• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طالبان کو کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے پاکستان سے مدد کی امریکی درخواست، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی حالیہ دورہ کابل میں افغان قیادت اور امریکی جنرل نکلسن سے بات چیت، امریکی وزیر خارجہ کا جنرل باجوہ سے ٹیلیفون پر تبادلۂ خیال، عیدالفطر کے موقع پر طالبان اور افغان و غیر ملکی افواج کے درمیان سہ روزہ سیز فائر بالخصوص افغان صوبہ کنڑ میں کئی سال سے چھپے ہوئے تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ کی چار ساتھیوں سمیت امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت ایسے واقعات ہیں جو پاکستان سے امریکہ اور افغان حکومت کے تعلقات میں بہتری اور افغانستان میں پائیدار امن کے حصول کی کوششوں کے حوالے سے نہایت خوش آئند ہیں لیکن شمالی وزیرستان کے سرحدی علاقے شوال میں پاکستانی چیک پوسٹ پر افغان سر زمین سے دہشت گردوں کے حملے میں ہمارے تین جوانوں کی شہادت، جس میں پاک فوج کی جوابی کارروائی سے 5دہشت گرد بھی مارے گئے ایسا افسوسناک واقعہ ہے جو افغان فوج اور غیر ملکی فورسز کی جانب سے پاکستان کے خلاف افغان سر زمین سے ہونے والی دہشت گردی روکنے میں بری طرح ناکامی پر دلالت کرتا ہے۔ نگران وزیراعظم ناصرالملک نے اس واقعے کی شدید مذمت کی ہے اوردہشت گردوں کے حملے روکنے میں جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کو آرمی چیف نےسلام پیش کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ایسے ہی جوانوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ قوم پرامن عید منا رہی ہے۔ امریکہ ہمیشہ الزامات لگاتا آیا ہے کہ دہشت گرد افغانستان کے خلاف پاکستان کی سر زمین استعمال کر رہے ہیں جبکہ حقیقت اس کے بالکل الٹ ہے جس کی شوال کے واقعے سے تصدیق ہوتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے اڈے ختم ہونے کے بعد یہاں سے فرار ہونے والے دہشت گرد افغانستان سے پاکستان میں کارروائیاں کر رہے ہیں اور انہیں مربوط اور منظم کرنے والا شخص ملا فضل اللہ تھا جس کے خلاف کارروائی کے لئے پاکستان مسلسل مطالبہ کرتا رہا ہے۔ اب جبکہ امریکہ اور کابل حکومت کو شاید افغان طالبان کے خلاف اپنی ناکامی کا احساس ہو گیا ہے تو انہوں نے مسئلے کے سیاسی حل کیلئے پاکستان سے رجوع کیا ہے اور اسکے تحفظات دور کرنے کے لئے13اور 14جون کی درمیان رات ملا فضل اللہ کو ڈرون حملے کا نشانہ بنایا ہے۔امریکی افواج، افغان وزارت دفاع اورپاکستانی انٹیلی جنس اداروں نے اس کی ہلاکت کی تصدیق کردی ہے۔ افغان صدر اشرف غنی نے خود نگران وزیراعظم ناصر الملک اور آرمی چیف جنرل باجوہ کو ملا فضل اللہ کی ہلاکت کی اطلاع دی ، سوات کے رہنے والے فضل اللہ کا عبرتناک انجام ان وطن فروشوں کے لئے ایک سبق ہے جو وقتی مفادات کے لئے ملک اور قوم کے خلاف غیروں کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔ امریکہ نے اس کے خلاف کارروائی کر کے پاکستان کا ایک بڑا مطالبہ تسلیم کیا ہے جو آگے چل کر نہ صرف افغانستان بلکہ اس خطے میں امن کا پیغام بن سکتا ہے لیکن ابھی اسے مزید بہت کچھ کرنا ہے، اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ عمر خراسانی کو اب ٹی ٹی پی کا سربراہ بنا لیا جائے جس کی اب تک امریکہ پشت پناہی کر رہا ہے۔ پاکستان نے اسے اقوام متحدہ سے دہشت گرد قرار دلوانے کی قرار داد پیش کی تھی جسے امریکہ نے مسترد کر دیا تھا، اگر یہ شخص فضل اللہ کی جگہ لے لیتا ہے تو پاکستان اور افغانستان کے لئے ایک اور بڑا خطرہ ہو گا۔ دو روز قبل جلال آباد میں ہونے والا خود کش حملہ، 18افراد کی ہلاکت اور 45کے زخمی ہونے کا واقعہ ملا فضل اللہ کی ہلاکت کا ردعمل بھی ہو سکتا ہے جسے پاکستانی چیک پوسٹ پر افغانستان سے ہونے والے حملے کے تناظر میں دیکھا جائے تو افغان امن عمل کے لئے مصالحتی کوششیں مزید تیز کرنے کی ضرورت اجاگر ہوتی ہے۔ امریکہ اور کابل حکومت کو اس حوالے سے پاکستان کو مکمل طور پر اعتماد میں لیتے ہوئے ٹھوس پیش رفت کرنا ہوگی اور زمینی حقائق مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کا موقف سمجھنے کی کوشش کرنا ہوگی۔

تازہ ترین