فضل حسین سولنگی
پاکستان کی معیشت کا زیادہ تر دارومدار زراعت پر ہے لیکن بدقسمتی سے اس شعبہ کے ساتھ سوتیلی ماں کا سکول کیا جاتا ہے۔ کاشتکار یہ سمجھتا ہے کہ اس کا کام صرف کیمیائی کھادوں اور زہریلی سپرے کا استعمال کر کے فصل تیار کر نا ہے اور گورنمنٹ کا کام اس کی فصل ٹھیک ریٹ پر خریدتا ہے۔ حالانکہ اس سوچ کو مدنظر رکھ کر وہ متواتر خسارے میں جارہا ہے، اس کو سمجھنا چاہیے کہ سارے کام حکومت کے نہیں بلکہ اس کو خود بھی بہت کچھ کرنا ہے۔ چھوٹے چھوٹے تجربات سے ناصرف وہ کیمیائی کھادوں اور زہریلی سپرے سے جان چھڑا سکتا ہے بلکہ وہ اپنی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ کر سکتا ہے۔اخراجات کم اورزمین کی طبعی عمر بڑھ سکتی ہے۔ سب سے بڑھ کر صحت مند اور زیادہ پیداوار حاصل کر سکتا ہے۔ان چیزوں کا نہ تو ہمارے کاشتکار کو پتہ، نہ ہی حکومتی ادارے کاشتکاروں کی خاطر خواہ تربیت کررہے ہیں۔ کاشتکار کا فرض ہے کہ جدید ذرائع ابلاغ مثلاً پریس اور الیکٹرانک میڈیا کی طرف خاص توجہ دے۔ پاکستان کی ترقی کیلئے جہاں انڈسٹری ضروری ہے وہیں زراعت بھی بہت اہم ہے۔ حکومت کے ساتھ ہماری کاشتکار برادری کا حق بنتا ہے کہ زراعت کو جدید خطوط پر استوارکریں کیونکہ آبادی بڑھنے سے زرعی رقبہ کم ہورہا ہے ضروریات بڑھ رہی ہیں۔ہمیں اپنے وسائل کے اندر رہ کر اپنے مسائل خود حل کرنے ہوں گے ۔ اس کا واحد حل جدید اور آرگینک زراعت ہے ورنہ نہ صرف ہماری ملک کی ترقی رک جائے گئی بلکہ ہم عالمی برادری سے بھی پیچھے رہ جائیں گے اور اپنی آنے والے نسل کو مقروض در مقروض چھوڑجائیں گے ۔
اگر دھان کی کٹائی مکمل ہوچکی ہو تو آپ نے دھان کی فصل کے بقایا جات کو آگ ہر گز نہیں لگانی کیونکہ آپکو شاید پتہ نہ ہو کہ آگ لگانے سے کتنا نقصان ہو رہا ہے۔ آگ لگانے سے زمین کے مسام جل جاتے ہیں۔ زمین کی جلد جل جاتی ہے۔ زمین کے اندر مہربان کیڑے جل کر مر جاتے ہیں۔ آگ لگانے سے آدھی بوری کے برابر فاسفورس آدھی بوری نائٹروجن قریباً آدھی بوری پوٹاش جلا دیتے ہیں ۔ صرف راکھ سے 10فیصد پوٹاش ملتی ہے ۔ دھان کی کٹائی کے بعد جب بھی زمین و تر پر آئے تو دو مرتبہ ہل چلائیں پھر 5 کلو گرام یوریا کھاد کا چھٹہ کرکے روٹا ویٹ کردیں ۔ پھر جو بھی آپ کا جی جاہے فصل کاشت کریں اگر اس کے علاوہ بھی اور کوئی اچھا طریقہ ہو تو آپ ضرور کرسکتے ہیں ۔ مقصد صرف یہی ہے کہ فصل کے بقایا جات کو آگ ہر گز نہیں لگانی۔ یہ زمین کا حق ہے جو اس کو آپ نے واپس لوٹانا ہے ۔ اس میں نامیاتی مادہ جو سبز کھاد کی صورت میں زمین کو ملے گا۔
پاکستان کی دوسری بڑی فصل گند م کی ہے اور ہماری عوام کی مرغوب خوراک گندم ہی ہے۔ ہماری زمین اور آب و ہوا گند م کیلئے بہت موافق ہیں تقریباً ہر سال لاکھوں ایکڑ پر وطن عزیز میں گندم کاشت کی جاتی ہے۔ گندم کی کاشت سے پہلے زمین کا تجزیہ کرائیں، اس کو ہم پانی اور مٹی کا تجزیہ کہتے ہیں ۔ قریباً ہر ضلع میں ایک لیبارٹری ہے جو کہ تقریباً 20روپے میں ٹیسٹ کرکے دیتی ہے۔ ٹیسٹ کے بعد پتہ چل جائے گا کہ زمین اساسی ہے یا تیزابی ، دوسرے لفظوں میں اگر آپ کی زمین کا PHPلیول 8سے زیادہ ہے تو بطور فاسفورس آپ DAPسے پرہیز کریں بلکہ بطور فاسفورس آپ نائٹروفاس ، TSPیا SSP استعمال کرسکتے ہیں۔ بلکہ یہاں تک کہ بطورنائٹروجن بھی یوریا کے بجائے امونیم سلفیٹ استعمال کریں ۔
گندم کاشت کرنے سے پہلے زرعی ماہرین سے سیڈز کے بارے میں مشاورت ضرور کریں کیونکہ گندم کا ہر بیج ہر زمین کیلئے بہتر نہیں ہوتا ۔ مثال کے طور پر ہلکی میرا زمین میں بڑی قدآور ورائٹی موزوں سمجھی جاتی ہے۔ لہٰذا زمین کی مناسب ورائٹی کا انتخاب کریں ۔ گندم کی کاشت میںآدھا کلوگرام برسیم کا بیج چھٹہ کریں کیونکہ کھادوں کا استعمال بطور فولیئر کریںچھٹہ سسٹم سے پرہیز کریں۔ چھٹہ کرنے سے 50فیصد نائٹروجن اڑ جاتی ہے ۔ صرف 50فیصد پودے کو ملتی ہے۔فضا کے اوپر 36فیصد نائٹروجن فی ایکڑ موجود ہے ۔ گندم کاشت کرتے وقت اس طریقہ کار کو خاص طور پر مدنظر رکھیں کہ آپ کی فصل کے اندر ہوا کا گذر بھی آسانی سے ہوجائے ۔ ان چھوٹے چھوٹے مسائل پر اگر ہمارا کاشتکار توجہ دے تو بہت سے مسائل خودبخود حل ہوجائیں گے ۔ گندم کی فی ایکڑ پیداوار میں بھی اضافہ ہوگا اور اخراجات بھی کم ہوجائیں گے۔
کماد ہمارے ملک کی اب دوسری بڑی نقد آور فصل بن چکی ہے۔ پاکستان میں لاکھوں ایکڑ رقبہ پر گنا کاشت ہوتا ہے اور سیکڑوں شوگر ملیں پاکستان میں کام کررہی ہیں۔ قریباً دیگر فصلوں کی طرح کماد کی بھی ہماری فی ایکڑ پیداوار دیگر ممالک سے بہت کم ہے ۔ 630من فی ایکڑ پیداوار کاشتکار کو کوئی نفع دینے کے بجائے اخراجات بھی پورے نہیں کرسکتی ۔کاشتکار اگر وہ اپنی سوچ کو بدلے تو اس کو معقول روزی مل سکتی ہے۔ گنے کی کٹائی کے بعد گنے کی کھوری کو ہر گز آگ نہ لگائیں۔ دھان اور گندم کی طرح اس میں بھی فاسفورس ، نائٹروجن اور پوٹاش (اجزائے کبیرہ) کافی تعداد میں موجود ہیں ۔ کٹائی کے بعد اس کی کھوری کو فصل کے اندر بکھیر کر اس کو 20کلوگرام یوریا کھاد پانی 200لیٹر اور گندم دھک کا تیزاب 10کلوگرام فی ایکڑ مکس کر کے فلڈ کریں ۔ پھر دوسرے پانی پر یوریا 20کلوگرام پانی 200لیٹر اور گڑ کا شیرہ 10کلوگرام ملا کر فی ایکڑ فلڈ کریں ۔ایک ماہ کے اندر کماد کی ساری کھوری ڈی کمپوزڈ ہوکر پھر کھاد بن جائے گی ۔ پانی کی کھپت بھی کم ہوگی اور آئندہ سال پیداور بھی کم از کم 100من فی ایکڑ زیادہ آئے گی کیونکہ کھوری کوجلانے سے دیگر فصلات کی طرح کماد کی فصل پر بھی برے اثرات پڑتے ہیں ۔
دھڑا دھڑ کیمیائی کھادیں استعمال کرنے سے ہماری زمین کے اندر نامیاتی مادہ قریباً 0.50سے لے کر 0.80رہ جاتا ہے اوریہی وجہ ہے کہ ہماری پیداوار ایشامیں دیگر ممالک سے کم جب تک ہم آرگینک کھاد پر نہیں آئیں گے اس وقت تک ہماری زمین زرخیزی کی طرف واپس نہیں آئے گی ۔ آرگینک کھاد سے ہی پودوں کو متوازن خوراک ملتی ہے اور زمین کی عمر بڑھتی ہے ۔ پیداوار میں بھی دو گنا اضافہ ہوتا ہے ۔ اور کوالٹی اور مقدار کا بھی خاص فرق پڑتا ہے ۔