(گزشتہ سے پیوستہ)
اب ڈھاکہ کی سنئے! چھاترو شبر کی کانفرنس کے بعد انڈین ایمبیسی پہنچا۔ ویزا آفیسر نے پاسپورٹ دیکھتے ہی کہا کہ ہم تو پاکستانیوں کو صرف اسلام آباد سے ویزا دیتے ہیں۔ پھر میرا پاسپورٹ لیکر کہا کہ کل آئیے گا، اگلے دن حاضری دی تو انہوں نے بڑے آفیسر کے پاس بھجوا دیا۔ ان صاحب نے میرا انٹرویو شروع کیا۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں پنجاب یونیورسٹی میں MBA کا طالب علم ہوں اور ایک ملک کی ٹکٹ میں دوسرے ملک کا مفت سفر کرنے کی سارک کی پیشکش سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہوں۔ ساتھ ہی اپنے عزیزوں کے خطوط کا پلندہ ان کے سامنے کردیا۔ اس کے بعد اس آفیسر نے میری برین واشنگ شروع کردی۔ دیکھیے یہ تقسیم کتنی غلط تھی۔ رشتے بٹ گئے۔ زمین بٹ گئی یہ لکیریں غلط ہیں وغیرہ وغیرہ آخر میں انہوں نے پوچھا کہ کتنے دن کے لیے جانا چاہتے ہو۔ میں نے محاورتاً کہہ دیا کہ سمسٹر بریک ہے بس دو دن کے لیے جانا چاہتا ہوں۔ کچھ انتظار کے بعد جب پاسپورٹ واپس ملا تو دیکھا کہ صرف اور صرف دو دن کے لیے ویزا دیا گیا تھا۔
بذریعہ ہوائی جہاز ڈھاکہ سے رات گئے بمبئی پہنچا۔ رات میں اپنے عزیزوں کا گھر ڈھونڈنا مشکل تھا۔ ٹیکسی کروا کر رات ہوٹل میں گزاری صبح اپنے عزیزوں کے فلیٹ پہنچ گیا۔ اگلے دن پولیس اسٹیشن جاکر آنے اور جانے کی رپورٹ ایک ہی وقت میں کروائی۔ اس وقت میں نہ جماعت اسلامی کا رکن تھا اور نہ ہی پراپیگنڈا سیکرٹری لیکن بی رامن نے اپنی کتاب میں نہ جانے کیوں مجھ ناتواں پر بارڈر کراسنگ اور بھارت توڑنے کے K2 جیسے سنگین الزامات لگا دیئے۔ ہوا یوں کہ ’’را‘‘ کے ڈپٹی نے چیف خانہ ساز کہانی بھارتی میڈیا سے لی اور یہ کہانی ہے بابری مسجد کی شہادت کے بعد کی۔ یہ کہانی شروع ہوتی ہے بھارت کے ایک اور سفر سے جب میں ایک بار پھر اسلام آباد سے ویزا لیکر لاہور سے دہلی بذریعہ پی آئی اے گیا۔ یہ سفر انڈیا میں وہاں کی ایک طلبہ تنظیم اسٹوڈنٹ اسلامک موومنٹ آف انڈیا (SIMI) کی دعوت پر کیا۔
بابری مسجد کی شہادت سے چند ماہ پہلے سمی نے ’’اقدام امت کانفرنس‘‘ کا انتظام کیا تھا۔ لاکھوں پرجوش نوجوان جمع تھے۔ جوش بھی ایسا کہ مجھ جیسے کے ہوش اڑ گئے۔ اس کانفرنس کا ایک پوسٹر جو دیواروں پر لگا ہوا تھا اس کی تحریر تھی ’’ہندوستان منتظر ہے ایک اور شہاب الدین غوری کا‘‘ کانفرنس میں دیگر ممالک سے بھی مندوبین آئے ہوئے تھے۔ تقریر کر کے میں اسٹیج سے اتر رہا تھا تو ایک نوجوان نے گلے ملتے ہوئے میری گرم تقریر پر تبصرہ کیا، ہم آپ سے اس سے زیادہ توقع رکھتے ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ بھائی مجھے واپس بھی جانا ہے۔
