• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسلہ کشمیر دوجوہری ممالک کو تیسری عالمی جنگ میں جھونک سکتا ہے

مسلہ کشمیر دوجوہری ممالک کو تیسری عالمی جنگ میں جھونک سکتا ہے

وادیِ کشمیراپنے لاجواب فطرتی حسن کی وجہ سے جنت نظیر کہلاتی تھی، تاہم یہ خطہ گذشتہ کئی دہائیوںسے نوحہ کناں ہے، بھارتی فوج نے ظلم و بربریت برپا کرکے جنت نظیر کوجہنم کی وادی بنا دیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی کہانی بہت دردناک ہے جو سات عشروں پر محیط ہے ،اس کہانی کا ہر ورق انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں ، ہزاروںنہتے شہریوں کی شہادت ، پرتشدد اورانسانیت سوزو اقعات ، نسل کشی،خواتین کی بے حرمتی، آزادی پسند رہنماؤں کی پھانسیوں ، اسیروں سے بھری جیلوں اورپیلٹ گنوں سے آنکھوں کی بینائی چھیننے جیسے واقعات سے بھرا پڑا ہے ،جنت نظیر کشمیر آج لاکھ سے زائد شہدا ،لاکھوں بے گھر، بیواؤں،یتیموں اور اپاہجوں کا مسکن ہے،مقبوضہ کشمیر بھارت کی نام نہاد جمہوریت کے منہ پر طمانچہ ہے جہاں ایک کروڑ سے زائد انسانوں کے انفرادی اور اجتماعی انسانی حقوق سلب کیے جارہے ہیں ، آزادی مانگنے والوں پر طاقت کا بے تحاشہ استعمال کیا جاتا ہے،بھارتی فوج کے ظلم و جبرسے آزاد کشمیر کے شہری بھی محفوظ نہیں ۔لائن آف کنٹرول کے قریبی علاقے میں شہریوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، 2017ء میں بھارتی فوج نے 1550 بار لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی اور 60 سے زائد شہری شہید کیے ۔

کشمیر پاکستان کیلئے زندگی و موت کا مسئلہ ہے۔ پاکستان مسئلہ کشمیر کا فریق بھی اور وکیل بھی ہے ، پاکستانی قوم اس کے شانہ بشانہ ہے۔پاکستان کشمیر کو شہ رگ جب کہ بھارت اٹوٹ انگ کہتا ہے،دونوں ممالک کے کشیدہ تعلقات کی بڑی وجہ ہی مسئلہ کشمیر ہے۔بھارت اور پاکستان کو مل کر اس مسئلے کو حل کرنا چاہئے کیونکہ جنگ اس کا حل نہیں، مسئلہ کشمیر کو پس پشت نہیں ڈالا جاسکتا کیونکہ یہ جنوبی ایشیا میں جوہری جنگ کی وجہ بن سکتا ہے۔اگر اسکاٹ لینڈ کے عوام کوریفرنڈم کاحق مل سکتا ہے ،انڈونیشیا سے عیسائی آبادی پر مشتمل مشرقی تیمور کو آزاد مملکت قرار دلوا دیاجاتا ہے، یوگنڈا میں قدرتی وسائل سے مالامال جنوبی سوڈان کی آزادی کا انتظام کیا جاسکتا ہے ،یوکرین میں روسی فوج کو چند ہفتوں میں داخل کرادیاجاتا ہے، تو پھر کشمیر میں ظلم و جبر کی پالیسی ترک کر کے کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیاجائے۔مسئلہ کشمیر کا حل استصواب رائے میں ہے،کشمیری حریت پسندآزادی کی جائز جدوجہد کررہے ہیں، کشمیر کی آزادی کے لیے وہ گھر بار،جان ومال، عزت و آبرو کی قربانیاں دے رہے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے چند واقعات دیئے جارہے ہیں۔

کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے،قائد اعظم

بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اپنے دورہ کشمیر کے موقع پر یہ تاریخی جملہ ادا فرمایا تھا ’’کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے‘‘۔قائد فرماتے ہیں’’ کشمیر سیاسی اور قومی اعتبار سے پاکستان کی شہ رگ ہے۔ قائداعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح اپنی کتاب’مائی برادر‘ میں لکھتی ہیں کہ قائداعظم کے آخری ایام میں ان پر جب غنودگی اور نیم بے ہوشی کا دورہ پڑتا تھا تو آپ فرماتے تھے کہ کشمیر کو حق ملنا چاہئے۔قائداعظم محمد علی جناح پہلی بار 1926ء دوسری بار 1929ء ، تیسری بار 1936ء اور چوتھی بار1944ء میں کشمیر گئے۔جون 1944ء میں مسلم کانفرنس کے سالانہ جلسے میں قائداعظم نے کشمیریوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا جب مَیں اس جلسے پر نگاہ ڈالتا ہوں تو مجھے خوشی اور یقین ہوتا ہے کہ مسلمان اب جاگ اْٹھے ہیں اور وہ مسلم کانفرنس کے جھنڈے تلے کھڑے ہوگئے ہیں۔مَیں ایک مہینے سے یہاں مقیم ہوں اور اس عرصے میں میرے پاس ہر خیال کے آدمی آئے ہیں۔ مَیں نے دیکھا کہ 99فیصد جو میرے پاس آئے ہیں، مسلم کانفرنس کے حامی ہیں۔مَیں آپ کو ہدایت دیتا ہوں کہ آپ صاف صاف اور کھلے الفاظ میں اعلان کریں کہ ہم مسلمان ہیں۔عزت کا صرف ایک راستہ ہے، وہ ہے اتفاق و اتحاد، ایک پرچم،ایک نصب العین، ایک پلیٹ فارم۔ اگر آپ نے یہ حاصل کر لیا تو آپ یقیناًکامیاب ہوں گے۔مسلم لیگ اور ہماری خدمات، تائید و حمایت آپ کے قدموں پر ہوگی‘‘ ۔

بھارتی آئین میں مقبوضہ جموں کشمیر کی حیثیت

سن 1950 میں بھارتی پارلیمنٹ نے جب ملکی آئین منظور کیا تو اس میںمقبوضہ جموںو کشمیر کو دفعہ 370 کے تحت خصوصی درجہ دیا گیا۔اس دفعہ کے تحت بھارت کی کسی بھی ریاست کا شہری مقبوضہ کشمیر میں زمین یا دوسری جائیداد کا قانونی مالک نہیں بن سکتا۔وہ کشمیر میں سرکاری ملازمت کے لییدرخواست نہیں دے سکتا اور مقامی حکومت کی ا سکالرشپ کا بھی مستحق نہیں ہوسکتا۔تاہم شہری حقوق کی مزید وضاحت چار سال بعد آئین میں دفعہ 35۔اے کے تحت کی گئی جس میں واضح کیا گیا کہ کشمیریوں کو پورے بھارت میں شہری حقوق حاصل ہونگے لیکن دیگر ریاستوں کے بھارتی شہریوں کو کشمیر میں وہ حقوق نہیں ہوں گے۔ دفعہ 370 کے تحت کشمیر کے حکمران کو وزیراعظم کہلایا جانا تھا اور ریاست کے سربراہ کو صدر کا عہدہ ملنا تھا لیکن 1975 میں اندرا گاندھی اور شیخ عبداللہ کے درمیان معاہدے کے بعد یہ عہدے باقی ریاستوں کی طرح وزیراعلیٰ اور گورنر کہلائے۔ تاہم شہریت کے خصوصی حقوق کو دفعہ 35۔اے کے ذریعے تحفظ حاصل ہے۔

بھارت کی انتہا پسند جماعتیں اور کئی حلقے سمجھتے ہیں کہ کشمیر کو بھارتی وفاق میں مکمل طور پر ضم کرنے میں 35۔اے ہی رکاوٹ ہے اس کے خلاف وہ سپریم کورٹ میں گئے جس پر سپریم کورٹ نے پانچ ججوں پر مشتمل خصوصی بینچ قائم کیا ۔ حریت کانفرنس کے رہنماؤںنے دفعہ 35اے کے حق میں ہڑتال کی کال دی تومقبوضہ جموں وکشمیرکے مسلم اکثریتی علاقوں کے ساتھ ساتھ وادی بھر میں عام زندگی معطل ہوگئی۔گزشتہ ماہ اپریل میں بھارتی سپریم کورٹ اس کیس کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ آئین ہند کی دفعہ 370 جس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو ہند یونین میں خصوصی آئینی پوزیشن حاصل ہے ،عارضی شق نہیں ہے۔ اگرچہ اس شق کو بھارت کے آئین میں ایک عارضی شق کے طور پر شامل کیا گیا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس کے وجود نے ایک مستقل حیثیت حاصل کرلی ہے جس کے باعث اس کی منسوخی ناممکن بن گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے حکومت کو اس بارے میں اپنا جواب داخل کرانے کے لیے تین ہفتے کی مہلت دی ۔

کشمیر کبھی بھی بھارت کا لازمی حصہ(اٹوٹ انگ) نہیں رہا‘، بھارتی مصنفہ اروندھتی رائے

معروف بھارتی مصنفہ اور انسانی حقوق کی علمبردار اروندھتی رائے نے 23 اکتوبر 2010ء کو ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا’’کشمیر کبھی بھی بھارت کا لازمی حصہ(اٹوٹ انگ) نہیں رہا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جسے بھارتی حکومت بھی اسے تسلیم کر چکی ہے۔56 سالہ سوزانہ اروندھتی رائے بھارت کی بہترین مصنفین میں شامل ہیں، انہوں نے ایک ناول The God of Small Things تحریر کیا جس پر انہیں 1997 میں بکر پرائز سے نوازا گیا۔ اروندھتی رائے کوسنہ 2002 میں توہین عدالت کے جرم میں علامتی جیل ہوئی تھی۔انھوں نے کشمیر کے متنازع خطے پر بھارت کی حکمرانی کو چیلنج کیا تھا جس کی وجہ سے انھیں گرفتاری اور بغاوت کے مقدمے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اروندھتی رائے کا کہنا تھا کہ بھارت کشمیر میں اگر سات سے 70 لاکھ فوجی بھی تعینات کر دے، تب بھی کشمیر میں اپنا ہدف حاصل نہیں کرسکتا۔ اروندھتی رائے اکثر کشمیریوں کے حق میں بولتی نظر آتی ہیں۔کشمیری نوجوان فاروق احمد ڈار کو بھارتی فوج کی جیپ کے بونٹ سے باندھ کر گھمایا گیا تھا۔ گھمانے کے معاملے پر اداکار پریش راول نے ایک ٹویٹ کیا جس میں اس نے لکھا کہ آرمی جیپ پر پتھر پھینکنے والوں کو باندھنے کے بجائے اروندھتی رائے کو باندھنا چاہیے۔ اروندھتی رائے نے پاریش راول کے متنازع ٹویٹ پر کسی طرح کا تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہاکہ میں اس بات کو طول نہیں دینا چاہتی،اس وقت میں بہت سے ضروری کاموں میں مصروف ہوں۔

