غنڈہ گردی ہے جس کے خلاف ہر سطح پر احتجاج کیا جائے گا۔ ذیشان والدہ کا اکلوتا بیٹا تھا۔‘‘
اخبارات کے مطابق متعلقہ پولیس اہلکار گرفتار کئے جا چکے ہیں۔
29مئی 2005کو ہی مانگا منڈی میں ایس پی ریجنل انویسٹی گیشن شیخوپورہ گوہر نفیس اور اس کے دوست کامران کی شوقیہ فائرنگ سے کھیتوں میں کام کرنے والا ایک محنت کش بلال شدید زخمی ہو گیا، ریکارڈ پر ردعمل یہ تھا۔ ’’14کروڑ عوام میں سے ایک شخص مر بھی جائے تو کیا فرق پڑتا ہے۔‘‘
2006کے قریب ترین ماضی کے ایک واقعہ کا ذکر بھی ناگزیر ہے، یہ واقعہ ہمیں پنجاب پولیس فورس کے تناظر میں اپنے مطلوبہ ہدف اور نتائج تک پہنچانے میں فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے۔ اخبارات کے علاوہ یہ کہانی ماہنامہ ’’ایف آئی آر افیئرز‘‘ لاہور نے جنوری 2004کے شمارے میں شائع کی اس کا تعلق ٹائون شپ کے 26سالہ نوجوان شمعون سے ہے۔ عزیزم شوکت ڈار اس وقت اس جریدے کا ایڈیٹر تھا۔ پنجاب پولیس کے ناکے پر کھڑے اہلکاروں نے شمعون کو اسی بے خوفی سے قتل کیا جو رائو ذیشان کے لئے موت کا پیغام ثابت ہوئی۔
مذکورہ جریدے کی رپورٹ کے مطابق:’’پولینڈ سے سات ماہ قبل ’’ایم بی اے‘‘ کر کے متمول خاندان کے 26سالہ نوجوان شمعون احمد کو تھانہ ٹائون شپ کے تین اہلکاروں نے جن میں ایک سب انسپکٹر محمد صدیق اور دو کانسٹیبل محمد اسلم اور محمد یوسف شامل تھے، رحمت میموریل اسپتال سے صرف چند گز کے فاصلے پر فائرنگ کر کے قتل کر ڈالا۔مقتول دو ماہ بعد مزید تعلیم کیلئے امریکہ جانے والا تھا جس کیلئے اسے ویزہ بھی مل چکا تھا۔‘‘
وائر لیس پر جیسے ہی اس وقوعہ کی خبر چلی ایس پی صدر ڈویژن ابدالی کمیانہ، اے ایس پی ٹائون شپ سرکل حبیب گل اور ڈی ایس پی انویسٹی گیشن سیل ملک قاسم موقع پر پہنچ گئے، جبکہ اطلاع ملنے پر مقتول کے لواحقین بھی آ گئے، بعد ازاں ایس پی صدر کی ہدایت پر مذکورہ تینوں پولیس ملازمین کے خلاف تھانہ ’’ٹائون شپ‘‘ میں تعزیرات پاکستان کی سنگین دفعات 302/324کے تحت مقدمہ درج کر کے انہیں گرفتار کر لیا گیا جبکہ واردات میں استعمال ہونے والا سرکاری اسلحہ بھی سرکاری تحویل میں لے کر ’’سیل بند‘‘ کر دیا گیا، اس مقدمے کو مقتول کے بڑے بھائی نوید احمد شیخ نے رجسٹر کرایا جو اچھرہ میں پلاسٹک پرنٹنگ کا کام کرتے ہیں۔ انہوں نے جو ایف آئی آر درج کرائی اس کا متن بڑا مختصر تھا۔ انہوں نے تحریر کرایا ’’مقتول شمعون احمد کمپیوٹر ٹھیک کرانے کی غرض سے اپنی ذاتی ٹیوٹا کرولا میں ساڑھے چھ بجے اپنے گھر واقع سیکٹر C-1ٹائون شپ سے نکلا، میں بھی اس کے ساتھ تھا، جب ہم رحمت میموریل اسپتال کے نزدیک پہنچے تو متذکرہ پولیس ملازمین نے جو ناکہ پر کھڑے تھے گاڑی روکنے کا اشارہ کیا لیکن تیز رفتاری کے باعث گاڑی کچھ فاصلہ طے کر گئی جس پر مذکورہ پولیس پارٹی نے ہم پر فائر کھول دیا، ایک فائر مقتول کے سر پر اور دوسرا کنپٹی کے قریب لگا، مقتول شدید مضروب ہو کر گر پڑا اور موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا جبکہ میں بال بال بچ گیا۔
ماہنامہ ’’ایف آئی آر افیئرز‘‘ کا یہ بھی کہنا تھا ’’اندراج مقدمہ کے بعد جب سب انسپکٹر صدیق سمیت دونوں کانسٹیبل اسلم اور یوسف گرفتار ہوئے تو صدیق نے حلفاً کہا کہ وہ بے گناہ ہے، جبکہ وقوعہ کا ذمہ دار حاجی اکرم (ایس ایچ او) ہے، کیونکہ وہی وقوعہ کے وقت ’’جائے واردات‘‘ پر تھا۔ دونوں کانسٹیبلوں نے بھی اپنی غلطی تسلیم کی اور جرم کا اعتراف کیا‘‘
پاکستان، ریاست پاکستان، سول اور غیر سول فورسز اور عوام کے نازک موضوع پر ابھی گفتگو جاری ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین