اسلام آباد(تبصرہ:طارق بٹ)سپریم کورٹ کے فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اقلیتی نوٹ میں لکھا ہے کہ نواز شریف کی طرح سخت جوابدہی اصول کا اطلاق شیخ رشید اور عمران خان پر نہیں ہوا،مختلف فیصلوں سے قانونی بے یقینی پیدا ہوگی۔اگرسخت جوابدہی کے اصول کا اطلاق ہوتا تو شیخ رشید کو بھی اسی طرح نااہل کیا جاتا جس طرح نواز شریف کو بطور وزیر اعظم نااہل کیا گیا تھا، تاہم انہوں نے بھی شیخ رشید کو نااہل قرار نہیں دیا بلکہ یہ رائے دی ہے کہ یہ کیس فل کورٹ بھجوادینا چاہیئے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے انے فیصلے میں لکھا ہے کہ پاناما کیس میں معزول وزیر اعظم کے خلاف فیصلے میں واضح طور پر سخت جوابدہی کے اصول کا اطلاق ہوا تھا۔تاہم، انہوںنے عدالت عظمیٰ کے دیگر فیصلوں پر عمل نہیں کیا جس میں کہا گیا تھا کہ غلط بیانی اور بات چھپانے کا نتیجہ صرف نااہلی ہوگا ۔دریں اثنا جسٹس عیسیٰ نے ایک نقطہ یہ بھی تحریر کیا کہ ہم اس تاثر کو زائل کرنے کی ہرممکن کوشش کریں گے کہ مختلف افراد کے ساتھ مختلف سلوک کیا جاتا ہے۔انصاف صرف ہونا نہیں چاہیئے بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیئے۔ارکان پارلیمنٹ کی اہلیت کے معیار کا فیصلہ یکساں بنیاد پر ہونا چاہیئے۔انہوںنے یہ بات بھی تحریر کی کہ پاناما کیس کے فیصلے کے بعد عمران خان کے خلاف حنیف عباسی کے کیس کا فیصلہ دوسرے بینچ نے کیا تھا ، جس میں سخت جوابدہی کے اصول پر عمل نہیں کیا گیا ۔انہوںنے تحریر کیا کہ عدالت عظمیٰ کے ایسے فیصلے بھی ہیں جس میں سخت جوابدہی کے اصول پر عمل ہوا اور کسی بھی قسم کی غلط بیانی اور بات چھپانے کا نتیجہ نااہلی قرار پایا۔پاناما کیس کے فیصلے میں اسی اصول پر عمل ہوا تھا۔رکن قومی اسمبلی جو وزیر اعظم منتخب ہوتا ہے ،ا گر وہ بطور رکن پارلیمنٹ نااہل ہوجاتا ہے تو وہ بطور وزیر اعظم بھی نااہل ہوجائے گا کیوں کہ اس نے اپنی آمدنی ظاہر نہیں کی تھی جو اس نے دبئی اقامہ کے ذریعے کمائی تھی یعنی اس بات سے قطع نظر کہ اس نے تنخواہ حاصل کی ہو یا نہیں ، اقامہ کی بنیاد پر یہ سمجھنا کافی ہے کہ اس نے آمدنی حاصل کی ہے ، جو کہ اس کا اثاثہ بنی ، جسے ظاہر نہیں کیا گیا اور اسی بنیاد پر اسے نااہل کیا گیا۔فیصلے میں کہا گیا کہ اس بات کا علم ہونے کے باوجود کہ شیخ رشید نےاپنے کاغذات نامزدگی میں اپنی تمام زرعی زمینیں ظاہر نہیں کی ہیں اور اپنے گھر کی قیمت سے متعلق غلط بیانی کی ہے تو اس سے متعلق سوچ بچار ضروری ہے۔اگر سخت جوابدہی کے اصول کا یہاں اطلاق ہوتا تو انہیں بھی نااہل ہونا پڑتا ۔تاہم اگر اس اصول کا اطلاق نہیں ہوتا تو اس کیس سے متعلق مزید تفصیلات کو جاننے کی ضرورت ہے۔مثلاً جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا کہ اگرکوئی شخص احتساب آرڈیننس کے تحت مجرم ٹھہرایا گیا ہو اور وہ کاغذات نامزدگی فارم میں اس بات کو ظاہر نہ کرے اور اس جرم کی غلط تاریخ بیان کرے جس کا مقصد یہ ہو کہ وہ اس بات سے گمراہ کرنا چاہ رہا ہے کہ اس کی نااہلیت کے10سال گزرچکے ہیں تو اس طرح کی غلط بیانی احتساب آرڈیننس کی خلاف ورزی ہے اور اس کے ذریعے ایک نااہل شخص انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے۔اسی طرح کوئی شخص جو کہ 25سال کا نہیں ہو ا یعنی قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے عمر کا جو معیار ہے اس پر پورا نہیں اترتا اور وہ شخص اپنی غلط تاریخ پیدائش بیان کرنے اپنی عمر 25 یا اس سے زائد ظاہر کرے تو ایسا شخص بھی نااہل ہونے کا مستحق ہے۔