کشمیر کرہ ارض کا سب سے بڑامتنازع فوجی علاقہ‘ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کا یہ عالم ہے کہ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ نے2009میںکشمیر کو کرہ ارض کا سب سے بڑا فوجی علاقائی تنازع قرار دیا۔2011میں کشمیر کی آبادی ایک کڑور26لاکھ کے قریب تھی ، آبادی کے تناسب سے دنیا کی کسی بھی خطے یا شہر کے مقابلے میں اگرکسی جگہ سب سے زیادہ سیکورٹی اہلکا ر تعینات ہیں تو وہ وادی کشمیر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سات لاکھ فوجی اور نیم فوجی تعینات ہیں جو ہر بارہ سو افراد پر ستر سیکورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کا تناسب بنتا ہے جو دنیا میں ایک ریکارڈ ہے۔ یعنی ہر بارہ کشمیریوں پر ایک بھارتی فوجی تعینات ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ وادی کشمیر فوجی چھاؤنی میں تبدیل چکی ہے ،ایک اندازے کے مطابق وادی کی دس لاکھ کنال اراضی پربھارتی فوج قابض ہے۔ جنوری 2013میں کشمیر اسمبلی میں ایک تحریری جواب میں بتایا گیا کہ تین علاقوں جموں،کشمیر اور لداخ میں بھارتی فوج نے1054721کنال اراضی پر قبضہ کیا ہوا ہے۔

جموں و کشمیر میں عوام کی رائے ہی سب سے بڑا قانون ہے، مہاتما گاندھی

بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز نے سات اگست1947کو اپنی اشاعت میں مہاتما گاندھی کا بیان شائع کیا وہ ان دنوں کشمیر کے تین روزہ دورے پر تھے، چھ اگست کی شام پوجا کے لیے اکٹھے ہونے والے افراد سے خطاب میں گاندھی نے پہلی بار کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ قانونی طورپر 15 اگست کو جموں اور کشمیر کی ریاست آزاد ہو گی۔ انہوں نے یقین ظاہر کیا کہ یہ صورتحال زیادہ دیر ایسی نہیں رہے گی۔ اسے کسی ایک، ہندوستان یا پاکستان، میں شامل ہونا ہے۔گاندھی نے کہا کہ وہ پورے اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ جموں اور کشمیر میں عوام کی رائے ہی سب سے بڑا قانون ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مہاراجہ اور مہارانی نے بھی اس حقیقت کو بغیر کسی تامل کے تسلیم کیا۔’معاہدہ امرتسر‘ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ حقیقت میں وہ صرف ایک سودے کی رسید ہے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ 15 اگست کو اپنی موت مر جائے گا۔سوال یہ ہے کہ اس معاہدے کے خاتمے کے بعد کشمیر کس کے ساتھ شامل ہوگا تو گاندھی نے قانونی باریکیوں میں جائے بغیر کہا کہ عام عقل کا تقاضہ ہے کہ اس بات کا فیصلہ جموں اور کشمیر کے عوام ہی کر سکتے ہیں اور یہ جنتی جلدی ہو جائے اتنا ہی اچھا ہے۔لیکن لوگوں کی مرضی کا تعین کیسے ہو گا؟ گاندھی نے کہا کہ یہ ایک جائز سوال ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس کا فیصلہ دونوں ممالک(پاکستان، بھارت)، مہاراجہ کشمیر اور کشمیری عوام کے درمیان ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ایک متفقہ فیصلہ بہت سی مشکلات سے بچا ئے گا۔

بھارتی فوج نے کشمیریوں کی آنکھوں میں چھرے مارے،برکھا دت

کشمیر میں قابض بھارتی فوج کے ہاتھوں کشمیریوں کی آنکھوں میں چھرے مارنے کو دنیا بھر میںبے نقاب کرنے والی بھارتی صحافی برکھا دت تھی، امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں انہوں نے کشمیر یوں کی آنکھوں میں بھارتی فوج کی جانب سے چھرے مارنے کی رپورٹ دی تھی،جس میںکہا گیا کہ 100ایسے کشمیری سامنے آئے ہیں جن کی آنکھوں میں چھرے مار کر ان آنکھوں کی روشنی چھین لی گئی ،بھارتی فوج نے بچوں کو بھی نہیں بخشا اور ایک نو سالہ بچی کی آنکھوں میں بھی چھرے مارے۔ایک ڈاکٹر نے انہیں بتایا کہ ایسا ظلم مقبوضہ کشمیر میں پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔

برہان وانی کی شہادت کے بعد کشمیر کی احتجاجی تحریک کو دبانے کے لیے بھارتی فوج نے چھروں والی بندوق کا اس قدر استعمال کیا کہ چھرے اور چھروں سے زخمی آنکھیں کشمیری حالات کا تازہ حوالہ بن چکے ہیں۔حقوقِ انسانی کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی اس سلسلے میں ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں چھرّوں سے زخمی ہونے والے 88 متاثرین کا ذکر تھا۔ بھارتی فوج کی طرف سے مارے گئے چھروں سے سیکڑوں افراد کی آنکھیں متاثر ہوئیں جبکہ 14 افراد شہید بھی ہوئے ہیں۔ایمنسٹی کے مطابق بھارت کی مختلف ریاستوں مِیں مظاہرے ہوتے ہیں لیکن چھروں کی بندوق صرف کشمیرکے لیے مخصوص کی گئی۔

مقبوضہ کشمیر : 1989 سے اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد شہید

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج نے 1989 کے بعدسے اب تک ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کیاجب کہ دسہزار کشمیری لاپتہ ہیں۔ یہ اعدادوشمارکل جماعتی حریت کانفرنس کی طرف سے جاری کیے گئے ،ان اعدادوشمار کے مطابق 143048 افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا جن میں زیادہ تر معذور ہو گئے جبکہ 108596مکانات اور دکانوںکو تباہ کردیا گیا، دسہزار کشمیری خواتین کی عصمت کو تار تار کیاگیا ۔ سات ہزارسے زائدبے نام قبریں دریافت ہوئیں، ساتہزار خواتین نیم بیواؤں کی زندگی گزار رہی ہیںجنہیںپتہ ہی نہیں کہ ان کے شوہر زندہ ہیں یا شہید ہوگئے، جبکہ 22862خواتین بیوہ ہیں، 107676بچوں کو باپ کے سایہ سے محروم کیا گیا، حریت کانفرنس کی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ نو جولائی 2016 تا اکتیسدسمبر2016 کے عرصے کے دوران سو کشمیریوں کو شہید اور 7340 کو زخمی کیا گیا ، 6ہزار کشمیریوں کو چھروں کا نشانہ بنایا گیا جس میں ایک ہزار افراد کی آنکھیں متاثر ہوئیںجبکہ 64 افراد پوری طرح سے بینائی سے محروم ہوئے۔ 79500 گھروں کی توڑ پھوڑ کی گئی، جبکہ اس دوران 8ہزار گاڑیوں، موٹرسائیکلوں اور دیگر ٹرانسپورٹ کو بھی تباہ کیا گیا۔ نو ہزارافراد کو گرفتار کیا گیا جب کہ2602ایف آئی آر درج کی گئیں، جن میں 582 افراد کو انسان دشمن قانون پی ایس اے تحت نظربند کردیا گیا، جبکہ 524افراد کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے۔

عالمی ذرائع ابلاغ میں شہادتوں کے متضاد اعدادوشمار،سی این این47 ہزار ، واشنگٹن پوسٹ 65ہزار ، الجزیرہ70ہزار شہید

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کی داستان کئی دہائیوں پر پھیلی ہیں۔انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر دنیا بھر کا میڈیا متعدد بار رپورٹیں دے چکا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں ہلاکتوں کے متضاد اعدادو شمار ہیں،کیونکہ ذرائع ابلاغ اور انسانی حقوق کی تنظیموں پر کئی طرح کی پابندیوں کی وجہ سے درست اعداد وشمار کئی گنا زیادہ ہوسکتے ہیں۔ سی این این کے مطابق1989سے مقبوضہ کشمیر میں47ہزار افراد شہید ہو ئے۔ برطانوی خبر رساں ادارے رائٹر نے2008میں اپنی رپورٹ میں47ہزارشہادتیں بتائی تھیں۔واشنگٹن پوسٹ کے مطابق65ہزار افراد شہید ہوئے۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ستر ہزار کشمیری شہید ہوئے۔بھارتی حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 27سالوں میں41ہزار کشمیر ی شہید ہوئے یعنی یومیہ چار کشمیری شہید کیے گئے۔1989کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں69820 پرتشدد واقعات ہوئے جن کابھارت نے ہمیشہ الزام پاکستان پر لگایا ۔

کشمیری خواتین کی دل ہلادینے والی داستانیں،شوہر غائب، سرکاری سطح پر بیوہ نہیں،شادی بھی نہیں کرسکتیں

مقبوضہ کشمیر میں پندرہ سو سے زائد خواتین ایسی ہیں جن کے خاوند تو مر چکے ہیں، لیکن انہیں سرکاری سطح پر بیوہ نہیں قرار دیا گیا،قطری نشریاتی ادارے نے 2013کی ایک رپورٹ میں کشمیریوں کی دکھ بھری داستان بیان کرتے ہوئے کہا کہ 1989کے بعد سے سترہزار سے زائد کشمیری نوجوان شہید کردئیے گئے ، دس ہزار سے زائد کشمیر ی غائب ہیں، جن کے بارے کچھ معلوم نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا شہید ہوگئے ہیں۔15سو سے زائد ایسی خواتین جن کے شوہروں کو غائب کردیا گیا،وہ سرکاری سطح پر اس لئے بیوہ نہیں کہلا سکتیں کیونکہ ان کے شوہروں کو مردہ قرار نہیں دیا گیا، معاشی مسائل اور ذہنی صدمات نے ان کی زندگیوں کو اجیرن کردیا، سماج انہیں دوسری شادی کرنے نہیں دے رہا، مذہبی اسکالروں کی اس پرمتعلق مختلف رائے ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ کشمیر میں کئی دہائیوں سے جاری جدو جہد آزادی میں ایسی خواتین کی دل ہلا دینے والی داستانیں ہر جگہ ملیں گی جن کے شوہر غائب ہیں اور وہ انہیں مردہ سمجھ کر کہیں شادی بھی نہیں کرسکتیں۔ 1989کی مسلح جدو جہدکے بعد کشمیری نوجوانوں پر بھارتی فوج نے ظلم کے پہاڑ توڑے۔ کبھی مجاہدین کشمیر نوجوانوں کو گائیڈ کے طور پر استعمال کرتے ہیں کبھی بھارتی فوجی ان کو جنگلوں میں سرچ آپریشن کے لئے استعمال کرتی ہے۔کئی ان میں سے واپس گھروں کو نہیں لوٹے۔ خواتین اپنے شوہروں کا آج بھی انتظار کرتی ہیں کہ شاید وہ زندہ ہوں۔ غیرحل طلب تنازعات نے کئی دکھ بھری داستانیں چھوڑیں ہیں۔ان میں سب سے بد قسمت صورت ایسی خواتین کی ہیں جن کے شوہر غائب کردیئے گئے اور ان کے زندہ یا مردہ ہونے کا کوئی اتہ پتہ نہیں چل پا یا،تاہم مقامی سطح پر انہیں آدھی بیوہ سمجھا جاتا ہے۔حکومت کے پاس half-widows کے کوئی اعداد وشمار نہیں،ایک تھنک ٹینک کے مطابق ایسی خواتین کی تعداد15سو سے زائد ہے، تھنک ٹینک نے کشمیر کے22اضلاع میں سے صرف ایک ضلع بارمولا میں2700گمنام اور اجتماعی قبروں کی نشاندہی کی تھی، رپورٹ کے مطابق ان خواتین کے غائب شوہروں کی قبریں ان میں سے ہو سکتیں ہیں۔تھنک ٹینک نے بھارتی حکومت سے ان قبروں میں مدفون افرادکے ڈی این اے ٹیسٹ کا مطالبہ کیا تھا۔ان نصف بیواؤں کے علاوہ ایسے ڈی این اے ان دس ہزار غائب ہونے والے کشمیریوں کے خاندانوں کو مدد دے گا۔حکومت نے ایسی خواتین کو ریلیف دینے کی اسکیمیں جاری کرنے کا اعلان کیا، تاہم انہیں حکومت کی طرف سے ماہانہ دو سو روپے دیئے جاتے ہیں۔نصف بیوائیں معاشی اور ذہنی صدمات سے دو چار ہیں، اور ان کا انحصار سسرال یا والدین پر ہے۔انہیں جائداد یا بینک اکاؤنٹ کے لئے ڈیتھ سرٹیفیکیٹ چاہیے جو ایک بیوہ کے لئے ضروری ہے تاہم نصف بیواؤں کے شوہروں کو سرکاری سطح پر مردہ قرار نہیں دیا گیا۔ اسلامی شریعت کے مطابق بچوں کے ساتھ بیوہ کو آٹھواں اور بغیر بچوں کے چوتھا حصہ ملتا ہے ل،ہذا نصف بیوہ کو تو کچھ نہیں ملتا، کشمیر یونی ورسٹی کے قانون کے پروفیسر کا کہنا ہے کہ دوسری شادی کو معاشرے میں معیوب سمجھا جاتا ہے ،سری نگر کے ایک مکتبہ فکر کے اسکالر مفتی عبدالرشید کا کہنا ہے کہ ایسی خواتین جن کے شوہر غائب ہو ں وہ کسی مسلمان جج سے ایک سال تک اپنے شوہر کی تلاش میں مدد لے سکتی ہے، اگر جج ناکام رہے تو وہ شادی ختم کرکے اس خاتون کو کسی دوسری جگہ نکاح کی اجازت دے سکتا ہے ،اگر دوسری شادی کے بعد پہلا شوہر سامنے آجائے تو دوسری شادی ختم ہو جائے گی۔حنفی فقہ کے مطابق ایسی خاتون جس کا شوہر غائب ہو جائے وہ90سال تک اس کا انتظار کرے،اگر نہ آئے تو پھر وہ شادی کرسکتی ہے۔ ایک اور اسلامی اسکالر مفتی قمر الدین کا کہناتھا کہ شوہر کے انتظار کم کرکے چار سال دس دن ہے۔اس عرصہ کے بعد خاتون دوسری شادی کرسکتی ہے۔ انسانی حقوق گروپ کا کہنا کہ گزشتہ24 سالوںسے غائب ہونے والا کسی کا شوہر واپس نہیں آیا۔52سالہ بیگم جان کا شوہر 1998 ء کی ایک شام نماز کے لیے گھر سے نکلا اور آج تک واپس نہیں آیا۔بی بی فاطمہ کا شوہر 1993میں مزدوری کے لئے گھر سے نکلا پھر واپس نہیں لوٹا ،آرمی کیمپوں کے علاوہ اس نے اسے ہر جگہ تلاش کیااور اب اس کی واپسی کی امید توڑ دی۔

مسئلہ کشمیر:عالمی برادری کی خاموشی

جب سکاٹ لینڈ میں ریفرنڈم ہو سکتا ہے ، یوکرین میں روسی فوج کو چند ہفتوں میں داخل کرادیاجاتا ہے، انڈونیشیا سے عیسائی آبادی پر مشتمل مشرقی تیمور کو آزاد مملکت قرار دلوا دیاجاتا ہے، یوگنڈا میں قدرتی وسائل سے مالامال جنوبی سوڈان کی آزادی کا انتظام کیا جاسکتا ہے تو پھر کشمیر اس سے محروم کیوں؟ یہ عالمی برادری کا دہرا معیار اور دوغلا پن ہے اور مجرمانہ خاموشی ہے، اس کی بڑی وجہ امریکہ سمیت اہم قوتوں کے مالی مفادات ہیں اور وہ بھارت کی منڈی کھونا نہیں چاہتے ۔یہی وجہ ہے کہ بھارت ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے ۔ بھارت 1948ء میں خود اقوام متحدہ میں اس مسئلے کو لے کر گیا تھا۔ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کشمیریوں کوحق خودارادیت دینا بھارت کی ذمہ داری تھی۔خود بھارت کے کئی دانشور مسئلہ کشمیر کی سنگینی کو سمجھنے کا مشورہ دیتے ہیں اور ریت میں سر چھپانے کے بجائے اس پر گہری سوچ وبچار کرنے پر زور دیتے ہیں تاکہ اگر کچھ نہیں تو کم از کم اْن لاکھوں وردی پوشوں کو ملک کے دوسرے حصوں میں بنیادی کاموں پر مامور کیا جا سکتا ہے جو کشمیر کی گلیوں میں گزشتہ ستربرسوں سے خود بھی مر رہے ہیں اور دوسروں کو بھی مار رہے ہیں۔ ممتاز امریکی فلسفی اور دانشور نوم چومسکی نے کہا تھا کہ کشمیریوں کو بدترین مظالم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بھارتی فوج کو کشمیر سے واپس چلے جانا چاہیے۔ بھارت نے اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی قرارداد کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ 

مسلہ کشمیر دوجوہری ممالک کو تیسری عالمی جنگ میں جھونک سکتا ہے

اقوام متحدہ کیلئے یہ بھی سوچنے کا مقام ہے کہ کشمیر سے متعلق سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل کیوں نہیں کیا گیا؟ بھارت کے اس روئیے سے خود اقوام متحدہ کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔بدقسمتی سے کشمیر کے حوالے سے عالمی برادری دہرے معیار پر کاربندہے۔عالمی برادری لالچ،مصلحت،تجارت اور معیشت کی وجہ سے بھارت کی ہاں میں ہاں ملا رہی ہے۔او آئی سی کے رکن ممالک کی تعداد 57 ہے۔ یہ اقوام متحدہ کے بعد ممالک کی تعداد اور مجموعی وسائل کے حوالے سے دنیا کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔ اس میں شامل متعدد ممالک اپنی امارت‘ دولت اور ثروت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ پاکستان کی صورت میں ایٹمی قوت بھی موجود ہے۔ گویا اسلامی ممالک او آئی سی کے پلیٹ فارم پر ممکنہ طور پر سپرپاور بننے کی پوری اہلیت اور صلاحیت رکھتی ہے۔ افسوس کہ امریکہ اور اسکے اتحادیوں کے ظلم وجبر کا شکارصرف مسلمان ممالک ہیں۔

کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادیں سفارشی نوعیت کی ہیں،طاقت کے استعمال کی نہیں،بی بی سی

بی بی سی ایک رپورٹ کے مطابق کشمیر میں رائے شماری سے متعلق اقوامِ متحدہ کے اختیارات محض اخلاقی نوعیت کے ہیں۔بائیکاٹ، ناکہ بندی ، سفارتی مقاطعہ اور طاقت کا استعمال صرف ان قرار دادوں پر عمل کروانے کے لیے ہو سکتا ہے جو سلامتی کونسل نے چیپٹر سیون کے تحت منظور کی ہوں۔کشمیر میں رائے شماری سے متعلق قرار دادیں چیپٹر سکس کے تحت منظور ہوئی ہیں یعنی ان کی نوعیت سفارشی ہے۔ان پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں کسی فریق کے خلاف اقوامِ متحدہ طاقت کا استعمال نہیں کر سکتا اور نہ ہی اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم سے کوریا یا عراق طرز کی کوئی تادیبی کارروائی ممکن ہے۔ تاہم یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ مسئلہ کشمیر محض اقوامِ متحدہ کی سستی کے سبب حل نہیں ہو پا رہا۔اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر آخری بار دسمبر 1957 میں زیرِ بحث آیا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک بہت سی تبدیلیاں آ گئی ہیں۔پاکستان اور چین نے سرحدی معاہدے 1963 کے تحت شمالی کشمیر کی حد بندی میں باہمی سہولت کے حساب سے رد و بدل کر لیا۔1965 کی جنگ نے طے کر دیا کہ کشمیر طاقت کے استعمال سے کسی ایک فریق کو نہیں مل سکتا۔

پاکستان اور بھارت مسئلہ کشمیر پر 2007سے قبل ایک حتمی سمجھوتے کے قریب تھے،وکی لیکس

سن 2011میں وکی لیکس کے مطابق پاکستان اور بھارت مسئلہ کشمیر پر ایک سمجھوتے کو حتمی شکل دینے کے بہت قریب پہنچ گئے تھے لیکن پاکستان میں جنرل مشرف کو درپیش سیاسی دشواریاں آڑے آگئیں۔ لیکس کے مطابق امریکی ایوان نمائندگان کی خارجہ کمیٹی کے سربراہ ہاورڈ برمین کی قیادت میں ایک وفد نے اپریل 2008 میں بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ سے ملاقات کی تھی جس میں بھارتی وزیر اعظم نے کہا تھا کہ فروری 2007 سے پہلے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی راہ میں ٹھوس پیش رفت ہوئی تھی۔ وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ بھارت ایک مستحکم، مضبوط، پر امن اور جمہوری پاکستان دیکھنا چاہتا ہے اور پاکستان کی ایک انچ زمین پر بھی دعویٰ نہیں کرنا چاہتا۔بیک چینل سفارت کاری کے ذریعے ہمارے اور صدر مشرف کے درمیان ایک غیر علاقائی حل پر اتفاق ہوگیا تھا جس میں کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان لوگوں کو آزادی سے آنے جانے اور تجارت کرنے کی اجازت حاصل ہوتی۔

خود وزیر اعظم من موہن سنگھ نے بھی اس دور میں ’سافٹ بارڈرز‘ کی تجویز رکھی تھی ۔ اکیس اپریل2009 کو بھیجے جانے والے اس مراسلے کی تفصیلات بھارتی اخبارات نے نمایاں طور پر شائع کی ا۔

صدر مشرف نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے چار نکاتی فارمولہ پیش کیا تھا تاہم لیکس میں صدر مشرف کے فارمولے کا ذکر نہیں تھا۔ سابقصدرجنرل مشرف اور سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری پہلے بھی یہ کہہ چکے تھے کہ اس دیرینہ اور پیچیدہ مسئلہ کو حل کرنے کی راہ میں ٹھوس پیش رفت ہوئی تھی لیکن یہ انکشاف پہلی مرتبہ سامنے آیا کہ بھارت کی اعلیٰ ترین سیاسی قیادت نے امریکی رہنماؤں سے اس بات کی تصدیق کی۔

صدر ایوب نے بھارت پر حملہ نہ کرنے کے بدلے امریکا سے کشمیر مانگا ،سی آئی اے حکام

امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ایک سابق اہلکار بروس ریڈل نے اپنی کتاب میں لکھا کہ صدر ایوب خان نے 1962 میں بھارت چین جنگ کے دوران بھارت پر حملہ نہ کرنے کے بدلے میں امریکہ سے کشمیر کا مطالبہ کیا تھا۔ اپنی کتاب ’JFK's Forgotten Crisis‘ میں لکھا کہ 1962 میں پاکستان پوری طرح سے حملہ کرنے کی حالت میں تھا اور بھارتی فوج چین اور پاکستان کے اس دو طرفہ حملے سے پارہ پارہ ہوجاتی۔ امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے اس ممکنہ پاکستانی حملے کو روکنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ کینیڈی اور برطانیہ کے وزیر اعظم ہیرلڈ میکملن نے پاکستان پر یہ کہہ کر سخت دباؤ ڈالا کہ اگر وہ حملہ کرتا ہے تو اسے بھی چین کی طرح ہی حملہ آور ملک قرار دیا جائے گا۔ 1962 میں پاکستان کے حملہ نہ کرنے کی بڑی وجہ یہ رہی کہ امریکہ اور برطانیہ کو ناراض کرکے پاکستان بالکل تنہا پڑ جاتا اور چین پر اس وقت کوئی یقین نہیں کر سکتا تھا۔ان دنوں بھارت میں امریکہ کے سفیر جان گیلبریتھ کے مطابق صدر ایوب خان امریکی مشورے کے بالکل خلاف تھے مگر جب ان سے کہا گیا کہ صدر کینیڈی ایک خط لکھ کر ان سے یہ گذارش کریں گے تو وہ سننے کو تو تیار ہوئے مگر ساتھ ہی انھوں نے یہ شرط رکھی کہ ’اس کے بدلے میں امریکہ کشمیر کے مسئلے پر بھارت کے خلاف سخت رویہ اپنانے کا وعدہ کرے۔ ریڈل نے لکھا ہے: ’دیکھا جائے تو ایوب خان یہ کہہ رہے تھے کہ امریکہ اور پاکستان ایک ساتھ مل کر بھارت کو مجبور کریں کہ وہ کشمیر ان کے حوالے کر دے اسی طرح جیسے چین بھارت کی زمین پر قبضہ کر رہا تھا۔ کتاب کے مطابق ایوب خان نے کینیڈی سے کوئی وعدہ نہیں کیا اور ساتھ ہی اس بات پر ناراضی بھی ظاہر کی کہ امریکہ نے پاکستان کو بغیر بتائے ہی بھارت کو چین کے خلاف ہتھیار فراہم کیے۔

مشرف کا کشمیر کو سات حصوں میں تقسیم کرنے کافارمولہ

سن2004میں جنرل ریٹائرڈپرویز مشرف نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے استصواب رائے اور کنٹرول لائن کو مستقل سرحد بنائے جانے کو ناممکن قرار دیتے ہوئے حل کے لیے ایک نیا فارمولہ پیش کیا۔اکتوبر2004میں برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا کہ پرویز مشرف کے فارمولے کے تحت آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کو جغرافیائی، لسانی اور مذہبی بنیادوں پر سات حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ دونوں ممالک کو طے کرنا ہے کہ کونسے حصے دونوں ممالک کے پاس ہوں اور کونسے حصے کو خودمختاری دی جا سکتی ہے۔تجویز کے مطابق خودمختار حصے کو اقوام متحدہ کے زیرانتظام کیا جا سکتا ہے یا پھر یہ دونوں ممالک کے مشترکہ کنٹرول میں بھی رہ سکتا ہے۔ پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے دو حصے آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات پر مشتمل ہیں۔مقبوضہ کشمیر کے پانچ حصے ہیں جن میں وادی کشمیر بھی شامل ہے جو کہ خالصتاً کشمیری ہیں۔ دوسرا علاقہ جموں کا ہے جس کے دو حصے ہیں ایک مسلمانوں اور دوسرا ہندؤوں کا ہے۔ تیسرا لداخ، چوتھا کارگل اور پانچواں لیہ کا حصہ ہے ۔انہوں نے کہا کہ لداخ بدھ مذہب والوں کا ہے جبکہ کارگل شیعہ مسلمانوں کا اکثریتی علاقہ ہے۔ ان سات علاقوں میں سے بھارت اور پاکستان کو طے کرنا ہے کہ ان حصوں کی تقسیم مذہبی بنیاد پر ہونی چاہیے یا لسانی یا جغرافیائی بنیادوں پر۔مشرف کے مطابق جب وہ نیویارک میں بھارت کے وزیراعظم منموہن سنگھ سے ملے تھے ،اس وقت انہوں نے ان سے کہا تھا کہ استصواب رائے اور کنٹرول لائن کو سرحد بنانے کی باتیں چھوڑیں اور دیگر تجاویز پر غور کریں۔انہوں نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم نے ان سے تجاویز پیش کرنے کے لیے کہا تھا۔

مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے پرویز مشرف کا چار نکاتی فارمولہ

برطانوی اخبار گارجین نے دسمبر2006کی ایک رپورٹ میں کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے جنرل پرویز مشرف نے چار نکاتی فارمولہ پیش کیا،جن کے نکات یہ ہیں:۔

1)۔ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کی سرحدیں ( یاد رہے کہ یہ سرحدیں نہیں بلکہ کنٹرول لائن ہے) کو جوں کا توں برقرار رکھا جائے اور دونوں جانب سے لوگوں کو آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت دی جائے۔

2)۔ ریاست کو خود حکومتی یا خودمختاری کا درجہ دیا جائے ،مقبوضہ جموں و کشمیر اورآزاد کشمیر کو تجارت، سیاحت اور پانی جیسے معاملات میں اندرونی انتظام کی اجازت دی جائے تاکہ تعاون کی بنیاد پر علاقے کی سماجی اور اقتصادی لحاظ سے زیادہ سے زیادہ ترقی ہو سکے۔

3) علاقے سے مرحلہ وار فوج واپس بلائی جائے۔

4) کشمیر کیلئے اس روڈ میپ پر عمل درآمد کی نگرانی کیلئے مشترکہ نظام بنایا جائے جو پاکستان، بھارت اور کشمیری نمائندوں پر مشتمل ہو۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے سابق وزیر اور نامور وکیل رام جیٹھ ملانی نے کشمیر کیلئے سابق صدر پرویز مشرف کے چار نکاتی فارمولا کی حمایت کی تھی۔

کشمیر پر اپنے دعویٰ سے دستبردار ہونے کو تیار ہیں،پرویز مشرف

سابق صدر پرویز مشرف نے بھارتی ٹی وی چینل’این ڈی ٹی وی‘ کو دسمبر2006میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اگر بھارت پاکستان کی کچھ امن تجاویز مان لیتا ہے تو پاکستان کشمیر پر اپنے دعویٰ سے دستبردار ہو جائے گا۔ انٹرویو میں انہوں نے اس سلسلے میں خطے سے فوجوں کی مرحلہ وار واپسی اور کشمیر ی عوام کو حکمرانی کے حق کی تجویز بھی دی ۔ان کا کہنا تھا اگر یہ حل ہمارے سامنے رکھا جاتا ہے تو ہمیں کشمیر پر اپنے دعویٰ سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ مشرف نے مزید کہا کہ متنازع خطے کے معاملے میں گومگو کی کیفیت کو ختم کرنے کے لیے ان کے پاس ایک چار نکاتی حل ہے۔ اس حل میں فوجوں کے مرحلہ وار انخلاء اور مقامی لوگوں کو حکمرانی کا حق دینے کے علاوہ یہ تجاویز ہیں کہ کشمیر کی سرحدوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہونی چاہیے اور نگرانی کا ایک مشترکہ طریقہ کار ہونا چاہئے جس میں بھارت، پاکستان اور کشمیر تینوں شامل ہوں۔جب جنرل مشرف سے پوچھا گیا کہ وہ کشمیر پر پاکستانی دعویٰ سے دستبردار ہونے کے لئے تیار ہیں تو ان کا کہنا تھا اگر اس قسم کا حل ہمارے سامنے رکھا جاتا ہے تو تو پھر ہمیں اس دعویٰ سے دستبردار ہونا پڑے گا۔‘

ان تجاویز پر بھارتی تجزیہ نگاروں نے خوش آمدید کہتے ہوئے انہیں ’کشمیر پر بھارتی موقف کے قریب ترین‘ قرار دیا تھا۔

کشمیر تقسیمِ برصغیر کا نامکمل ایجنڈا ،سابق پاک آرمی چیف

پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف نے 2015میںکہا کہ کشمیر تقسیمِ برصغیر کا نامکمل ایجنڈا ہے اور مسئلہ کشمیر کو پسِ پشت ڈال کر خطے میں پائیدار امن ممکن نہیں۔انہوں نیکہا کہ کشمیری عوام گذشتہ سات دہائیوں سے ظلم و بربریت برداشت کر رہے ہیں اب وقت آ گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی قرارداد کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کو حل کیا جائے۔انھوں نے کہا کہ پاکستان کی فوج بیرونی جارحیت کا منہ توڑ مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے ،جنگ چاہے روایتی ہو یا غیر روایتی ہم اْس کے لیے تیار ہیں۔دنیا کشمیریوں کی آزادی کی خواہش اور کوششوں کا احترام کرے جب کہ عالمی برادری مسئلہ کشمیر کے حل اور خطے میں قیام امن کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔انہوں نے اس قبل بھی کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر حل بغیر خطے میں امن کا قیام ممکن نہیں ہے۔

مسئلہ کشمیر پاکستان کی خارجہ پالیسی اور سفارتکاری کا بنیادی ستون

مسئلہ کشمیر پاکستان کی خارجہ پالیسی اور سفارتکاری کا بنیادی ستون ہے، پاکستان کی کسی حکومت نے مسئلہ کشمیر پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا ، پاکستان کشمیر کو ایک متناز ع علاقہ سمجھتا ہے، پاکستان کشمیر کے بغیر نامکمل اورکشمیر کی پاکستان کے بغیر کوئی شناخت نہیں، اگر بھارت کشمیر پر قبضہ کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہو جائے تو وہ کشمیر سے آنے والے دریاؤں کا پانی روک کر پاکستان کو بنجر بنانے اور ہائیڈرو پاور پروجیکٹس کو ناکارہ کرنے کی سازش کر سکتا ہے، آزاد کشمیر پاکستان کے دفاع کیلیے ایک مضبوط حصار ہے۔ کشمیری پاکستان کی شہ رگ ہے اسے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔کشمیری عوام کی خواہشات اور امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کے بارے میں پاکستان اپنی سیاسی،اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔

مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر امن ممکن نہیں، نواز شریف کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے تاریخی خطاب

نواز شریف نے ہمیشہ ملکی اور عالمی سطح پرمسئلہ کشمیر کو بھرپور انداز میں پیش کیا۔ستمبر2016کو نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 71 ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم نواز شریف نے کہاکہ پاکستان بھارت کے ساتھ امن چاہتا ہے اور بات چیت دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے ،تاہم کشمیر کے مسئلے کے حل کے بغیر امن ممکن نہیں ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں ماورائے عدالت قتل کے واقعات کی آزادانہ تحقیقات کی جائے اور اقوام متحدہ کے فیکٹ فائنڈنگ مشن کو کشمیر بھجوایا جائے تاکہ وہ بھارت کے بہیمانہ تشدد کی تحقیقات کریں اور ذمہ داران کو سزا دی جائے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ سیاسی قیدیوں کی رہائی عمل میں لائی جائے، کرفیو کا خاتمہ کیا جائے اور زخمیوں کو طبی امداد دی جائے۔ ناقابلِ قبول پیشگی شرائط باہمی مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں نوجوان نسل بھارت کے غیر قانونی قبضے کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ خطاب کے بعد نواز شریف نے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون سے بھی ملاقات کی اور انہیں بھارت فوج کے ہاتھوں کشمیریوں کی ہلاکتوں کے ثبوت دیے۔ انہیں ظلم وستم کا شکار بننے والے کشمیریوں کی تصاویر بھی دکھائیں۔ نواز شریف کے اس خطاب کو ملک میں مختلف حلقوں کی جانب سے جامع اور مکمل قرار دیتے ہوئے امید کا اظہار کیا گیا ہے کہ اب دنیا مسئلہ کشمیر کی جانب توجہ دے گی۔ 

مسلہ کشمیر دوجوہری ممالک کو تیسری عالمی جنگ میں جھونک سکتا ہے

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نواز شریف کی تقریر جامع تھی اور انھوں نے کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے نقط نظر کو اجاگر کیا ۔ اس دوران نواز شریف نے عالمی رہنماؤں سے اپنی ملاقاتوں میں زور دیا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کی جانب سے کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں صورت حال کو روز بروز سنگین بنا رہی ہیں۔بھارتی وزیر خارجہ نے نواز شریف کے خطاب پر احتجاج کیا اور کہا کہ ان کاجنرل اسمبلی میں خطاب مکمل طور حیران کرنے والا ہے۔

اسی سال اکتوبر میںسابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ مسئلہ کشمیر خطے میں کشیدگی کی بڑی وجہ ہے اور بھارت کو اس کے حل کے لیے سنجیدہ ہونا چاہیے۔ بھارت کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کے تحت اپنے وعدوں کی پاسداری کرنی چاہیے۔ پاکستان مسئلہ کشمیر کے پر امن حل کے لیے پرعزم ہے کیونکہ وہ ایک پرامن ملک ہے۔

2014میںاقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 69 ویں اجلاس سے خطاب میں، کہا کہ جنوبی ایشیا میں امن کے حصول کے لیے کشمیر کا حل لازم ہے، جس کے لیے ٹھوس کوششیںکی جائیں۔

2015میں لندن میں نواز شریف نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے جتنی جلد کوششیں شروع کی جائیں وہ خطے کے امن کے مفاد میں ہیں،ہم چاہتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ تمام معاملات کو حل کیا جائے، بھارت کشمیر سمیت سارے معاملات پر پاکستان سے بات کرے اور ہم بھی کشمیر سمیت سب معاملات پر بات کرنا چاہتے ہیں۔۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ کشمیر ایک بنیادی مسئلہ ہے جس کو حل کرنا انتہائی ضروری ہے اور جتنا جلدی دونوں ملک اس پر کام شروع کریں اتنا ہی دونوں ملکوں کے لیے بہتر ہو گا۔

فروری1999میں بی جے پی سے تعلق رکھنے والے بھارتی وزیراعظم واجپائی میں میاں نوازشریف کی دعوت پر پاکستان آئے اور معاہدہ لاہور پر دستخط ہوئے۔کچھ رپورٹس کے مطابق اس امر پر اتفاق رائے ہو چکا تھا کہ وادی کشمیر(جموں اور لداخ کے بغیر)کومکمل خود مختاری دی جائیگی۔اس کا اپنا وزیراعظم ،جھنڈا اور کرنسی ہوگی۔اختلاف صرف اس بات پر تھا کہ وادی کی خارجہ پالیسی اور دفاع کا کیا انتظام کیا جائے۔یہ بھی طے پایا تھا کہ اگلے ایک سال کے اندر ان دونوں مسائل کا حل بھی تلاش کرلیا جائے گا اور یہ کہ ان سب امور کو آخری لمحے تک خفیہ سفارتکاری کے ذریعے طے کیا جائے گا۔2011میں ایک بیان میں نواز شریف نے کہا تھا کہ واجپائی نے 1999ء کو مسئلہ کشمیر کے حل کا سال قرار دینے کو کہا تھا دونوں ملکوں کو مسئلہ کشمیر پر اپنے 60 سالہ موقف سے باہر نکل جانا چاہئے اس ساٹھ سالہ پوزیشن پر قائم رہنے والے آج بھی یہاں ہیں لیکن ہم کو مل بیٹھ کر مسائل کو حل کرنا پڑے گا۔

پاکستان کے موقف کے برعکس اسد درانی خود مختار کشمیر کے حامی

پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی اور بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ اے ایس دولت کی کتابThe Spy Chronicles: Raw, ISI and the Illusion of Peace میں کشمیر پرکچھ ابواب ہیں جن میںدونوں ایجنسیوں کے سابق سربراہوں نے کشمیر پر گفتگو میں مسئلے کے حل نہیں بتایا ۔ اسددرانی کے نزدیک خودمختار کشمیر کے بیانیے کو چھوڑناپاکستان کی بڑی غلطی تھی۔وہ مقبوضہ جموںو کشمیر کے پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کے علاوہ خود مختار کشمیر کے امکان کو تسلیم کرتے ہیں جب کہ پاکستان کے مقتدر حلقے اس امکان کو تسلیم نہیں کرتے ، ابتدائی تحریک میں پاکستان نے مذہبی گروہوں کی مدد کو ترجیح دی۔ا سد درانی کے مطابق پاکستان کا جھکاؤ سردار قیوم کی طرف تھا کہ کشمیر پاکستان میں شامل ہو، جماعت اسلامی کا نعرہ بھی یہی تھا کہ کشمیر بنے گا پاکستان ۔ اسی وجہ سے امان اللہ ناراض تھے۔ جماعت اسلامی اور قیوم خان کی حمایت ہماری اس شدید خواہش کا نتیجہ تھا کہ کشمیر پاکستان بن جائے۔ رائے قائم کرنا یا فیصلے دینا ہمارا کام نہیں تھا۔کشمیر کی آزادی سے سب سے زیادہ نقصان بھارت کو ہوتا۔ اگر بھارت کے ساتھ ساٹھ ستر سال رہنے کے باوجود کشمیری آزادی یاخود مختاری چاہتے ہیں تو ان کے جذبات میں وزن ہے جن کی قدر ہونی چاہیے، اگر کشمیری خود مختار ہوئے تو وہ بھارت سے اچھے تعلقات رکھیں گے، وہ مختلف وجوہات کی بنا پر چین سے بھی رابطہ کریں گے، لیکن مجھے یقین ہے کہ ان کے دل اپنے مغربی ہمسائے پاکستان کے ساتھ ہوں گے۔ اس لیے اگر کوئی خود مختاری کی بات کرتا ہے تو یہ ہمارا کام نہیں ہے کہ ہم اس کے راستے کی رکاوٹ بنیں۔ تیسرے باب میں امان اللہ گلگتی کی آزادی کے خواب کا ذکر ہے۔ اسد درانی امان اللہ سے ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ ابتدائی مزاحمتی کردارتھے ،ان کے آزادی کے آئیڈیا سے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ناراض ہوگئی۔ امان اللہ کو عوامی حمایت حاصل تھی اوراس وجہ سے کچھ حلقے اْسے پسند نہیں کرتے تھے ۔ امان اللہ کے ساتھ ہم نے درست نہیں کیا۔ بھارت نے کشمیر کو خصوصی حیثیت دی۔ ہم ہمیشہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ کشمیریوں کا دل ہمارے ساتھ ہے تو ایک خود مختار کشمیر کا جھکاؤ ہماری طرف ہی ہو گا۔ مجھے خود مختار کشمیر سے کوئی مسئلہ نہیں۔ کچھ لوگ کشمیریوں کو قابل بھروسہ نہیں سمجھتے لیکن یہ مخصوص پاکستانی، برصغیر یا عالمی خاصہ ہے کہ اپنے سوا کسی اور کو قابل بھروسہ قرار نہیں دیا جاتا۔ پنجابی کہتے ہیں کہ ہم سب سے بڑی آبادی ہیں ،ہم ہی سب سے زیادہ مغلوں اور برطانوی راج کے لئے قابل بھروسہ رہے تھے۔ پنجابی پریشان ہو جاتے ہیں کہ خودمختار کشمیر کے بعد منگلا ڈیم کا کیا بنے گا۔ اسد درانی کا کہنا ہے کہ اگرچہ پاکستان کے اندر دہشت گرد، بنیاد پرست اور انتہا پسند پہلے بھی موجود تھے، لیکن پاکستان میں دہشت گردی کے موجودہ مرحلے کی وجہ جنرل مشرف کا2004کا وہ فیصلہ جس کے تحت فوج کو جنوبی وزیرستان بھیجا گیا اس فیصلے سے تحریک طالبان میں شدت پسندی آئی۔ دونوں کا کہناہے کہ جب پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات بہتر ہوتے ہیں تووہ کشمیریوں کے مصائب کو بھول جاتے ہیں۔

مسلہ کشمیر دوجوہری ممالک کو تیسری عالمی جنگ میں جھونک سکتا ہے

اے ایس دولت کا کہنا ہے کہ خودمختار کشمیر پاکستان کے لئے کبھی قابل قبول آپشن نہیں رہا۔ اسٹیبلشمنٹ کو مسئلہ ہے۔

سید علی گیلانی کاکشمیر کیلئے چار نکاتی امن فارمولا

8 جولائی 2016ء جمعہ کے روز بھارتی فوج نے کوکر ناگ (جنوبی مقبوضہ کشمیر) کے علاقے میں ایک گاؤں پر حملہ کرکے تین کشمیری مجاہدین کو شہید کیا ،ان میں آزادی کشمیر کے نوجوان ہیرو برہان مظفر وانی بھی شامل تھے جب شہید وانی کی لاش اس کے آبائی گاؤں ترال (ضلع پلواما) میں تدفین کے لئے لائی گئی تو ساری وادی میں گویا آگ لگ گئی جس کے بعد حالات انتہائی کشیدہ ہوگئے۔ برہان وانی کی شہادت اور محاصرے کے دس روز بعد مقبوضہ کشمیر میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی گیلانی نے کشمیر میں قیام امن سے متعلق چار نکاتی امن فارمولا پیش کیا، انہوںنے عالمی اداروں اور سربراہان مملکت کو ایک طویل خط ارسال کیا ، جس میں انھوں نے کشمیر میں پائیدار امن کی ضمانت کے لیے چار نکات پر مشتمل مطالبات کی فہرست جاری کی ،انہوں نے یہ مکتوب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین اور روس جیسے ممالک کے سربراہان، سارک ممالک اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کی تنظیم آسیان اور اسلامی ممالک تنظیم کے علاوہ پاکستان، ایران ، سعودی عرب اور ترکی کے سربران مملکت کو ارسال کیا ۔خط میں انہوںنے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے بھارت کو کشمیر سے متعلق فوجی پالیسی تبدیل کرنے پر آمادہ کریں۔ چار نکاتی فارمولہ کے نکات یوں تھے :۔

٭مقبوضہ جموںو کشمیر کی متنازع حیثیت اور اس کے باشندوں کا حق خودارادیت تسلیم کیا جائے۔

٭آبادی والے علاقوں سے فوجی انخلا اور عوام کْش فوجی قوانین کا خاتمہ کیا جائے۔

٭تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی، نظربندی کے کلچر کا خاتمہ اور مسئلہ کشمیر سے جڑے سبھی سیاسی مکاتبِ فکر خاص طور پر حق خودارادیت کے حامی سیاسی رہنماؤں کو سیاسی سرگرمیوں کی آزادی ہو۔

٭اقوام متحدہ کے خصوصی مبصرین اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کے مشاہدین کو کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت دی جائے۔

مسئلہ کشمیر گولی سے نہیں، گلے لگانے سے حل ہو گا، نریندر مودی

گزشتہ برس بھارت کی آزادی کے 70 ویں سالگرہ پر وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ گولی یا گالی سے نہیں بلکہ گلے لگانے سے حل ہو گا۔ ہمیں کشمیر کے معاملے پر مل کر کام کرنا ہو گا تاکہ کشمیر کی جنت کو ہم دوبارہ محسوس کر سکیں اور ہم اس کے لیے پرعزم ہیں۔ کشمیر کے سلسلے میں بیان بازی اور الزام و جوابی الزام کا سلسلہ بہت چلتا ہے۔ ہر شخص ایک دوسرے کو گالی دینے میں مصروف ہے اور مٹھی بھر حریت پسند طرح طرح کے پینترے اختیار کرتے رہتے ہیں۔ اس لڑائی کو جیتنے کے لیے ان کا ذہن بالکل صاف ہے اور ان کی حکومت کشمیر کو جنتِ ارضی کی حیثیت واپس دلانے کے عہد کی پابند ہے۔

دوسری طرف سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کا کہنا ہے کہ نریندر مودی کی حکومت اپنی بد انتظامیوں کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر کے حالات کو سنبھال نہیں پائی۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ وہاں کے حالات دن بہ دن ابتر ہوتے جا رہے ہیں۔ بھارت کو مسئلہ کشمیر کو سمجھنا اور اسے حل کرنے کو یقینی بنانا ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری سرحدیں محفوظ نہیں ہیں۔ انہوں نے برسراقتدار بی جے پی اور پی ڈی پی اتحاد میں نظریاتی خلیج کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ اْنہوں نے ایسی حکومت قائم کی جس کی دو شاخیں ایک دوسرے کے خلاف کام کر رہی ہیں۔

بھارتی وزیر داخلہ کا مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے پانچ ’سی‘ فارمولہ

گزشتہ برس ستمبر میں بھارتی وزیرِ داخلہ راجناتھ سنگھ نے مسئلہ کشمیر کے حتمی حل کیلئے ’ نیا فارمولہ ‘پیش کیا ،انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس مسئلے کو انگریزی کے حرف Cسے شروع ہونے والی پانچ چیزوں سے حل کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہاcompassion(شفقت)،communication(گفتگو)،coexistence(بقائے باہم)،confidence building(اعتماد سازی)اور ان سبھی باتوں پر consistency. یعنی استحکام سے کام لیتے ہوئے مسئلہ کشمیر کا حتمی حل نکالا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ وہ ہر اس شخص سے ملنے پر آمادہ ہیں جو مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں انکی مدد کرنے کا خواہشمند ہو۔’’میں ہر اس شخص سے ملنا چاہتا ہوں کہ جو ہمیں کشمیر کے مسائل حل کرنے میں مدد دینے کا خواہشمند ہو۔کسی کو باضابطہ بات چیت کیلئے بلانے اور نہ بلانے کی بات ہی نہیں ہے،جو بات کرنا چاہتے ہوں انہیں آگے آجانا چاہئے۔ میں تو ہمیشہ ہی یہاں کھلے دماغ سے بات کرنے کیلئے آتا ہوں‘‘۔

مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے پاکستان کے ساتھ ڈائیلاگ ضرور ی ہیں،محبوبہ مفتی

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی اتحادی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے معاملے پر دوطرفہ مذاکرات پر زور دیا ۔ انہوں نے رواں برس فروری میں ٹویٹر میں اپنے پیغام میں کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے پاکستان کے ساتھ ڈائیلاگ ضرور ی ہیں۔ہمیں مذاکرات کرنے ہوں گے کیونکہ جنگ کوئی حل نہیں ہے،میں جانتی ہوں کہ مجھے نیوز اینکر کی جانب سے ملک مخالف کہا جائے گا لیکن یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے، جموں و کشمیر کے عوام مشکل میں ہیں۔گزشتہ برس بھی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات میںمحبوبہ مفتی نے کہا تھا کہ بات چیت کے بغیر کشمیر کے مسئلے کا حل ناممکن ہے۔ جب اٹل بہاری واجپائی وزیر اعظم تھے اور ایل کے یاڈوانی ان کے نائب تھے اس زمانے میں انھوں نے حریت سے بھی بات چیت کی تھی۔ اور اٹل بہاری واجپائی نے جہاں بات ختم کی تھی وہیں سے بات شروع ہونی چاہیے۔انھوں نے مزید کہا کہ بات چیت کے لیے ہیں پہلے ایک ماحول تیار کرنا ہے کیونکہ ایک طرف سے پتھراؤ اور دوسری طرف سے گولی کے ماحول میں بات چیت شاید ممکن نہیں ہو۔

کشمیر بھارت کے ہاتھوں سے نکل رہا ہے،فاروق عبداللہ

مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے سربراہ فاروق عبداللہ نے بھارت کو خبردار کیا کہ کشمیر ان کے ہاتھوں سے نکل رہا ہے۔ وادی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے بھارتی حکومت کو کشمیری نوجوانوں اور حریت سمیت پاکستان سے بھی بات کرنی ہوگی۔بھارتی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے فاروق عبداللہ کا کہنا تھا کہ دوسال کے دوران کشمیر میں صورتحال بہت تبدیل ہوئی ہے، اس سے قبل کہ بہت دیر ہو جائے مسئلے کا حل نکالنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں فوجی نہیں سیاسی حل کی ضرورت ہے، حکومت کو نوجوانوں اور حریت سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز سے بات کرنی چاہیے اور حکومت کو پاکستان سے بھی بات کرنی ہوگی۔بھارتی معروف کالم نگار شیکر گپتا کا کہنا تھا کہ کشمیر کی جغرافیائی سرحدیں محفوظ ہیں لیکن بھارت نفسیاتی اور ذہنی لحاظ سے مقبوضہ کشمیر کھو رہا ہے۔ سری نگر میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں صرف سات فیصد لوگوں کا ووٹ ڈالنا اس امر کا آئینہ دار ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی آہنی گرفت برقرار ہے لیکن لوگ ان کے ہاتھ سے نکل رہے ہیں۔لہٰذا مقبوضہ کشمیر میں جو تبدیلی ہے وہ بھارت کے لیے باعث تشویش ہے۔ یہاں تک کہ اعلیٰ فوجی حکام بھی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ حالت انتہائی سنگین اور نازک ہے۔

