• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی صدارتی الیکشن اس دفعہ کئی وجوہات کی بناء پر اہم ہیں سب سے زیادہ اس کے نامساعد اثرات خود امریکا کے اندر محسوس کئے جارہے ہیں۔ امریکی عوام کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہے کہ امریکا کی دفاعی امور خارجہ پالیسی کے کیا مضمرات ہیں اور وہ کس طرح عالمی سطح پر دوسرے ملکوں اور قوموں کو متاثر کررہی ہے وہاں کا عام آدمی پاکستان بھارت یا کسی بھی ملک کے عام آدمی سے مختلف ہے وہ یہ دیکھتا ہے کہ امریکی حکومت ان کی صحت، معاشی اور معاشرت کی ترقی کیلئے کیسی پالیسی وضع کررہی ہے اگر 6/نومبر 2012ء کو منتخب ہونے والا صدر صحت عامہ کیلئے زیادہ سہولتیں فراہم کررہا ہے ان کی معاشرتی آزادی کو تحفظ فراہم کررہا ہے اور ان کے لئے معاشی بہبود کا پلان رکھتا ہے، تو وہ اس امیدوار کو ووٹ دیں گے۔
ایک بات اپنی جگہ ہے کہ اوباما اس وقت صدر ہیں اور اوباما میں صدر کی حیثیت سے نظر آنے کی قدرتی صلاحیت ہے اور انہوں نے اپنے پہلے دور میں اس خوبی کو زیادہ اجاگر کرنے کی صلاحیت کو بڑھایا ہے انہوں نے امریکیوں سے اپنے پچھلے دور کے شروع ہونے سے پہلے ان کی فلاح و بہبود کیلئے جو وعدے کئے تھے وہ باوجود مشکلات کے پورے کئے ہیں۔ اوباما کے مخالف کا تعلق ریپبلکن پارٹی سے ہے اور اس پارٹی کے دو صدور یعنی بش سینئر اور بش جونیئر نے امریکیوں کو سوائے ناامیدی اور برے حالات کے کچھ نہیں دیا تھا اور مسٹر رومنی جو مسٹر اوباما کے مقابل امیدوار ہیں میرا تجزیہ یہ ہے کہ وہ ایک کمزور مدمقابل ہیں، ان کا ویژن خود امریکا کی حیثیت کے بارے میں معلق فکر کی طرح ہے۔ وہ کسی مضبوط پلیٹ فارم پر کھڑے نظر نہیں آتے جبکہ صدر اوباما ایک مضبوط سوچ کے ساتھ گراؤنڈ پر کھڑے ہیں اور حقائق کا مقابلہ جرأت سے کررہے ہیں۔
صدر اوباما نے اپنے پہلے دور صدارت میں خارجہ پالیسی کے حوالے سے کچھ غلطیاں کی ہیں لیکن وہ اپنی خارجہ پالیسی کے ا صولوں اور موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں ان کی پالیسیوں نے جنوبی ایشیا میں ایک ہلچل پیدا کر رکھی ہے۔ سب سے بڑے مسائل ان کے لئے افغانستان پاکستان اور ایران کے حوالے سے ہیں ۔ پاکستان کی امریکا کیلئے بڑی اسٹرٹیجک اہمیت ہے کیونکہ جنوبی ایشیا میں اور افغانستان میں امن اور خوشحالی کیلئے پاکستان کا کردار بڑی اہمیت رکھتا ہے۔
امریکا کے لئے باعث تشویش بات یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت اور سول حکومتیں خواہ وہ کسی سیاسی پارٹی کی ہوں، کمزور اور کرپٹ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہاں فوج کا اثر رسوخ عوام میں زیادہ ہے۔ امریکی حکومت ISI کے طاقتور پس منظر اور پیش منظر سے پریشان ہے۔ امریکی حکومت مذہبی انتہا پسندی کو اپنے لئے بھی اور خود پاکستان کیلئے مسلسل پریشانی کا باعث قرار دیتی ہے۔ پہلے انہوں نے القاعدہ کا ہوّا کھڑا کیا ہوا تھا اب حقانی گروپ نے ان کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں۔ میں اپنے کالموں میں گزشتہ پچیس سال سے لکھ رہا ہوں کہ امریکا پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑ سکتا اور ایسا کیسے ہوسکتا ہے جب پاکستان ان کا حلیف بھی ہو اور ایٹمی قوت بھی ہو لیکن وہ گزشتہ دو دہائیوں سے یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوری حکومت مضبوط ہو۔
امریکی اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ پاکستان ہی وہ ملک ہے جو اس علاقے میں ایک متوازن صورت حال کی ضمانت بن سکتا ہے۔ امریکا چین کی قوت اور اثرات کے پھیلاؤ سے بہت زیادہ پریشان ہے۔ آج کل ایسی خبریں شائع ہورہی ہیں کہ امریکا اور چین کے درمیان اسٹرٹیجک تناؤ بڑھ رہا ہے اور چین اور بھارت کے درمیان بھی نفسیاتی کشمکش موجود ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ مسٹر مٹ رومنی اگر صدر بن جائیں جس کا امکان بہت کم ہے تو وہ اس علاقے کو انتشار اور بحران سے بچاسکیں گے۔ مسٹر مٹ رومنی مجھے تو پتہ نہیں کیوں ایک ڈمی امیدوار نظر آتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ مسٹر اوباما کی جیت 6/نومبر کو یقین میں بدل جائے گی۔ مسٹر مٹ رومنی نے آخری دنوں کے تقریری مقابلوں میں کوئی ایسا پوائنٹ نہیں اٹھایا جو ان کے حق میں امریکی عوام کو کھڑا کردے۔ اگر مسٹر مٹ رومنی کو وہی سب کچھ کرنا ہے جو اوباما کرنا چاہتے ہیں تو ان کو وہائٹ ہاؤس تک پہچانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
یہ حقیقت اب سامنے آرہی ہے کہ ملک کی اندرونی پالیسیوں کے بارے میں صدر اوباما کا وژن سراہا جارہا ہے جبکہ مسٹر مٹ رومنی کے پاس نہ کہنے کو کوئی نئی بات ہے اور نہ کرنے کیلئے کوئی نئی حکمت عملی۔ میرا خیال یہ ہے کہ 6/نومبر کے بعد مسٹر اوباما شام کے تنازع میں زیادہ سخت اور پازیٹو رویہ اختیار کرسکیں یہ بہت مشکل ہے بلکہ ناممکن ہے کہ شام میں حالات کو جوں کا توں رکھا جائے۔
افغانستان کا مسئلہ اپنے اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے اس کے حل سے علاقے کی لبرل قوتوں کو تقویت ملے گی ایران کے مسئلے پر کوئی بڑا تناؤ منظر پر نہیں آرہا ہے اور نہ آسکتا ہے۔ امریکا کے وہ الیکشن جو 6/نومبر 2012ء کو ہونے والے ہیں اس کے بعد صدر اوباما اپنی اوریجنل سوچ کے ساتھ سامنے آئیں گے اور NEOCON کے جنگجوؤں کے چنگل سے اپنے آپ کو آزاد کرالیں گے اور بین الاقوامی سطح پر بہتر اور پرامن دنیا کے لئے کام کرسکیں گے۔ امریکا نہ پاکستان کو چھوڑ سکتا ہے اور نہ پاکستان چین کو چھوڑ سکتا ہے اور یہی امن کی کنجی ہے۔ جو نہ بھارت کے پاس ہے اور نہ کسی اور ملک کے پاس۔
تازہ ترین