• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہارلی اسٹریٹ کلینک کی حساس معلومات بھارتی بلیک مارکیٹ میں فروخت ہوئیں

لاہور (صابر شاہ)ہارلی اسٹریٹ کلینک کے مریضوں کی حساس معلومات بھارتی بلیک مارکیٹ میں 4پائونڈ فی فائل کے حساب سے فروخت ہوئیں۔ برطانوی میڈیا ہائوس نے خفیہ تحقیقات کے بعد مریضوں کی معلومات کی فروخت کا پتہ لگایا ‘جس کے بعد پولیس تحقیقات کا حکم دیا گیا۔تفصیلات کے مطابق،جہاں بیگم کلثوم نواز کی بیماری اور ان کی وینٹیلیٹر پر اصل حالت سے متعلق شکوک وشبہات کا اظہار تقریباً ہر روز ٹی وی ٹاک شوز، اخبارات اور سوشل میڈیا پر ان کے شوہر نواز شریف کے سیاسی مخالفین کی جانب سے کیا جارہا ہے، وہیں تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ معروف برطانوی میڈیکل سہولیت فراہم کرنے والا ادارہ اپنے ہائی پروفائل مریضوں کی صحت سے متعلق تفصیلات جاری نہیں کرتا۔اکتوبر2009میں سیکڑوں فائلیں جس میں مریضوں کی حالت، ان کے گھر کا پتہ اور تاریخ پیدائش وغیرہ کی تفصیلات تھیں ، ان فائلوں کو غیر قانونی طورپر بھارت کی بلیک مارکیٹ میں فی کس 4پائونڈ کے حساب سے فروخت کردیا گیا تھا۔ معروف برطانوی میڈیا ہائوس ’’میل آن لائن‘‘ کے 18اکتوبر، 2009 کےایڈیشن کی رپورٹ کے مطابق، مریضوں کا خفیہ میڈیکل ریکارڈ جن کا علاج برطانیہ کے ایک بڑے اسپتال میں ہوا تھا ، اسے غیر قانونی طور پر خفیہ تحقیقات کرنے والوں کو فروخت کردیا گیا ۔اس میں مریضوں کی حالت، ان کے گھر کا پتہ اور تاریخ پیدائش وغیرہ کی تفصیلات تھیں ، جنہیں 4پائونڈ فی فائل کی معمولی قیمت پر فروخت کیا گیا۔یہ فائلیں دو افراد نے فروخت کی تھیں ، جن کا دعوٰی تھا کہ انہوںنے بھارت کی آئی ٹی کمپنیوں کے ذریعے ان معلومات تک رسائی حاصل کی تھی۔جہاں ہزاروں برطانوی میڈیکل ریکارڈز ہرسال کمپیوٹرائز کرنے کے لیے بھیجا جاتا ہے۔انہوںنے برطانوی مریضوں کے 100سے زائد ریکارڈز فراہم کیے، تاہم دعویٰ کیا کہ وہ ہزاروں مزید معلومات فراہم کرسکتے ہیں۔میڈیا ہائوس کا مزید کہنا تھا کہ ان ریکارڈز کے افشا ہونے سےبیرون ملک بھیجے جانے والے ہیلتھ ریکارڈ کی سیکوریٹی سے متعلق سنگین سوالات پیدا ہوگئے ہیں ۔ایک متاثرہ مریض کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ یہ ایک بڑی ڈکیتی سے بھی ایک قدم آگے ہے۔انفارمیشن کمشنر کا آفس اب الزامات کی چھان بین کررہاہے۔اس ضمن میں سیلی این پول جو کہ انفارمیشن کمشنر آفس میں تحقیقاتی سربراہ تھے ۔ان کا کہنا تھاکہ ہمیں پرائیویٹ مریضوں کے میڈیکل ریکارڈ کے بھارت میں فروخت کیے جانے پر سخت تشویش ہے۔آئی سی او حقائق کا پتہ لگائے گا ، اس کے بعد ہی فیصلہ کرے گا کہ اس سے متعلق کیا اقدامات کیے جائیں۔میڈیکل ریکارڈز حساس نوعیت کے ہیں اور انہیں لازمی محفوظ رکھا جانا چاہئے۔