• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی … تنویرزمان خان،لندن
رسول بخش پلیجو کی جدائی کو محض چند تعزیتی اجلاسوں Referencesیا فاتحہ خوانیوں تک محدود نہیں کیا جاسکتا، سندھ کو وڈیروں، پیروں اور جاگیرداروں نے جس اندھیرے حصار میں صدیوں سے قید کر رکھا ہے، پلیجو نے اس میں جو امید کی کرن روشن کی، اس پسماندہ ترین سوسائٹی میں عورتوں کو جس طرح اپنے حقوق کی جنگ کے لیے بیدار کیا، اس کا سہرا ہی پیلیجو کے سر نہیں بلکہ یہی پلیجو کی وراثت ہے۔ رسول بخش پلیجو کو ایسے ذکر کرکے نظروں سے نہیں گزارا جاسکتا کہ انہوں نے پسماندگان میں فلاں فلاں کو چھوڑا۔ وہ تو معاشرے کا فطری عمل ہے، چلتا ہی رہتا ہے، جو مرتا ہے اس کے کوئی نہ کوئی اولاد یا عزیزواقارب ہوتے ہی ہیں جنہیں ہم پسماندگان کہتے ہیں، جائیداد وغیرہ ہوتی ہے تواسے ہم وراثت کہتے ہیں لیکن رسول بخش پلیجو کے پسماندگان میں گننے کیلئے نہ خاندان کو دیکھنے میں کوئی اہمیت ہے، نہ روایتی جانشینوں کو، انقلابیوں کی وراثت نہیں ہوتی، یہ تو جاگیرداری اور قبائلی نظام کا خواصہ ہے جو اپنا سیاسی اثر و رسوخ اور ذاتی ملکیت کو حتیٰ کہ سیاسی پارٹیوں تک کو اپنی ذاتی جاگیر کی طرح اپنی اولادوں میں منتقل کرتے ہیں پلیجو کے ورثا میں سندھیانی تحریک کی وہ ہزاروں خواتین ہیں، عوامی تحریک کے وہ کارکن ہیں اور رسول بخش پلیجو کا دیا ہوا وہ شعور اور بیداری ہے جو وہ آگے جتنا بانٹیں گے اتنا بڑھتا چلا جائے گا۔ پلیجو سندھ کے نیشنلسٹ لیڈر تھے اور چالیس سے زائد کتب کے مصنف تھے۔ ان کی سیاست چمکھی لڑائی تھی، ایک طرف سندھ میں ہاریوں کے حقوق کیلئے وڈیرہ شاہی اور سندھ میں پھیلی پیری مریری کے خلاف لڑائی دوسری طرف کراچی کی مہاجر تحریک کے خلاف جدوجہد، ان کے ایک بیان کو میڈیا اکثر اچھالتا تھا کہ تمام مہاجروں کو سمندر میں پھینک دینا چاہیے۔ میری ان سے اس بابت بات ہوئی تھی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اتنی دہایاں پاکستان میں رہنے کے باوجود یہ لوگ خود کو مہاجر کہتے ہیں، بلکہ جو نسل پیدا ہی پاکستان میں ہوئی ہے وہ کیسے مہاجر ہوگئی۔ یہ لوگ یہاں مستقل ہجرت کرکے آئے تھے یا محض سیاسی پناہ لینے آئے تھے اور پھر مہاجر کوئی قوم نہیں ہے، انہی سندھ میں رہنا ہے تو سندھی بن کے رہیں، اپنے لیے سندھیوں سے بڑھ کر محرومیوں اور ان سے زیادہ حقوق کا مطالبہ نہ کریں۔ ان کی تین نسلیں سندھ میں پیدا ہوئیں اور رہ رہی ہیں۔ جو پاکستانی پاسپورٹ رکھتے ہیں اور حقوق سے محروم مہاجر کہلواتے ہیں، تو پھر ایسے میں ہاریوں کی اکثریت کہاں جائے، سندھی پاکستان کی آبادی کا تقریباً21فیصد ہیں۔ سندھ104برس تک برطانیہ کی نوآبادی رہا، جوکہ وڈیروں اور ہاریوں کے درمیان بٹا ہوا خطہ ہے شہری اور دیہی تقسیم بہت شدید ہے۔ 1998 تک سندھ میں8فیصد آبادی ہندوئوں کی تھی، جن کی تقریباً اکثریت شہروں میں رہتی تھی۔ اسی طرح1947کے بعد انڈیا سے آنے والے جوکہ اردو بولتے تھے، سندھ کے بڑے شہروں میں ہی آباد ہوئے۔ بڑی مسلم آبادی دیہاتوں میں تھی، جوکہ بھاری اکثریت میں ہاری (بے زمین مزاعے) تھے۔ اندرون سندھ کا سماجی ڈھانچہ پیروں اور وڈیروں یا ہاریوں میں بٹا ہوا ہے، جہاں ہاریوں کے لیے تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے اسی لیے اندرون سندھ شہروں میں رہنے والوں سے بہت پسماندہ ہے۔ شہروں میں تعلیم کے ساتھ ساتھ دیگر زندگی کی تمام ترقی یافتہ سہولتیں دستیاب ہیں۔ یہ بھی ایک سندھی مہاجر تضاد ہے۔ مہاجر دیہی سندھیوں کو گھٹیا سمجھتے ہیں۔ دیہی سندھ والے ملازمتوں اور دیگر کاروبار زندگی میں ان سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ رسول بخش پلیجو نے ان تمام محاذوں پر ہاریوں کے حقوق کے لیے ڈٹ کے جنگ کی۔ 1970ء میں جی ایم سید سے علیحدہ ہوئے تو عوامی تحریک (پارٹی) بنائی۔ سندھ قومی اتحاد، سندھ متحدہ محاذ، سندھی ادبی سگت، بزم صوفیائے سندھ، پونم، انٹی ون یونٹ تحریک اور ایسی کئی چھوٹی تنظیمیں اور اتحاد پلیجو کی متحرک زندگی کے آئینہ دار ہیں۔ پلیجو عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے بانیوں میں تھے اور اس کے پہلے سیکرٹری جنرل تھے۔ ایم آر ڈی کی1983کی جنرل ضیاء کے خلاف بحالی جمہوریت کی تحریک میں سندھ عوامی تحریک کا کلیدی کردار تھا، سندھیوں کیلئے اور پورے پاکستان کی خواتین کے لیے پلیجو کا سب سے اہم تحفہ اور پلیجو کی وراثت کسی چیز کو کہا جائے تو وہ سندھیانی تحریک ہے جو 1998ء میں سندھ میں عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے خلاف منظم کی گئی۔ جو دیکھتے ہی دیکھتے اتنی پاپولر ہوگئی کہ ایم آر ڈی کی تحریک میں سندھیانی تحریک نے اہم کردار ادا کیا۔ سندھیانی تحریک پر یورپی یونیورسٹیوں کے کئی طلبہ خصوصی طور پر تحقیقی کام کرنے کیلئے گئے او وہ پسماندہ اور سہولتوں سے محروم علاقے کی خواتین کے سیاسی اور سماجی شعور سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ اس تمام بیداری کے پیچھے رسول بخش پلیجو کا مائنڈ اور جدوجہد تھی، جسے یورپی طلبہ نے نہ صرف اپنے حقیقی مقالات میں درج کیا بلکہ اس زمانے کے اسلام آباد کے اخبار نے بارہا ذکر کیا۔ پاکستان کے بائیں بازو کے لوگوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ بائیں بازو کے قائدین کی ہزار خوبیوں کو نظر انداز کرکے چند خامیوں کو پکڑ لیتے ہیں اور انہی پر زندگی بھر کی دشمنی قائم رکھتے ہیں، جبکہ بائیں بازو کے یہی لوگ دائیں بازو کے کیمپ کے کسی لیڈروں کی ہزار برائیوں بلکہ لاکھوں برائیوں کو درگزر کرکے ایک آدھ ایریا میں پھنسی ہوئی خوبی پر اسے مینار پر چڑھا دیتے ہیں۔ یہ صرف وسیع ظرفی اپنانے کا مسئلہ ہے، پلیجو ایک بائیں بازو کے جمہوریت پسند اور انقلابی رہنما تھے۔ جنہوں نے پاکستان اور خصوصی طور پر سندھ کے عوام کو عظیم سیاسی، علمی، فکری اور تنظیمی شعور کے عظیم تحفے دیئے۔ یہی رسول بخش پلیجو کی وراثت ہے۔
تازہ ترین