سمی کی یہ کانفرنس ان کیلئے مشکلات کا سبب بن گئی۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہند سرکار نے مسلمانوں پر کریک ڈائون شروع کردیا۔ سمی کالعدم قرار دے دی گئی۔ لیڈر شپ گرفتار اور اثاثے ضبط ۔ کانفرنس کے منتظمین اور مجھ سمیت کانفرنس کے مقررین کیخلاف دہشتگردی کے مقدمات درج کیے گئے اور انڈین اخبارات نے بے پناہ پراپیگنڈہ کیا۔ ایک شام جنگ کے سینئر نیوز ایڈیٹر جواد نذیر کا فون آیا کہنے لگے ’’صبح تمہاری لیڈ اسٹوری جارہی ہے‘‘ میں بھاگم بھاگ جنگ لاہور کے مین ڈیسک پر جا پہنچا تو انہوں نے انڈیا سے آئے ہوئے اخبارات سامنے کردیئے۔ میں نے وضاحت کی کہ یہ سب جھوٹ کا پلندہ اور خانہ ساز خبریں ہیں۔ بڑی مشکل سے انہیں راضی کیا کہ وہ یہ خبریں مت دیں۔ بی رامن نے بھی اپنی کتاب میں ان پرانے اخباری تراشوں سے ہی کام چلایا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہمیں ہندوستانی عزائم سے خبردار رہنا چاہیے۔وہ مبصرین جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہندوستان تو عدم تشدد کے فلسفے پر قائم ہے۔ پاکستان کو چاہئے کہ وہ تنازعات بھول کر دوستی کا ہاتھ بڑھائے۔ وہ برصغیر میں برسوں کی اس اجتماعی دانش سے آنکھیں بند کر رہے ہیں جس کا نچوڑ ’’بغل میں چھری اور منہ میں رام رام‘‘ کے محاورہ میں ہے۔اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ پاکستان اور ہندوستان میں دوستی ہونی چاہیے لیکن یہ دوستی جیو اور جینے دو کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ یہ جو سوچ ہے کہ تنازعات تو بھاڑ میں جائیں دوستی بس شروع کرلیں۔ ایک دوسرے کو دھوکہ دینے والی بات ہے۔ ایٹمی ٹیکنالوجی کے حامل دو ملکوں میں تنازعات کا باقی رہنا عالمی امن کے لیے بھی بڑا خطرہ ہے۔ امریکہ سمیت جو لوگ بھی ٹریک ٹو، شٹل ڈپلومیسی اور اعتماد سازی (CBM) کے پیچھے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ نیک نیتی سے اصل مسئلہ سلجھائیں۔
ہندوستان کی دھرتی سے ہمیں کوئی خار نہیں ہے۔ یہ ہمارے بزرگوں کی بھی دھرتی ہے۔ ہمارے لیے قابل احترام ہے۔ ہندو مذہب جیسا بھی ہے لیکن دین اسلام کا تقاضا ہے کہ مذہب کو برا بھلا نہیں کہا جاسکتا ہے۔ ہندوستانی بھی خدا کا ایک کنبہ ہے۔ نیپال جو دنیا بھر میں واحد ہندو اسٹیٹ ہے۔ ہم اسے بھی قابل نفرت نہیں سمجھتے۔ اصل معاملہ برصغیر کی تقسیم کا ہے۔ ہندوستانی اسٹیبلشمنٹ پاکستان کو ماننے کے بجائے مٹانے کے درپے رہتی ہے۔ کیا یہ کشمیر، سیاچین، آبی ذخائر جیسے تنازعات کے حل کی طرف آئیں گے۔ بی رامن اپنی پہلی کتاب کے اختتامی باب میں جو لکھتے ہیں وہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ صفحہ 264ء پر موصوف فرماتے ہیں ’’غیر مسلموں کے خلاف جہاد کو بطور ہتھیار استعمال کرنا اسامہ بن لادن اور القاعدہ کا کام نہیں تھا بلکہ یہ پاکستان کی مذہبی اور ملٹری لیڈر شپ کی اس وقت کی ایجاد تھی جب پاکستان 1947ء میں بنا تھا۔ پاکستان کا انڈیا کے خلاف جہاد 1989ء سے نہیں بلکہ یہ تو 1947ء سے شروع ہوا تھا۔‘‘
ہندوستانی اسٹیبلشمنٹ کی اس ذہنیت کے بعد بھی اگر کسی کو ان سے اچھی توقعات ہیں تو بقول غالب
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے