• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایل این جی تحقیقات ‘ معیشت کو خطرے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا ، شاہد خاقان

اسلام آباد(خالد مصطفیٰ)ایل این جی ٹرمینل معاہدے میں 2ارب ڈالرز کی ہیرا پھیری پر نیب تحقیقات جاری ہیں۔اس حوالے سے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ تحقیقات سے معیشت کے خطرے میں پڑنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔تاہم نیب ترجمان کا کہنا ہے کہ انکوائری سے ملک کا تشخص بہتر ہوگاکہ پاکستان سرمایہ کاری کے لیےمحفوظ مقام ہے۔تفصیلات کے مطابق،نیب کی جانب سے دسمبر 2016میں بند کیے جانے والے مقدمے کی دوبارہ تحقیقات سے ایل این جی سیکٹر کے لیے بنائے گئے ماحول کو مشکلات کا سامنا ہوگا اور اس کے سوا اس تحقیقات سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔یہ مقدمہ اس لیے بند کردیا گیا تھا کیوں کہ اس کی تحقیقات کےسبب ملک بھر میں ایل این جی سپلائی متاثر ہونے کا خدشہ تھا۔تاہم ایک مرتبہ پھر تحقیقات کے آغاز سے پاکستان کی معیشت اور توانائی سیکوریٹی متاثر ہوسکتی ہے۔سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ نیب کی جانب سے مبینہ دھوکہ دہی کے ذریعے پاکستان کے پہلے ایل این جی پروجیکٹ کےلیے اینگرو کمپنی کو 15سال کے لیے 2ارب ڈالرز کا کانٹریکٹ دیئے جانے کے حوالے سے تحقیقات کے باعث ایل این جی شعبے میں ہونے والی سرمایہ کاری کا عمل سست روی کا شکار ہوسکتا ہے۔تقریباً3برس کے بعد نیب نے 6جون 2018کو ایک مرتبہ پھر سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور نواز شریف کے خلا ف تحقیقات کی منظوری دے دی ہے، جو کہ اینگرو کے ساتھ ایل این جی ٹرمینل کے خلاف ضابطہ معاہدے سے متعلق ہے۔جب کہ اس وقت شاہد خاقان عباسی نواز شریف کی کابینہ میں وزیر پٹرولیم تھے۔شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ تحقیقات کے پیچھے خود سیاسی مقاصد ہیں۔نیب کراچی نے پہلے ضمنی انکوائری کا آغاز 29جولائی ،2015کو کیا تھا اور چیئرمین نیب سے وفاقی وزیر پٹرولیم اور قدرتی ذخائر شاہد خاقان عباسی اور دیگر اعلیٰ عہدیداروں کے خلاف مشتبہ معاہدے اور ایل ایس اے (ایل این جی سروسز ایگریمنٹ )میں ملوث ہونے پرباقاعدہ انکوائری کی درخواست کی تھی۔بعد ازاں دسمبر ،2016میں اس وقت کے ڈی جی نیب کرنل سراج نعیم نے یہ کہتے ہوئے مزید تحقیقات روک دی تھیں کہ کانٹریکٹ دینے کا عمل شفاف نہیں تھا ، تاہم اس کے باوجود طویل مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ چوں کہ یہ پروجیکٹ جاری ہے اور اس موقع پر نیب کی جانب سے کسی بھی قسم کی مداخلت سے قومی اہمیت کے منصوبے سے ایل این جی کی فراہمی کی کوشش خطرے میں آجائے گی۔شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھاکہ نیب کی جانب سےتحقیقات کے اعلان سے ایل این جی فراہم کرنے والے ممالک اور ایل این جی ٹریڈنگ کمپنیوں کو غلط اشارہ ملے گا اور اہم بات یہ ہے کہ بین الاقوا می کمپنیاں جیسا کہ ایکسون موبائل اور شیل جو کہ لوکل پرائیویٹ فرمز کے ساتھ مشترکہ طور پر سرمایہ کاری کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں وہ پورٹ قاسم پر واقع ایل این جی ٹرمینل میں سرمایہ کاری کا عمل آہستہ کرسکتے ہیں، جس سے ظاہر ہے ملک ہی متاثر ہوگا۔نیب تحقیقات سے ملک کو کچھ نہیں ملے گا سوائے اس کے کہ ایل این جی سیکٹر میں ممکنہ سرمایہ کاروں کے لیے ماحول خراب ہوگا۔شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ اگر وہ توانائی کے بحران کا شکار ملک میں ایل این جی درآمد کرنے کا کریڈٹ لیتے ہیں تو وہ کانٹریکٹ دینے کے عمل میں کسی خامی کی ذمہ داری بھی قبول کریں گے۔میں ہر قسم کی تحقیقات کے لیے حاضر ہوں تاہم نیب کو ان افراد کو ہراساں کرنے کی ضرورت نہیں ہےجو اس عمل میں شامل تھے کیوں کہ انہوںنے جو کچھ بھی کیا میری ہدایت پر کیا ۔شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ وہ نیب عہدیداروں کو اپنا بیان ایک مرتبہ پھر دینے کو تیار ہیں کہ ملک میں ایل این جی انفراسٹرکچر کی تعمیر کی تمام تر ذمہ داری ان کی ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان 1اعشاریہ 2بی سی ایف ڈی، ایل این جی ملک میں درآمد کرنے کے قابل ہوگیا ہے اور آئندہ دو سے تین سال میں اس میں 3اعشاریہ6بی سی ایف ڈی تک اضافہ ہوجائے گا ، تاہم اس کا دارومدار ملک میں سرمایہ کاری کے ماحول پر ہوگا۔اینگرو ایلنجی ٹرمینل لمیٹڈ(ای ای ٹی پی ایل)کے سی ای او جہانگیر پراچہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کمپنی نے ہمیشہ شفاف انداز میں اپنا کاروبار کیا ہے ، جسے اب تک جاری رکھا گیا ہے۔وہ متعلقہ حکومتی اداروں اور محکموں سے نیب انکوائری سے متعلق معلومات کے لیے ہرممکن تعاون کریں گے جیسا کہ ماضی میں بھی کیا گیا تھا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کی کمپنی اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ ایل این جی پاکستان کی توانائی کی سیکوریٹی کے لیے اہمیت کی حامل ہےاور اسے آزاد اور مسابقتی مرچنٹ ماڈل بنایا جائے گا ، تاکہ صارفین بہتر قیمت پر اسے حاصل کرسکیں۔نیب ترجمان نوازش علی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مستقبل میں ایل این جی درآمد کرنے والوں پر کوئی منفی اثرات مرتب نہیں ہوں گےاور نہ ہی ان ایل این جی درآمد کنندگان پر کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل ہوگی جو پاکستان میں قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد ایل این جی ٹرمینلز قائم کرنے کے خواہش مند ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ای ای ٹی پی ایل کے مبینہ غیر قانونی ایل این جی ٹرمینل کے حوالے سے نیب جو تحقیقات کررہا ہے وہ جاری ہےاور اس کے حوالے سے بات کرنا مناسب نہیں ہے، تاہم وہ اس بات کی یقین دہانی کراتے ہیں کہ تحقیقات بالکل شفاف اور میرٹ پر ہوں گی۔ان کا کہنا تھا کہ اس سے پاکستان کے تشخص میں بہتری آئے گی کہ یہ قانونی سرمایہ کاری کے لیے بہترین جگہ ہےاور نیب ملک بھر سے کرپشن کے خاتمے کے لیے شفافیت سے کام کررہا ہے ، خاص طور پر درآمداد کے حوالے سے خلاف قانون کاموں پر اس کا اہم کردار ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اصل درآمدکنندگان جو کہ صرف ایل این جی ہی نہیں بلکہ دیگر مصنوعات درآمد کرتے ہیں وہ ایسے ملک کو ترجیح دیتے ہیں جو بین الاقوامی اور مقامی سرمایہ کاری کے لیے محفوظ ہو کیوں کہ پورے ملک میں نیب کرپشن کے خلاف عدم برداشت کا حامی ہے۔
تازہ ترین