• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آسٹریلیا میں مقیم اردو کی ممتاز شاعرہ نوشی گیلانی نے پچھلے کالم پر تبصرہ کیا ہے، نوشی گیلانی فرماتی ہیں ’’خواتین کے حق میں پہلا عمدہ کالم ہے، میرا خیال ہے کہ اب تک صرف آپ نے اس الیکشن میں ٹکٹس کی تقسیم میں جینوئن خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر ڈیٹا کے ساتھ بات کی ہے ورنہ یہ سلسلہ تو برسوں سے جاری ہے‘‘ ۔ نوشی گیلانی سمیت بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی اکثریت پاکستان کے بارے متفکر رہتی ہے، یہ اس بات کا اظہار ہے کہ ان لوگوں کو پاکستان سے لازوال محبت ہے۔
خدائے لم یزل کا شکر ہے کہ جہاں جہاں بھی اردو بولنے والے موجود ہیں وہ میرے کالموں پر تبصرہ کرتے ہیں، مجھے ان کی پاکستان سے محبت کا احساس ہے، میں نے بھی وعدہ کر رکھا ہے کہ کبھی بھی جھوٹ نہیں لکھوں گا، ہمیشہ حق بات کروں گا خواہ کوئی بھی ناراض ہو، کسی کی بھی پرواہ کئے بغیر سچی بات کروں گا۔ حکمرانوں اور مافیا سے ڈرنا میری فطرت کا حصہ نہیں، صرف اللہ سے ڈرتا ہوں، رسولؐ اور انؐ کے گھرانے سے محبت کرتا ہوں ، پاکستان کا پیسہ چوری کرنے والوں کو غدار سمجھتا ہوں، میرا ملک سب سے پیارا ہے، مجھے لندن سے فون کرنے والے مستحسن رضا کی بات ٹھہر ٹھہر کر یاد آ رہی ہے، وہ کہہ رہا تھا کہ ’’پاکستان سب سے خوبصورت ملک ہے، پاکستان ہے تو ہم ہیں، پاکستان کی سرحدوں پر کھڑے فوجی جوان دنیا کے عظیم ترین لوگ ہیں، پاکستانی فوج کے خلاف باتیں کرنے والے پاکستان کے دشمن ہیں، قوم اپنے دشمنوں کو پہچانے‘‘۔
عید بیت چکی ہے مگر پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے اندر ٹکٹوں کی تقسیم کا مسئلہ ابھی حل طلب ہے۔ ن لیگ نے خواتین کی فہرست کا اعلان کیا تھا، اس پر بھی شور برپا ہے۔ تحریک انصاف کی جنرل اور مخصوص نشستوں پر ٹکٹوں کی غلط تقسیم نے عید کے دنوں میں بھی بنی گالہ کو احتجاج کا مرکز بنائے رکھا۔ عید کے دوسرے اور تیسرے دن بھی عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر احتجاج ہوتا رہا۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے اس پر بات کرنے سے پہلے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی بات کر لیتے ہیں۔ پتہ نہیں پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کیوں بار بار کہہ رہے ہیں کہ آئندہ حکومت پیپلز پارٹی بنائے گی، پتہ نہیں آصف زرداری نے کونسا حساب کتاب لگا رکھا ہے، ہو سکتا ہے کوئی ن لیگ سے اندر خانے سازباز کر رکھی ہو، آصف زرداری کی دیکھا دیکھی پی ایس پی کے رہنما انیس قائم خانی نے فرمایا ہے کہ ’’اگلا وزیر اعلیٰ سندھ ہمارا ہو گا‘‘۔ قائم خانی سے یاد آیا کہ پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی سابق رکن، سابق صوبائی وزیر روبینہ قائم خانی کا نام خواتین کی فہرست میں سب سے آخر میں رکھا ہے جیسے انہوں نے پنجاب میں لبنیٰ چوہدری ایڈووکیٹ کا نام سب سے آخر میں رکھا ہے۔ پیپلز پارٹی کو اپنی فہرست کا ازسرنو جائزہ لینا چاہئے۔ ن لیگ کے سربراہ میاں شہباز شریف نے اس سلسلے میں ایک کمیٹی قائم کر دی ہے جو نظرانداز کی جانے والی خواتین کا جائزہ لے گی۔ انوشہ رحمٰن اور ماروی میمن تو ڈار صاحب کی بیماری کی نذر ہو گئی ہیں، لیلیٰ خان کا فنانسر پیچھے ہٹ گیا ہے جبکہ پنجاب اسمبلی کی سابق اراکین مدیحہ رانا اور سائرہ افتخار کو فہرست میں شامل نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ سائرہ افتخار نے ڈیری ڈویلپمنٹ کے حوالے سے خاصا کام کیا تھا جبکہ مدیحہ رانا نے انفارمیشن اینڈ کلچر کی اسٹینڈنگ کمیٹی کی سربراہ کی حیثیت سے نہایت مہارت سے فرائض انجام دیئے تھے۔ فیصل آباد میں ہر سیاسی پروگرام کو کامیاب بنانے میں بھی بھرپور کردار ادا کیا تھا، شاید وہ فیصل آباد میں ن لیگ کی گروپنگ کی نذر ہو گئی ہوں۔ ن لیگ نے نغمہ سارہ اور فرزانہ کاظم کو بھی نظرانداز کر دیا۔ فرزانہ کاظم مسلم لیگ ن کا یوتھ ونگ اور لائرز ونگ چلا رہی ہیں انہوں نے لاہور میں جلسوں اور جلوسوں کو کامیاب بنانے میں بھرپور کردار ادا کیا تھا مگر پتہ نہیں جماعت کی نظر ان کے کام پر کیوں نہ پڑ سکی۔ ن لیگ کی سابق ایم این اے نثار تنویر شیرازی نے اس سلسلے میں دلچسپ تبصرہ کیا ہے ’’جب ایک ایک خاندان میں دو دو چار چار ٹکٹ بانٹے جائیں گے تو پھر کام کرنے والی خواتین کی باری کیسے آئے گی؟‘‘
پاکستانی سیاست میں صرف عمران خان ایسا کھلاڑی ہے جو اس وقت چومکھی جنگ لڑ رہا ہے، اُسے ایک طرف پاکستان کے تمام بڑے سیاسی لیڈروں کی مخالفت کا سامنا ہے تو دوسری طرف بہت سی بیرونی طاقتیں اس کا راستہ روکنے کے لئے پیسے کے بے دریغ استعمال کا منصوبہ بنا چکی ہیں۔ پاکستان کے دشمن عمران خان کے راستے کی دیوار بننا چاہتے ہیں، عمران خان کو اپنی ہی پارٹی میں ٹکٹوں کی غلط تقسیم کے باعث احتجاج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، شاید اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عمران خان کی اپنی صفوں میں اُس کے دشمن موجود ہیں۔ تحریک انصاف کے پارلیمانی بورڈ میں کم از کم تین اراکین ایسے ہیں جن کا مقصد صرف اور صرف جہانگیر ترین کو نیچا دکھانا ہے، ان تین اراکین میں سے دو وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ ایک نے تو وزیر اعظم نہیں تو وزیر اعلیٰ بننے کی ٹھان رکھی ہے۔ ان تین میں سے دو ایسے ہیں جن کے ن لیگ سے روابط ہیں، ایک صبح نہیں تو شام، شہباز شریف سے ضرور بات کرتا ہے جبکہ دوسرا پی ٹی آئی کے اندر رہ کر ن لیگ کے لئے جاسوسی کرتا ہے۔ انہی لوگوں کے باعث عمران خان کئی مرتبہ غلط فیصلے کرتا ہے، پھر فیصلوں کو بدلتا ہے۔ جب تحریک انصاف کا پارلیمانی بورڈ کارکنوں کے خلاف فیصلے کر رہا تھا تو دو اراکین چوہدری سرور اور نعیم الحق احتجاج کر رہے تھے۔ ان دونوں نے ورکرز سے دوستی نبھانے کی پوری کوشش کی۔ یہ دونوں اب بھی خراب کام کو درست کروانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی میں ٹکٹوں کی تقسیم خراب نہ ہوتی اگر وزارت اعلیٰ کے خواب دیکھنے والے حق بات کرتے مگر کیا کیا جائے، اس وقت پی ٹی آئی میں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لئے چار رہنما مستقبل کا نقشہ تیار کر کے بیٹھے ہوئے ہیں۔ رہنمائوں کی بے جا مداخلت نے جنرل سیٹوں کو بھی متنازع بنایا اور مخصوص نشستوں پر نامزدگی کو بھی داغدار کیا۔ تقسیم کروانے والوں نے میانوالی میں بھی ٹکٹوں کی غلط تقسیم کروا دی جس سے تحریک انصاف کو نقصان ہو گا۔ پی ٹی آئی کے پارلیمانی بورڈ نے عمران خان کو اتحادیوں سے بھی محروم کر دیا ہے، یہ درست ہے کہ تحریک انصاف نے صرف چھ سیٹوں پر مسلم لیگ ق سے اتحاد کیا ہے مگر اس وقت سنی اتحاد کونسل اور مجلس وحدت المسلمین یعنی ایم ڈبلیو ایم کی حمایت تحریک انصاف کو حاصل نہیں ہے۔ اہل سیاست جانتے ہیں کہ قومی اسمبلی کے ہر حلقے میں ایم ڈبلیو ایم کے پاس پندرہ سے اٹھارہ ہزار ووٹ ہے، اسی طرح عوامی تحریک بھی پی ٹی آئی سے دور ہے۔
تحریک انصاف میں خواتین کی مخصوص نشستوں پر نامزدگیوں سے ورکرز نالاں ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب سے بعض نامزدگیاں بہت اعلیٰ ہیں مثلاً ڈاکٹر شیریں مزاری، عندلیب عباس، نوشین حامد، فوزیہ بہرام، جویریہ آہیر، کنول شؤذب، وجیہہ اکرام اور عاصمہ قدیر لیکن بعض متحرک ترین خواتین کا نام فہرست کے بالکل آخر میں ہے جن میں لبنیٰ ملک، ڈاکٹر شاہینہ کھوسہ، فاطمہ چدھڑ، سبرینہ جاوید، عابدہ راجہ اور بتول جنجوعہ شامل ہیں۔ بتول جنجوعہ تحریک انصاف کے مرکزی آفس میں بے پناہ کام کرنے والوں میں شامل ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر زرقا تیمور سہروردی کا نام فہرست کے آخر میں لانے کی سازش پتہ نہیں کہاں ہوئی۔ ڈاکٹر زرقا لاہور تحریک انصاف کی صدر رہی ہیں، تین ماہ قبل وہ پی ٹی آئی کی طرف سے سینیٹ کی امیدوار تھیں۔ سیما انوار کی طرف سے وضاحت آئی ہے کہ انہوں نے عائشہ گلالئی کے ساتھ چلنے سے انکار کیا تھا اور وہ عرصے سے پارٹی کے لئے کام کر رہی ہیں مگر یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پارٹی کے لئے لاہور کی تنزیلہ عمران، عنازہ احسان بٹ، پنڈی کی نوشابہ منان اور اوکاڑہ کی شازیہ احمد کام نہیں کر رہی تھیں، اوکاڑہ سے شازیہ احمد کو نظر انداز کر کے ایک ایسی خاتون ناہید سردار کو نامزد کیا گیا ہے جس نے عرصے سے پارٹی کے لئے کچھ نہیں کیا۔ نیلم حیات تو عوامی تحریک کا حصہ ہیں، وہ فہرست میں کیوں ہیں؟
خیبر پختونخوا سے بھی شکایات ہیں جہاں خواتین کا یہ کہنا ہے کہ شاہ فرمان اور پرویز خٹک نے اپنی رشتہ دار یا چہیتی خواتین کو نواز دیا ہے۔ خیبر پختونخوا کی فہرست میں پشاور ریجن کی صدر شاہین سیف اللہ اور سیکرٹری جنرل ڈاکٹر حمیرا گیلانی کا نام شامل ہی نہیں کیا گیا۔ تحریک انصاف کے لئے کئی سالوں سے کام کرنے والی فرزانہ زین اور یاسمین دوران کو بھی ٹکٹ سے محروم رکھا گیا ہے۔ فرزانہ زین تو پشاور کی نائب صدر رہی ہیں۔ پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کی خواتین ٹکٹوں کی اس غلط تقسیم کا بڑا ذمہ دار شاہ فرمان کے ساتھ ساتھ نفیسہ خٹک کو بھی سمجھتی ہیں۔
پی ٹی آئی سندھ کے حالات بھی کچھ ایسے ہی ہیں جہاں سندھ کی صدر نصرت واحد کا نام چوتھے نمبر پر ہے۔ یہاں عارف علوی نے بغیر کسی کام کے غزالہ سیفی کو شامل کر دیا ہے، حلیم عادل شیخ نے نزہت پٹھان اور دعا بھٹو کو شامل کرا دیا ہے۔ اسد عمر کی سیکرٹری سدرہ عمران کو نواز دیا گیا ہے جبکہ تیرہ چودہ سال سے پی ٹی آئی کے لئے دھکے کھانے والی سیما شیخ کو فہرست میں گیارہواں نمبر الاٹ کیا گیا ہے۔ سندھ میں بھی خواتین کی فہرست پر احتجاج ہو رہا ہے۔
تحریک انصاف اس حوالے سے اہم ہے کہ اس پارٹی میں احتجاج بھی کیا جاتا ہے اور احتجاج سنا بھی جاتا ہے۔ جنرل سیٹوں پر شکایات وصول کی جا رہی ہیں، خواتین کے احتجاج کو بھی مانا گیا ہے، اسی لئے عمران خان کے کہنے پر ڈاکٹر بابر اعوان الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ سے رجوع کرنے جا رہے ہیں کہ خواتین کی فہرست میں تبدیلی کی اجازت دی جائے تاکہ تبدیلی آ سکے کہ ؎
روز و شب یوں نہ اذیت میں گزارے ہوتے
چین آ جاتا، اگر کھیل کے ہارے ہوتے
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین