اسلام آباد(رپورٹ :رانامسعود حسین )عدالت عظمیٰ نے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کی عوامی عہدہ کیلئے نااہلیت کے حوالے سے مسلم لیگ کے رہنماملک شکیل اعوان کی جانب سے الیکشن ٹریبونل کے فیصلے کیخلاف دائر کی گئی اپیل مسترد کر تے ہوئے انہیں عوامی عہدہ کیلئے اہل قرار دیدیا ہے،جسکے بعد وہ عام انتخابات 2018میں حصہ لے سکتے ہیں جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے اختلافی نوٹ میں شیخ رشید کی اہلیت سے متعلق فیصلہ دینے کے بجائے اپنے فیصلے میں متعدد سوالات اٹھا تے ہوئے ان کے حل کیلئے فل کورٹ قائم کرنے اور اس پر فیصلہ آنے تک اس اپیل کو موخر کرنے کی رائے دی ہے ، ہمیں اس تاثر کو ختم کرنا چاہیے کہ مختلف لوگوں کے ساتھ مختلف سلوک ہوتا ہے، جسٹس عظمت،جسٹس سجادعلی شاہ کی جانب سے فیصلہ میں کہا کہ شیخ رشیدالیکشن میں حصہ لے سکیں گے، جسٹس فائزکی تجویزپرعمل سے پورانتخابی عمل رسک پرلگ جائیگا۔ جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے 20 مارچ کو کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد اس اپیل پر فیصلہ محفوظ کرلیاتھا، جو 2 ماہ 22 دن کے بعد بدھ کے روز بینچ کے سربراہ ، جسٹس شیخ عظمت سعید نے کھلی عدالت میں پڑھ کرسنایا، 51صفحات پر مشتمل فیصلہ دو ایک کے تناسب سے سنایا گیا ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلے میں27صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ لکھا ہے جبکہ جسٹس شیخ عظمت سعید نے23 صفحات پر مشتمل اکثریتی فیصلہ تحریر کیا ہے جس سے بنچ کے تیسرے رکن ، جسٹس سجاد علی شاہ نے بھی اتفاق کیا ہے، جسٹس شیخ عظمت سعید نے اپنے تحریر کردہ اکثریتی فیصلے میں قرار دیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا تحریر کردہ فیصلہ پڑھنے کے بعد اس پر دستخط کرنے سے قاصر ہوں،انہوں نے اپنے فیصلے میںتجویز دی ہے کہ اس اپیل پر فل کورٹ کے فیصلے تک کوئی فیصلہ نہ دیا جائے، اگر یہ تجویز مان لی جائے تو یہ عمل 2018کے عام انتخابات سے پہلے مکمل نہیں ہو سکتا جبکہ اعلیٰ عدلیہ سیاسی و قانون طور پر انتخابی عمل کا لازمی جزو ہے، اگرجسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بات تسلیم کر لی جائے تو انتخابی عمل کے دوران کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال سے لیکر الیکشن ٹریبونل ،ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک آنے والے تنازعات ، فل کورٹ کے مذکورہ کیس کے فیصلہ ہونے تک طے نہیں ہو سکیں گے، ان حالات میں 2018 کے الیکشن پر سوالا ت پیدا ہو ں گے اور آئندہ انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنا بھی مشکل ہو گا،اس تجویز پر عمل سے پورا انتخابی عمل ہی رسک پر لگ جائے گا، اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار نے بحریہ ٹائون کے گھر کی ادائیگی کم ظاہر کرنے کا سوال اٹھایا ہے لیکن دیگر الاٹیوں کی جانب سے شیخ رشید کی نسبت زائد ادائیگی کے شواہد فراہم نہیں کیے ہیں ، شواہدپیش نہ ہونے کی بناء پر شیخ رشید کے بیان کو غلط بیانی قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ انہوں نے کاغذات نامزدگی میں گھر اور قیمت دونوں ظاہر کی ہیں، اپیل کنندہ کی جانب سے ظاہر کیے گئے ذرائع آمدن کے علاوہ کوئی اکائونٹ یا اثاثہ منظر عام پر نہیں لایا گیا ہے ، اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ شیخ رشید1081کنال زمین کے مالک ہیں لیکن پرنٹڈفارم میں غلطی سے 983کنال لکھا گیا ہے تاہم جائیداد کی الگ الگ تفصیلات میں اراضی پورے 1081کنال ہی ظاہر کی گئی ہے ،اس لئےشیخ رشید پر زرعی اراضی چھپانے کا الزام بھی ثابت نہیں ہو سکا ،عدالت نے اپنے اکثریتی فیصلے میں قرار دیا ہے کہیں کہیں شیخ رشید نے درخواست گزار کے الزام سے بھی زیادہ جائیداد ظاہر کی ہے ، زیادہ جائیداد ظاہر کرنے پر بھی انہیں اثاثے چھپانے کا مرتکب قرار نہیں دیا جا سکتا ، عدالت نے اپنے اکثریتی فیصلے میں مزید لکھا ہے کہ درخواست میں انتخابات میں بدانتظامی کے نکتہ پر بحث نہیں کی گئی ہے،اپیل کنندہ کی ا لیکشن ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف اپیل میں کوئی ٹھوس مواد موجود نہیں تھا اسی لئے خارج کی گئی تھی اوریہ عدالت بھی اسی فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے اس کیخلاف اپیل کو خارج کرتی ہے ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ اس مقدمہ میں بہت سے ایسے نکات ہیں جن کا عدالتی جائزہ لینا ضروری ہے،اس لئے اس معاملہ کو فل کورٹ میں بھیجا جانا چاہئے ،اپنے اختلافی نوٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے 7 سوالات اٹھائے گئے ہیں کہ کیا کاغذات نامزدگی میں ہرغلط بیانی کا نتیجہ عوامی عہدہ کیلئے نا اہلیت ہے؟ غلط بیانی پر نااہلی کی مدت تاحیات ہوگی یا آئندہ انتخابات تک ہوگی ؟کیا آئین کے حلف سے متعلق ارٹیکل 225 سے متعلق انتخابی تنازعات میں آئین کے آرٹیکل 184/3 کا اطلاق ہو سکتا ہے؟ اورکیا آرٹیکل 184/3 کے مقدمہ میں آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت کسی رکن پارلیمنٹ کو نا اہل کیا جا سکتا ہے؟کیاآرٹیکل 62 ون ایف میں کورٹ آف لا ء کے ذکر میں سپریم کورٹ بھی شامل ہے؟ کیاعدالتی کارروائی کے دوران غلط بیانی کو عوامی نمائندے کی نااہلیت کیلئے زیر غور لایا جاسکتا ہے؟کیا کسی شخص کی انتخابی عذرداری کو عوامی مفاد کا معاملہ قرار دیا جاسکتا ہے؟ اگر عوامی مفاد کا معاملہ ہو تو کیا شواہد کی فراہمی سے متعلق قوانین کا اطلاق ہوگا؟جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید لکھا ہے کہ یہی سوالات اسحاق خان خاکوانی کیس کے فیصلے میں بھی اٹھائے گئے تھے۔