اسی طرح سیکوریٹی خلاف ورزی کے حوالے سے 18اکتوبر، 2008کو بھی تحقیقات کرائی گئی تھیں جو کہ آئی ٹی وی 1پر ہوئی تھیں ، جو کہ برطانیہ میں ایک کمرشل ٹی وی چینل تھا۔یہ چینل پہلے ایک علیحدہ ریجنل ٹی وی چینل کے نیٹ ورک کا حصہ تھا۔آئی ٹی وی فی الحال انگلینڈ ، ویلز، اسکاٹ لینڈ، آئزل آف مین اور چینل آئی لینڈ میں نشر کیا جارہا ہے۔آئی ٹی وی پروگرام کے میزبان کرس راجرز نے انٹرنیٹ کے ذریعے دو سیلز مین سے رابطہ کیا تھا کہ وہ میڈیکل ریکارڈ خریدنا چاہتے ہیں ۔ڈاکومینٹری میں کہاگیا کہ ریکارڈز کے لیے مارکیٹ ہوتی تھی کیوں کہ کمپنیاں انشورنس اور مجوزہ دوائیاں ضرورت مند مریضوں کو فروخت کرنا چاہتی ہیں۔میل آن لائن نے تحریر کیا کہ آئی ٹی وی کے ایک خفیہ تحقیقات کار نے جئیش باگچندانئی جو کہ جے کے نام سے مشہور ہے سے ملاقات کرکے اس کی فلم بنائی اور پھر 100سے زائد فائلیں بھجوائیں اور کہا کہ یہ بھارتی ٹرانسکرپشن سینٹر کے اسٹاف سے حاصل کی گئی ہیں جہاں میڈیکل ریکارڈ کو کمپیوٹرائز کیا جاتا ہے۔پروگرام کے محقیقین پھر ایک اور شخص کنال گارگتی سے ممبئی میںملے جو اپنے آپ کو جان کہلواتا تھا۔آئی ٹی وی نے جو 116فائلیں خریدیں ان میں سے 100تصدیق شدہ ان مریضوں کی تھیں جن کا علاج پرائیویٹ اسپتالوں میں ہوا تھا ۔میڈیا آوٹ لیٹ کے مطابق، تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ اس طرح کی کم از کم ایک کمپنی نے یورپ سے باہر اس کام کا ذیلی معاہدہ کیا ہے تاکہ پیسہ بچایا جاسکے ، جس کے باعث خفیہ معلومات افشا ہوئی۔ڈیٹا پروٹکشن ایکٹ کے تحت اس طرح کی معلومات یورپ سے باہر منتقل کرنا غیر قانونی عمل ہوتا ہے۔میل آن لائن نے لندن ہارلے اسٹریٹ کلینک کے ترجمان کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ مریضوں کی معلومات جو بھارت بھیجی گئیں وہ کلینک یا کنسلٹنٹس کے علم میں لائے بغیر بھیجی گئیں ۔جیسے ہی اس مسئلے سے متعلق آگہی ہوئی تھرڈ پارٹی سے ہر قسم کا کاروبار روک دیا گیا۔ہم تحقیقات کے لیے ہر ممکن معاونت فراہم کریں گے۔تاہم تحقیقات کے سامنے آتے ہی نومبر 2009میں بھارتی آئوٹ سارسنگ کمپنی کے سربراہ کو مریضوں کے خفیہ میڈیل ریکارڈ کی فروخت پر گرفتار کرلیا گیا ۔12نومبر، 2009 کے میل آن لائن کے ایڈیشن کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ پولیس نے اس خفیہ تحقیقات کے بعد ایک شخص کو گرفتار کیا گیا ۔جس کے بعد میل آن لائن نے لکھا کہ اس گرفتاری سے برطانیہ کے نیشنل ہیلتھ سروس اور پرائیویٹ اسپتالوں کی جانب سے بیرون ملک بھجوائے جانے والے میڈیکل ریکارڈ کی سیکوریٹی پر سوالات پیدا ہوگئے ہیں ۔اکتوبر 2009 میں آئی ٹی وی کی ڈاکومینٹری سامنے آنے کے بعد پولیس تحقیقات کا حکم دے دیا گیا تھا۔

تازہ ترین