مسلہ کشمیر دوجوہری ممالک کو تیسری عالمی جنگ میں جھونک سکتا ہے

لیفٹیننٹ جنرل جے ایس سدھو کا کہنا تھا کہ عوام میں حریت پسندوں کے لیے بڑھتی ہوئی حمایت، ان کی مقبولیت اور عزت افزائی اور انتہا پسندی تشویش کا باعث ہیں۔ایک اور فوجی اہلکار کا کہنا تھا کہ پتھراؤ کرتے نوجوان سے زیادہ تشویش کی بات بڑھتی ہوئی انتہا پسندی ہے۔بھارتی خفیہ ادارے را کے سابق سربراہ امر جیت سنگھ دولت نے اپنی یاداشتوں میں لکھا کہ کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی اور کشمیر بالکل بھی نہیں ہے اور اس وقت جو حقیقت ہے وہ ہے نوجوان میں غصہ اور بھارت کے خلاف لوگوں کی بغاوت۔

مسئلہ کشمیر حل کریں،مرنے سے پہلے پاکستان دیکھنا چاہتا ہوں، رشی کپور

بھارتی اداکار رشی کپورگزشتہ برس مقبوضہ اور آزاد کشمیر کی ملکیت پر ایک ٹویٹ کی،رشی کپور نے اپنے ٹویٹ کا آغاز ’سلام‘ سے کیا اور اختتام ’جئے ماتا دی‘ سے۔انھوں نے ٹویٹ میں لکھا کہ‘فاروق عبداللہ جی سلام، میں آپ سے بالکل متفق ہوں۔ جموں اور کشمیر ہمارا، اور پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر ان کا ہے۔ یہی واحد طریقہ ہے اپنے مسئلے کو حل کرنے کا۔ اسے تسلیم کرلیں، میں 65 برس کا ہوگیا ہوں اور میں مرنے سے قبل پاکستان دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے بچے اپنے آبائی علاقے کو دیکھیں۔ بس کروا دیجیے۔ جئے ماتا دی!‘‘

یوم کشمیر منانے کی ابتدا

پاکستان میں ہرسال پانچ فروری یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منایا جاتا ہے جس کا آغاز 1990ء کو اس وقت ہوا جب جماعت اسلامی کے مرحوم امیر قاضی حسین احمد کی اپیل پر اس وقت کے اپوزیشن لیڈر اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد نوازشریف نے اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے اپیل کی کہ مقبوضہ جموں وکشمیر کے عوام کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی کی جائے جس پر پورے پاکستان میں 5 فروری 1990 کو کشمیریوں کے ساتھ زبردست یکجہتی کا مظاہرہ کیا گیا۔ملک گیر ہڑتال ہوئی اور بھارت سے کشمیریوں کو آزادی دینے کا مطالبہ کیاگیا۔ 

مسلہ کشمیر دوجوہری ممالک کو تیسری عالمی جنگ میں جھونک سکتا ہے

بعد ازاں پاکستان پیپلز پارٹی نے 5 فروری کو عام تعطیل کا اعلان کر کے کشمیریوں کے ساتھ نہ صرف یکجہتی کا مظاہرہ کیا بلکہ اس وقت کی وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو آزاد کشمیر کے دارلحکومت مظفرآباد تشریف لے گئیں جہاں انہوں نے اسمبلی اور کونسل کے مشترکہ اجلاس کے علاوہ جلسہ عام سے خطاب کیا،کشمیریوں کو ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا اور مہاجرین کشمیر کی آباد کاری کا وعدہ کیا۔ تب سے اس دن کو ہر برس سرکاری طور پر منایا جاتا ہے۔پورے ملک میں سرکاری تعطیل ہوتی ہے جبکہ آزادکشمیر اسمبلی اور کشمیر کونسل کے مشترکہ سیشن سے صدر یا وزیراعظم پاکستان خصوصی خطاب فرما کر جدوجہد آزادی کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں۔

مسئلہ کشمیر:چند اہم واقعات پر ایک نظر

کشمیر اقوام متحدہ کے چارٹر پر سب سے پرانا اور تاریخی مسئلہ ہے جو حل طلب معاملہ ہے۔ اس مسئلے کے باعث پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات مسلسل کشیدہ چلے آ رہے ہیں۔ اس تنازع سے منسلک چند اہم واقعات پر ایک نظر۔

٭ پاکستان اور بھارت اگست 1947 میں برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے محض چند ہفتوں کے بعد ، ایک ایسے وقت میں جب دونوں جانب سے تباہ حال اور لٹے پٹے پناہ گزینوں کے قافلوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا، اکتوبر میں کشمیر پر جنگ میں کود پڑے۔

مسلہ کشمیر دوجوہری ممالک کو تیسری عالمی جنگ میں جھونک سکتا ہے

٭-یکم جنوری 1948 میں بھارت نے یہ معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھایا اسکے بعد دونوں ملکوں میں فائر بندی کی ایک عارضی لائن پر اتفاق ہوا جس میں یہ طے پایا کہ دونوں ملک اپنے فوجی دستوں کو اس لائن سے پیچھے لے جائیں گے۔ یہ دونوں آزاد ملکوں کے درمیان ہمالیائی خطے میں پہلی جنگ بندی لائن تھی۔ سلامتی کونسل نے اپنی قرار داد میں کشمیر میں رائے شماری کرانے کے لیے پاکستان سے کہا وہ آزاد کشمیر سے فوجی نکال لے، جب کہ بھارت کو امن و امان کے قیام کے لیے کم سے کم فوجی رکھنے کی اجازت دی گئی۔ پاکستان نے اپنے فوجی انخلا کو بھارتی فوج سے مشروط کر دیا۔

٭-دونوں ملکوں کے درمیان اگست 1965 میں کشمیر کے محاذ پر ایک بار پھر جنگ چھڑ گئی،پاکستانی فوجی دستے بھارتی کنٹرول کے علاقے میں داخل ہوگئے ،دوسری طرف بھارت نے لاہور کو نشانہ بناتے ہوئے بین الاقوامی سرحد پر حملہ کر دیا۔

٭-جنوری 1966 میں دونوں ملکوں کے درمیان تاشقند میں ایک معاہدے پر دستخط ہوئے جس کے تحت دونوں ملکوں نے زیر قبضہ علاقے سے اپنی فوجیں واپس نکال لیں۔

٭-سن 1971 میں ایک بار پھر دونوں ملکوں میں کشمیر کے محاذ پر بھی جنگ چھڑ گئی جس کا نتیجہ اگلے سال جولائی میں شملہ کے مقام پر ہونے والے معاہدے کی شکل میں برآمد ہوا۔ اس معاہدے میں کشمیر کے متنازع علاقے کی جنگ بندی لائن کو لائن آف کنٹرول کا نام دیا گیا اور دونوں ملکوں نے کشمیر کے پرانے مسئلے کو باہمی طور پر حل کرنے پر اتفاق کیا۔لائن آف کنٹرول بننے کے بعد بھی دونوں ملکوں کے فوجیوں کے درمیان وقتاً فوقتاً جھڑپیں جاری رہیں۔

٭۔ 1989ء میں کشمیری حریت پسندوں نے بھارت کی ہٹ دھرمی اور اقوام متحدہ کی بے حسی سے مجبور ہوکر مسلح جدوجہد کا فیصلہ کیا تو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ آنے والے برسوں میں کشمیری عوام اس طرح ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے کہ بھارت نواز سیاسی قوتوں کو اپنا وجود برقرار رکھنا بھی مشکل ہوجائے گا۔

٭-سن 1999 میں یہ تنازع اس وقت ایک بار پھر بھڑک اٹھا جب پاکستانی فوجی کار گل کے ان بلند مورچوں پر قابض ہو گئے جنہیں بھارتی فوج سردیوں میں خالی کرکے نیچے اتر جاتی تھی۔ بھارت کودو ماہ ان چوکیوں کا قبضہ واپس ملا۔

٭- 2016 ستمبر کو لائن آف کنٹرول کے قریب واقع بھارتی فوجی مرکز اڑی پر عسکریت پسندوں کے حملے نے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کو اپنی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ اس حملے میں گولیوں کے تبادلے اور تیل کے ایک ڈپو میں آگ بھڑک اٹھنے سے کم از کم 18 بھارتی فوجی ہلاک ہوئے اور چاروں حملہ آور بھی مارے گئے۔ بھارتی عہدے داروں نے پاکستان پر اس حملے میں معاونت کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ فوجیوں کے خون کو رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا۔پاکستان نے بھارتی الزام کو مستر د کردیا۔

٭-جوہری قوت رکھنے والے دونوں ہمسایہ ملکوں کی جانب سے تندو تیز بیانات کے ماحول میں 29 ستمبر2016 کو بھارتی فوج نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے لائن آف کنٹرول کی پاکستانی جانب کئی مقامات پر سرجیکل اسٹراکس کرکے متعدد حریت پسندوں کو ہلاک کردیا ہے جب کہ پاکستان نے سرجیکل اسٹرکس کے بھارتی دعویٰ کو جھوٹ اور بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی فوجیوں نے سرحد پار سے فائرنگ اور چھوٹے ہتھیاروں سے گولہ باری کی تھی، جس کا مؤثر جواب دیا گیا۔ پاکستانی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ ایسی کسی بھی کوشش کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔

کشمیر کی تاریخ پر ایک نظر

پاک فوج کے ماہنامے’ہلال ‘ میں 2014میں کشمیر کی تاریخ پر ایک مضمون شائع ہوا جس کی تلخیص یوں ہے کہ کشمیر کی معلوم تاریخ تقریباً چھ سو سال قبل کی ہے ، مغل بادشاہوں کے خلاف افغانیوں نے جنگ لڑ کر کشمیر اور پنجاب پر قبضہ کیا اور طویل عرصہ حکومت کی۔ افغانیوں کا تسلط سکھوں نے ختم کیا اور پنجاب سمیت کشمیر پر حکومت کرنے لگے۔ جب انگریز برصغیر میں داخل ہوئے تو انہوں نے سکھوں سے جنگ جیت کر پنجاب سمیت پاک و ہند پر قبضہ کیا اور اس وقت کے جنگی قوانین کے تحت ہارنے کی صورت میں کشمیر بھی انگریزوں کے حوالے کیا جو بعد ازاں مہاراجہ گلاب سنگھ 75لاکھ نانک شاہی سکے انگریزوں کو ادا کر کے مشہور زمانہ ’’معاہدہ لاہور‘‘ کے تحت 1846ء میں پہلا حکمران بنا۔ 1858ء میں گلاب سنگھ کی وفات کے بعد پرتاب سنگھ حکمران بن گیا۔ اس وقت کے قانون کے مطابق ریاست سے باہر کا کوئی شخص اراضی خرید نہیں سکتا تھا۔ یہ قانون آج بھی ریاست پر لاگو ہے جس کی وجہ سے آزاد کشمیراور مقبوضہ کشمیر میں پاکستان یا بھارت کا کوئی شخص اراضی خرید نہیں سکتا۔ 1885ء میں رنبیر سنگھ اور 1925 میں پرتاب سنگھ کا بیٹا مہاراجہ ہری سنگھ بر سر اقتدار آیا۔ مسلمانوں نے ڈوگروں سے آزادی کی سیاسی و عسکری جدوجہد‘ دو قومی نظریے کی بنیاد پر‘ تقسیم ہندسے قبل شروع کر دی تھی ۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے انگریزوں کے ذریعے پاکستان اور ہندوستان سے معاہدے کر کے ریاست کی آزادانہ حیثیت برقرار رکھنے کی کوشش شروع کردی جب کہ کشمیری مسلمانوں نے قائداعظم سے مل کر ریاست جموں و کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنانے کی جد وجہد شروع کر دی جو مہاراجہ کو قطعی منظور نہ تھی ، ریاست کی دو بڑی سیاسی جماعتوں نیشنل کانفرنس اور مسلم کانفرنس نے قائداعظم کو کشمیر کے دورے کی دعوت دی۔دورے میں قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کا حصہ

بنانے کی خواہاں مسلم کانفرنس کو ہی مسلم لیگ قرار دیا ۔ نیشنل کانفرنس کے شیخ عبداللہ کا خیال تھا کہ ریاست کی آزادانہ حیثیت برقرار رہے،بعد میں مہاراجہ ہری سنگھ اور شیخ عبداللہ ایک ہو گئے۔ ان حالات میں 19جولائی 1947میں مسلم کانفرنس نے مشہور زمانہ قرارداد الحاقِ پاکستان منظور کی گئی۔ کشمیری مسلمانوں نے مسلح جدوجہد کی قیادت 22سالہ نوجوان سردار محمد عبدالقیوم خان کے سپرد کی۔ 23اگست1947ء کو نیلہ بٹ سے شروع ہونے والی جد وجہد 15ماہ تک جاری رہی اور ریاست جموں و کشمیر کے 84ہزار مربع میل علاقے میں سے 32ہزار مربع میل علاقہ (آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان) آزاد کرایا گیا۔ مہاراجہ ہری سنگھ کو جب اپنی پسپائی دکھائی دی تواس نے شیخ عبداللہ اور ہندوستان سے مدد مانگ لی کہ ریاست پر پاکستان نے حملہ کر دیا ہے۔ ہندوستان نے اپنی فوج بھی اتاری لیکن اس کے ساتھ ہی اقوام متحدہ میں پہنچ گیا۔ اقوام متحدہ نے یونائیٹڈنیشن کمیشن فار انڈیا اینڈ پاکستان بنایا جس نے سیز فائر کرو ا کر قراردادپاس کی کہ ہندوستان اور پاکستان رائے شماری کا اہتمام کریں جس میں کشمیری فیصلہ کریں گے کہ انہوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا ہے یا ہندوستان کے ساتھ۔ یاد رہے کہ شیخ عبداللہ نے کشمیر کی پاکستان کے ساتھ الحاق کی مخالفت ضرور کی لیکن ماسوائے مہاراجہ ہر ی سنگھ کے کسی کشمیری نے الحاق ہندوستان کی بات نہیں کی۔ اس تناظر میں بھارت کے زیر قبضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ ماننے کے بجائے اس کی حیثیت کو متنازع قراردیا گیا جس کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ سیز فائر اور قرارداد آنے کے بعد لائن آف کنٹرول کے اِس پار تحریک آزادی کا بیس کیمپ قرار دے کر یہاں آزاد حکومت قائم کر دی گئی جبکہ اْس پار بھی بھارت کے زیر تسلط حکومت قائم ہوئی جسے کشمیریوں کی اکثریت نے آج تک تسلیم نہیں کیا۔ مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تین جنگیں ہو چکی ہیں۔بھارت کی طرف سے اقوام متحدہ کے کمیشن کی 19سے زائد قراردادوں پر عملد رآمد کے انحراف کے سبب دونوں ممالک ایٹمی جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں جبکہ کشمیریوں نے پر امن جد وجہد کے بعد 1988ء سے 2002ء تک عسکری جد وجہد کی اور آج تک وہ 8لاکھ فوج کی بربریت کی وجہ سے ڈیڑ ھ لاکھ سے زائد جانیں ضائع کئے جانے کے باوجود بھارت سے آزاد ی کے حصول تک جدوجہد جاری رکھنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔

 دونوں طرف بہنے والاخون انسانوں کا ہی ہے

کشمیر کے تنازعے نے کئی نسلوں کو برباد کردیا

اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ میں مسئلے کا حل تشدد کے خاتمے اور مذاکرات کوقرار دیا ہے

ایک طرف تو مقبوضہ کشمیر کی چناروادی پر خوف، وحشت اور ڈل جھیل کے پانی پر اُداسیوں کا سکوت طاری ہے...تو دوسری طرف فوجی جیپوں پر انسانی جسموں کو ڈھال بنایا جارہا ہے... بندوق کے چھروں سے کم سن بچون سمیت نوجوان اور بزرگ افراد کے چہروں پر ہمیشہ ہمیشہ کے رہ جانے والے ظلم اور نفرت کے نشان چھوڑے جارہے ہیں۔ اُنہیں بصارت سے محروم کیا جارہا ہے ۔ عمر بھر کے لیے معذور کیا جارہا ہے۔ لائن آف کنٹرول ہو یا آزاد اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان خونی لکیر اس کے دونوں طرف بہنے والا خون کسی ایک طرف کے لوگوں کا نہیں۔ خون کارنگ ایک ہی ہے ....جو کئی دھائیوں سے بہہ رہا ہے۔ اور نجانے کب تک بہتا رہے گا۔ موسموں پر دسترس حاصل کرنے، چاند تک رسائی کو ممکن بنانے والوں نے اس خون کو بہنے سے روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی.... ایک دوسرے پر فتح حاصل کرنے اور سبقت لے جانے والے دونوں ملکوں نے ایٹم بم تو بنالیا، لیکن مجبور مقہوراور مظلوم کشمیریوں کے بہتے ہوئے خون کا کوئی مداوا نہیں کرسکے۔ اقوام متحدہ کی تاریخ کا سب سے پرانا حل طلب مسئلہ ، تاحال حل طلب ہےاور کشمیری عوام تاحال نوحہ کناں ہیں۔ اور نجانے کب تک رہیں گے.... تاہم ایسے میں پہلی مرتبہ اقوام متحدہ نے دونوں طرف کے کشمیر سے متعلق ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق ہائی کمشنر نے کہا کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمشن بنانے کی تجویز زیر غور ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بھارت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ گزشتہ 30 سالوں کے دوران فوج اور عسکریت پسندوں کے ہاتھوں ہونے والی ہلاکتوں کی نئے سرے سے تحقیقات کرنے کا کہا ہے اور ان واقعات میں ملوث اہلکاروں کو قانون کے کٹہر ے میں لانے کی راہ میں رکاوٹ بننے والے قوانین کے خاتمہ پر بھی زور دیا ہے۔ رپورٹ میں اسلام آباد پر زور دیا گیا ہے وہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں قانون کو ان لوگوں کے خلاف استعمال کرنے سے متعلق دیکھے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز بلند کر رہے ہیں۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قیادت اور پاکستان کے دفتر خارجہ نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق دفتر کی طرف سے بھار ت کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقو ق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن بنانے کی تجویز کا خیر مقدم کیا ہے۔رپورٹ کے تناظر میں اس توقع کا اظہار کیا جارہا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر کشمیر کے حوالے سے کسی سنجیدہ پیش رفت کا آغاز ہونے والا ہے۔

سیز فائر خلاف ورزیاں

پاکستان اور بھارت کے سرکاری اعدادوشمار

گزشتہ ماہ کے آخر میںپاکستان اور بھارت دونوں ملکوں کے ڈائرکٹر جنرلز آف ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم اوز) کے درمیان ہاٹ لائن پر بات چیت کے بعد یہ اعلان کیا گیا کہ ان کے درمیان نومبر 2003 میں طے پائے فائر بندی کے سمجھوتے پر اب مکمل طور پر عملدرآمد کیا جائے گا۔بات چیت میں لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری کی صورتحال بہتر بنانے، امن کو مستحکم کرنے اور سرحدی علاقوں کے قریب مقیم شہری آبادی کو مشکلات سے بچانے پر اتفاق کرتے ہوئے کہا گیا کہ سیز فائر معاہدے پر پوری طرح عملدرآمد کیا جائے گا، کسی مسئلے کی صورت میں تحمل سے کام لیا جائے گا اور ہاٹ لائن رابطوں اور مقامی کمانڈروں کی سطح پر فلیگ میٹنگز کے میکنزم کو بروئے کار لایا جائے گا دونوں ملکوں میں عوامی سطح پر خیر مقدم کیا گیا ،

مسلہ کشمیر دوجوہری ممالک کو تیسری عالمی جنگ میں جھونک سکتا ہے

وہیں امریکہ اور چین نے اسے خوش آئند قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی تھی کہ جنوبی ایشیاء کے دونوں ہمسایہ ممالک نے آپس کے معاملات کو افہام و تفہیم کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ 2003ء کاسیز فائر معاہدہ دونوں ملکوں کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم اوز) کی ہاٹ لائن پر بات چیت کے نتیجے میں ہی ہوا تھا۔

تازہ ترین